روزنامہ جنگ لاہور نے عید الاضحی کے روز ریاض سے ریڈیو کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے اعلیٰ سطح پر ایک مشاورت میں فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں سیاسی عمل کی اجازت دے کر عوام کے نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ قائم کی جائے گی اور چھ سال کے عرصہ میں پارلیمنٹ کو اقتدار منتقل کر دیا جائے گا۔ رپورٹ میں اس خبر کے ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک کے قدامت پسند مذہبی طبقے کی طرف سے اس فیصلے کی مخالفت متوقع ہے۔
چند سال قبل بھی اس نوعیت کی خبر آئی تھی کہ سعودی عرب میں مشاورتی نظام قائم کیا جا رہا ہے جس میں شاہی خاندان سے ہٹ کر دوسرے لوگوں کو بھی مشاورت کے نظام میں شریک کیا جائے گا اور اقتدار کے دائرہ کو وسعت دی جائے گی۔ جبکہ اس کے بعد ایک مجلس شوریٰ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا مگر صورتحال میں عملی طور پر کوئی تبدیلی اب تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ بلکہ حکومت و مشاورت کے نظام میں شرکت تو رہی ایک طرف، حکومتی اقدامات اور شاہی خاندان کی سرگرمیوں کے بارے میں اخبارات اور خطبات میں کسی ناقدانہ رائے کا اظہار بھی ابھی تک سعودی عرب میں شجر ممنوعہ ہے۔ اور اس سلسلہ میں شاہی خاندان کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ اب سے دس سال قبل خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی آمد کے موقع پر سعودی عرب کے دو سو کے لگ بھگ ممتاز علماء کرام اور دانشوروں کی طرف سے ایک عرضداشت سعودی فرمانروا کی خدمت میں پیش کی گئی تھی جس میں سعودی عرب کے داخلی نظام میں شرعی اصولوں کی روشنی میں ضروری تبدیلیوں کی درخواست کے ساتھ ساتھ امریکی فوجوں کو خلیج میں آنے کا موقع دینے کی بھی مخالفت کی گئی تھی۔ مگر اس عرضداشت کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا کہ علماء اور دانشوروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کھلے بندوں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں۔ حتیٰ کہ اس عرضداشت پر دستخط کرنے والے بہت سے علماء کرام اور دانشور گرفتار کر لیے گئے تھے اور بعض جلا وطنی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس لیے اگر سعودی عرب میں عوامی سطح پر مشاورت کا کوئی نظام طے کرنے کی تجویز ہے تو ظاہر بات ہے کہ ارباب علم و دانش کی طرف سے اس کا خیر مقدم ہی کیا جائے گا۔ جبکہ اخباری رپورٹ میں ظاہر کیے گئے اس خدشہ کی ہمیں کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ ملک کے قدامت پرست مذہبی طبقوں کی طرف سے حکومت و مشاورت کے نظام میں عوامی نمائندوں کی شرکت کی مخالفت کی جائے گی۔
دراصل اسلام کے بارے میں ایک بات مسلسل غلط فہمی کی وجہ سے سمجھ لی گئی ہے کہ اس کے سیاسی نظام اور حکومت کی تشکیل کے کاروبار میں عوام اور ان کے نمائندوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور یہ کہ کسی مسلمان حکومت کے قیام اور اس کی بقاء کا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ جس طاقتور گروہ کا بس چلے وہ اقتدار پر قبضہ کر لے اور جب تک اس میں اقتدار پر قبضہ جمائے رکھے کا دم خم باقی ہے اقتدار اس کا حق ہے۔ بدقسمتی سے اموی، عباسی اور عثمانی خلافتوں کے دوران خاندانی سیاسی ڈھانچوں کے تسلسل اور جنوبی ایشیا میں قائم ہونے والی مسلم حکومتوں کے خاندانی پس منظر نے اس خیال کو پختہ کر دیا ہے۔ اس لیے جب بھی اسلامی نظام حکومت کی بات ہوتی ہے تو ایک شخص، گروہ، یا خاندانی آمریت کا تصور ہی ذہنوں میں ابھرتا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اسلام کا آئیڈیل نظام مذکورہ حکومتیں نہیں بلکہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ خاندانی خلافتوں اور طاقت کے بل پر قائم ہونے والی حکومتوں کو مختلف ادوار میں برداشت ضرور کیا گیا ہے جس طرح ہمارے ہاں نظریۂ ضرورت بلکہ نظریۂ مجبوری کے تحت آئین سے ماورا حکومتوں کو برداشت کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ضرورت اور مجبوری کے تحت برداشت کی جانے والی حکومتوں کو نہ تو آئیڈیل تسلیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اسلامی دستور کی تشکیل میں انہیں بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں جب بھی کسی اسلامی حکومت کا قیام دستور و قانون کے حوالہ سے عمل میں لایا جائے گا اس کی بنیاد قرآن و سنت کے فیصلے اور خلفاء راشدینؓ کا تعامل اور طرز عمل ہی بنیں گے، اور انہی کی روشنی میں تشکیل پانے والا دستور ایک صحیح اسلامی دستور قرار پائے گا۔
حکومت کی تشکیل کے سلسلہ میں اسلام کا مزاج کیا ہے؟ اس کے بارے میں دو تین روایات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ پہلی روایت مسلم شریف کی ہے جو سیدنا ابوبکرؓ کے فضائل کے باب میں مذکور ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند روز قبل فرمایا کہ میں اپنے والد محترم ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمٰنؓ کو بلاؤں تاکہ آپؐ انہیں خلافت کے بارے میں کوئی دستاویز لکھ دیں۔ جناب نبی اکرمؐ کو خدشہ تھا کہ خلافت کا کوئی اور دعویدار نہ کھڑا ہو جائے لیکن پھر حضورؐ نے اس سے منع فرما دیا اور کہا ’’یا بی اللہ والمومنون الا ابا بکر‘‘ کہ ابوبکرؓ کے سوا اللہ تعالیٰ بھی کسی کو خلیفہ نہیں بنائیں گے اور مسلمان بھی ان کے سوا کسی کو خلیفہ کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔
اس کا مطلب واضح ہے کہ آنحضرتؐ نے پہلے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا لیکن بعد میں مسلمانوں کی اجتماعی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے عملاً ایسا نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب مسلمانوں کی باہمی مشاورت کے ذریعہ ہوا۔ خلافت اور امامت کے حوالہ سے اہل سنت اور اہل تشیع کے موقف کا بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حضورؐ نے اپنا جانشین خود مقرر کرنے کی بجائے اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ اہل تشیع کے نزدیک حضورؐ نے اپنے جانشین کی نامزدگی خود فرما دی تھی۔ اہل سنت کے نزدیک یہ نظام خلافت کہلاتا ہے اور اس کی تشکیل میں نامزدگی کا کوئی دخل نہیں ہے جبکہ اہل تشیع کے نزدیک یہ امامت کہلاتی ہے اور نامزدگی کے ذریعہ ہی اس کی تعمیل ہوتی آئی ۔
دوسری روایت بخاری شریف میں ہے جو امام بخاریؒ نے ’’کتاب الحاربین من اہل الکفر والردۃ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے آخری خطبہ جمعۃ المبارک میں یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں کہ اگر میرا انتقال ہوگیا تو فلاں بزرگ کے ہاتھ پر اسی طرح خلافت کی بیعت کر لیں گے جیسے ایک مجلس میں حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی تھی، اور جس طرح حضرت ابوبکرؓ کی خلافت منعقد ہو گئی تھی اسی طرح جس بزرگ کے ہاتھ پر وہ اچانک بیعت کر لیں گے ان کی خلافت کو تسلیم کر نے پر بھی لوگ مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن میں خبردار کرتا ہوں کہ کوئی شخص اس بات کے دھوکے میں نہ رہے کیونکہ جناب رسول اللہؐ کے وصال کے بعد حالات خاص نوعیت کے تھے اور حضرت ابوبکرؓ کی شخصیت مسلمانوں میں متفقہ تھی، اس لیے ایک مجلس کی بیعت کی وجہ سے ان کی خلافت تسلیم کر لی گئی تھی۔ اب تمہارے پاس ان جیسی کوئی شخصیت نہیں ہے جس کے سامنے سب لوگ گردن جھکا دیں، اس لیے جو شخص بھی عام مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر کسی کی بیعت کی بات کرے اس کی بات ہرگز قبول نہ کی جائے۔ بخاری شریف کی اس روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی باتیں کرنے والے لوگ مسلمانوں سے ان کے اختیارات غصب کرنا چاہتے ہیں اس لیے میں ان سے خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
گویا حضرت عمرؓ نے اپنے آخری خطبۂ جمعۃ المبارک میں یہ بات بطور اصول بیان فرما دی کہ کسی مسلمان حکومت کا قیام عام مسلمانوں کی مشاورت سے ہی عمل میں آسکتا ہے اور عام مسلمانوں کے شریک کیے بغیر ان سے بالا بالا کسی حکومت کے قیام کی کوشش ان کے اختیارات اور حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے جس سے گریز کی حضرت عمرؓ نے سختی کے ساتھ مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے۔
تیسری روایت بھی بخاری شریف کی ہے جو امام بخاریؒ نے حضرت مسور بن مخرمۃؓ اور حضرت مروان بن الحکمؓ کے حوالہ سے غزوۂ حنین کے باب میں اور چند دیگر ابواب میں بھی بیان کی ہے کہ غزوۂ حنین میں حاصل ہونے والا غنیمت کا مال اور قیدی حضورؐ نے مجاہدین میں تقسیم فرما دیے تو اس کے بعد شکست خوردہ قبیلہ بنو ہوازن کا وفد آیا جس نے آپؐ سے اپنے قیدی اور مال واپس مانگے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا کہ میں کافی دنوں سے تمہارا انتظار کرتا رہا ہوں مگر تم نہیں آئے تو میں نے مال بھی مجاہدین میں تقسیم کر دیا ہے اور قیدی مرد اور عورتیں بھی ان میں بانٹ دی ہیں۔ اس لیے دونوں تمہیں واپس نہیں مل سکتے ان میں سے ایک کا انتخاب کر لو تو میں مسلمانوں سے اس سلسلہ میں بات کرتا ہوں۔ بنو ہوازن کے وفد نے کہا کہ ہمیں ہمارے مرد اور عورتیں واپس کر دیے جائیں جو جنگ میں آپ نے قید کر لیے تھے اور جنہیں غلام اور لونڈیاں بنا کر آپ نے لشکر میں تقسیم کر دیا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے ان سے قیدیوں کی واپسی کا وعدہ کر لیا اور مسلمانوں کو جمع کر کے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ اس وقت بارہ ہزار کے قریب مسلمان تھے۔ ان سے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں نے قیدیوں کی واپسی کا وعدہ کر لیا ہے اس لیے تم میں سے محض اپنی خوشی سے قیدی واپس کر دے تو اس کی مرضی ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنا قیدی واپس نہ کرنا چاہے تو میں اس سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ یہ قیدی واپس کر دے تو میں اس کے عوض اگلی جنگ کے قیدیوں میں سے قیدی اسے دے دوں گا۔ لشکر کے سب حضرات نے آپؐ کا یہ ارشاد گرامی سن کر بیک آواز کہا کہ ہم سب بخوشی اپنے اپنے قیدی واپس کرتے ہیں۔ لیکن جناب نبی اکرمؐ نے اس اجتماعی آواز پر اطمینان نہیں فرمایا اور کہا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ تم میں سے کون بخوشی راضی ہے اور کون اس بات پر خوش نہیں ہے۔ اس لیے سب اپنے خیموں میں واپس جاؤ اور تمہارے عرفاء (نمائندے) ہمیں آکر تمہاری رائے سے آگاہ کریں پھر ہم حتمی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ سب لوگ خیموں میں واپس ہو گئے اور ان کے نمائندوں نے باری باری آکر حضورؐ کو بتایا کہ سب لوگ قیدیوں کو واپس کرنے میں بخوشی راضی ہیں، اس پر آپؐ نے بنو ہوازن کے قیدی ان کو واپس کر دیے۔
اس روایت سے یہ بات بطور اصول معلوم ہوتی ہے کہ جہاں حقوق کا معاملہ ہو وہاں سب کی رائے لینا ضروری ہے اور اگر سب لوگوں کی رائے براہ راست معلوم کرنا ممکن نہ ہو تو ان کے نمائندوں کے ذریعہ بھی ان کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے۔ اور یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے کہ لوگوں کے جذبات، رائے اور احساسات معلوم کر کے حکومت تک پہنچانے والے افراد حکومت کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ انہیں نبی اکرمؐ نے ’’عرفاءکم‘‘ یعنی ’’تمہارے نمائندے‘‘ کہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان نمائندوں کا تعین حکومت کا کام نہیں بلکہ عام لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا چناؤ کریں تاکہ وہ ان کے حقوق، آراء، جذبات اور احساسات سے حکومت کو آگاہ کر سکیں۔
اس پس منظر میں اگر سعودی حکومت ملک کے نظم و نسق اور مشاورت کے نظام میں عوام کو شریک کرنے کا کوئی پروگرام طے کرتی ہے اور عوام کی رائے، جذبات اور مسائل سے آگاہی کے لیے عوامی نمائندوں کے چناؤ کا کوئی نظم بناتی ہے تو یہ اسلامی اصولوں سے انحراف نہیں ہوگا بلکہ اسلام کے ان اعلیٰ اصولوں اور اقدار کی طرف واپسی کا عمل ہو گا جس کی وضاحت حضرت عمرؓ نے اپنے آخری خطبہ جمعۃ المبارک میں فرمائی تھی۔ اور جن اصولوں اور اقدار و روایات سے مسلسل انحراف کر کے ہم نے خود اسلام کے آئیڈیل اور اعلیٰ سیاسی نظام کو شکوک و شہبات کے دھندلکوں میں گم کر رکھا ہے۔