بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجلس صوت الاسلام، اس کے شرکاء اور منتظمین کو نئے کورس کے آغاز پر، نئے تعلیمی سال کے آغاز پر مبارک ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو یہ تعلیمی سال خیر و برکت کے ساتھ، ذوق و شوق، محنت اور توجہ کے ساتھ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
علماء کرام کے لیے ’’تربیتِ خطباء کورس‘‘ کے عنوان سے یہ کورس ہر سال ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے بڑے فضلاء اور دانشور آپ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ میں بھی کچھ باتیں کیا کرتا ہوں۔ آج آغاز ہو رہا ہے، میں اس کورس کے حوالے سے دو تین باتیں تمہیداً عرض کرنا چاہتا ہوں۔
خطابت کی اہمیت کیا ہے، اس کے مختلف پہلو کیا ہیں، اس کی ضرورت کیا ہے؟ خطابت کہتے ہیں گفتگو کو، جس کو قرآن پاک نے ’’علمہ البیان‘‘ سے تعبیر کیا ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو قوتِ نطق، قوتِ بیان عطا فرمائی ہیں اور یہ انسان کا خاصہ ہے۔ یہ نطق و گفتگو انسان کو اللہ پاک نے سکھائی اور آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کے ساتھ علم اور فہم نصیب فرمایا۔ چنانچہ جب انسان کی تعریف کرتے ہیں تو حیوانِ ناطق کے طور پر کرتے ہیں کہ جانوروں میں یہ وہ جانور ہے جو گفتگو کر لیتا ہے، اس کو قوتِ نطق اور قوتِ گویائی عطا ہوئی ہے۔ یہ انسان کا امتیاز اور خاصہ ہے کہ وہ اپنی بات کو، ما فی الضمیر کو، تفصیلات کو زبان کے ذریعے بیان کر لیتا ہے۔ اور اس میں مہارت اور کمال کا نام خطابت ہے، جس کو فصاحت و بلاغت سے بھی تعبیر کر لیتے ہیں۔
میں یہ عرض کروں گا کہ اس کی دینی ضرورت کیا ہے؟ خطابت اور ابلاغ کے سارے ذرائع دین کی ضروریات میں سے ہیں۔ ایک زمانے میں بات پہنچانے کے، متاثر کرنے کے، ذہن سازی کرنے کے، ذہنوں کو تبدیل کرنے کے، ہم نوا بنانے کے، ابلاغ اور بریفنگ کے دو ذرائع تھے: خطابت اور شاعری۔ اُس زمانے میں آج کے جدید ذرائع نہیں آئے تھے لیکن خطابت اور شاعری تھی۔ حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کو اللہ پاک نے اپنے دور میں قوتِ بیان اور فصاحت میں سب سے زیادہ امتیاز عطا فرمایا تھا۔
حتیٰ کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت کو تو ان کے مخالفین جادو سے تعبیر کرتے تھے کہ یہ گفتگو نہیں کرتے جادو کرتے ہیں۔ مشرکین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خطابت کو شاعری سے تعبیر کرتے تھے، اور آپؐ کی فصاحت اور بلاغت کو ان کے دور کے لوگ کہانت سے تعبیر کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اس کی نفی کی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی فصاحت و بلاغت تھی اور قرآن پاک کا اپنا امتیاز اور مقام تھا۔ حضورؐ کی فصاحت اور قرآن پاک کا اعجاز، اس کے سامنے مشرکینِ عرب عاجز آ گئے تھے۔
بہرحال خطابت انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کو ملنے والی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اور فصاحت بھی نبوت کی صفات میں سے ہے کہ نبی اپنے دور کا فصیح ترین آدمی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے لوگوں تک بات پہنچانی ہوتی ہے، سمجھانی ہوتی ہے، منوانی ہوتی ہے، اور لوگوں کو اپنے قریب لانا ہوتا ہے۔ ویسے خطیب الانبیاء کا لقب تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں سے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے۔ آپؑ بڑے فصیح اللسان بزرگ تھے، فصاحت و بلاغت میں اللہ پاک نے بڑی قدرت عطا فرمائی تھی۔ الغرض خطابت دین کے ضروریات میں سے ہے، دینی تقاضوں میں سے ہے، اور دینی صفات میں سے بھی ہے۔
خطابت دینی مقاصد میں سے ہے۔ نبی ہو یا داعی ہو، معلم ہو یا مربی ہو، اس کا کام چونکہ سنانا، سمجھانا اور قائل کرنا ہوتا ہے، اور اس کے ذرائع میں سے اُس وقت بڑا ذریعہ خطابت ہوتی تھی، اس لیے قرآن پاک نے اس کا ذکر کیا۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی رعایت رکھتے تھے۔ حضور نبی کریمؐ کے صحابہؓ میں خطابت میں بڑے بڑے لوگ معروف تھے، مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ حضرت علیؓ بڑے خطیب تھے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خطیبۃ النساء تھیں، بڑی خطیبہ تھیں۔ اور دو خطیب تو بہت معروف ہوئے: ایک ثابت بن قیس انصاریؓ جنہیں خطیب الانصار، خطیب رسول اللہ اور خطیب الاسلام کہا جاتا تھا۔ اور ایک حضرت اسماء بنت یزید بن سکنؓ انصاریہ بڑی خطیبہ تھیں، روایات میں آتا ہے کہ خطیبۃ الانصار اور خطیبۃ النساء ان کا لقب تھا۔
(۱) خطابت کا ایک تو فنی پہلو ہے کہ گفتگو کا انداز، گفتگو کا اسلوب، گفتگو کا لہجہ، اس کے اپنے فنی تقاضے ہوتے ہیں، اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہنے کا انداز اور اسلوب بہتر ہو تاکہ بات سمجھ آئے۔
(۲) اور ایک خطابت کا مقصدی پہلو ہوتا ہے کہ خطابت کا مقصد کیا ہے۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی دو دائرے چلے آ رہے ہیں: ایک دین کی دعوت کا، دوسرا دین کے دفاع کا۔ دین کی دعوت کے لیے بھی خطابت استعمال میں آئی ہے، اور دین کے دفاع کے لیے بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطابت کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
دعوت کا دائرہ الگ ہے، دفاع کا دائرہ الگ ہے۔ دعوت کا لہجہ الگ ہے دفاع کا لہجہ الگ ہے۔ دعوت کا اسلوب اور ہے، دفاع کا اسلوب اور ہے۔ میں بات سمجھانے کے لیے یہ بات عرض کیا کرتا ہوں، یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ایک ملک کے نظام میں وزارتِ خارجہ ہوتی ہے، سفارتکار ہوتے ہیں، ڈپلومیٹس ہوتے ہیں۔ اور اسی نظام کا فوج بھی اور جرنیل بھی حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن فوج کا دائرہ الگ ہے اور سفارتکاری کا دائرہ الگ ہے۔ دونوں ملکی ضرورت ہیں، لیکن سفیر کی زبان اور ہوتی ہے، جرنیل کی زبان اور ہوتی ہے۔ ڈپلومیٹ جب میز پر بیٹھتا ہے تو اس کی گفتگو کا لہجہ ہی اور ہوتا ہے، الفاظ کا انتخاب اور ہوتا ہے، اسلوب اور ہوتا ہے۔ لیکن جرنیل جب میدانِ جنگ میں بات کرتا ہے تو اس کا لہجہ اور ہوتا ہے۔ حالانکہ دونوں ملک کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فرق اگر ملحوظ نہ ہو، میں کہا کرتا ہوں کہ اگر جرنیل سفارتکاروں والی زبان شروع کر دے گا تو جنگ ہار جائے گا، اور سفارتکار اگر میز پر بیٹھ کے جرنیل والی زبان بولیں گے تو بیڑا غرق کر دیں گے۔
یوں ہی دعوت کا اپنا دائرہ ہے، دفاع کا اپنا دائرہ ہے۔ داعی کی زبان اور ہوتی ہے، ہم بسا اوقات آپس میں الجھ پڑتے ہیں کہ وہ کس طرح بات کر رہا ہے! بھئی داعی کو داعی کے لہجے میں بات کرنے دو۔ جو دفاع کر رہا ہے اس کو دفاع کے لہجے میں بات کرنے دو۔ وہ بھی ٹھیک کر رہا ہے، یہ بھی ٹھیک کر رہا ہے۔
بہرحال میں نے عرض کیا کہ خطابت کا مقصدی پہلو یہ ہے کہ ہم خطابت اس لیے کریں تاکہ دنیا کو دین کی دعوت دے سکیں، دین کی بات لوگوں تک پہنچا سکیں، دین کی تعلیم اور تفہیم کر سکیں۔ اور خطابت اپنے مسلمانوں کے داخلی ماحول میں دین کی تبلیغ، تعلیم و تربیت اور تفہیم کا ذریعہ بھی ہے۔
آج کل زیادہ دائرہ دفاع کا ہی ہے کیونکہ آج ہم دفاعی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ ایک زمانہ ہمارا دعوت کا تھا، ہم دنیا میں پھیل رہے تھے، اب ایک عرصے سے ہم دفاع پر کھڑے ہیں کہ کبھی اِدھر سے حملہ ہوتا ہے کبھی اُدھر سے، کبھی کوئی اعتراض ہوتا ہے، کبھی کوئی اشکال سامنے آتا ہے۔ علمی و فکری دنیا میں، تہذیبی دنیا میں، اور سیاسی دنیا میں ہم پر اعتراضات پر اعتراضات، شکوک در شکوک ہو رہے ہیں، تو ہمیں ان کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ میں نے گزارش کی کہ دوسرا پہلو اس کا مقصدی ہے کہ ہم دین کی دعوت کے لیے، دین کی تعلیم کے لیے، عام آدمی کو دین سمجھانے کے لیے، اور دین پر ہونے والے اعتراضات کے جواب کے لیے، اسلام کے دفاع کے لیے، خطابت کو ہر دائرے کے تقاضوں کے مطابق سمجھیں اور ہر شعبے کی ضروریات کے مطابق اس کو استعمال میں لائیں۔
(۳) تیسرا دائرہ خطابت کے مواد کا ہوتا ہے کہ خطابت میں کیا ہونا چاہیے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خطبہ میں قرآن پاک پڑھا کرتے تھے۔ عرب کا ماحول تھا، قرآن پاک عربی زبان میں تھا اور اس دور کے اسلوب میں تھا۔ تو حضورؐ کو کوئی اور بات کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ جناب نبی کریمؐ کے زمانے میں قرآن پاک دعوت کا بڑا ذریعہ تھا، کوئی بات ساتھ وضاحت کے لیے فرما دیتے تھے۔ لیکن جب دوسری قوموں سے واسطہ پڑا تو قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تشریح، اس کی تطبیق، اور اس کی توجیہات بھی ساتھ شامل ہوتی گئیں۔ خطابت کا تیسرا پہلو اس کے مٹیریل کا ہے کہ خطابت میں کون سا مواد ہونا چاہیے۔
خطابت کے یہ تین پہلو میں نے عرض کیے۔ اس پر تفصیل سے ہر موضوع پر بات ہوگی۔ آج ہم کورس کا آغاز کر رہے ہیں تو آغاز میں، میں نے تمہید کے طور پر تھوڑی سی گفتگو کی ہے، ان شاء اللہ العزیز کل سے ہم باقاعدہ گفتگو کا آغاز کریں گے۔
اس کورس کے دوران میری گفتگو دو تین حوالوں سے ہو گی:
(۱) ایک تو یہی خطابت کی ضروریات، خطابت کا مواد، خطابت کی مقصدیت اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ۔ چونکہ میرا گفتگو میں دفاعی دائرہ زیادہ ہوتا ہے۔ دعوت کے میدان میں دیکھنا ہو تو حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم کا ہے۔ وہ داعی کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اشکال ہوتا ہے، میں کہتا ہوں کہ وہ داعی ہیں انہیں داعی کے لہجے میں بات کرنے دو۔ ہم دفاع کرنے والے ہیں، ہمیں دفاع کے لہجے میں بات کرنی ہے۔ ان کو ہمارے دائرے کی طرف مت کھینچو، اور خود اُس دائرے میں اگر نہیں جا سکتے تو نہ جائیں۔ بہرحال میرا زیادہ تر دائرہ دفاع کا ہوتا ہے۔
(۲) اس وقت دنیا میں دین کے اعتبار سے، تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سے، نظریہ اور نظام کے اعتبار سے ہمارے معاصرین کون ہیں اور ان کے ساتھ ہماری کیا کیا کشمکش ہے؟ یہ بہت بڑا دائرہ ہے جس کو ہم عام طور پر بڑے محدود تصور کے ساتھ تقابلِ ادیان کہہ دیتے ہیں، مطالعۂ مذاہب کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تقابلِ ادیان اور مطالعۂ مذاہب کا دائرہ صرف اتنا ہے کہ دو چار مسئلوں پر ہم مناظرہ سیکھ لیں کہ ان کی دلیل کیا ہے، ہماری دلیل کیا ہے؟ ان کی حجت کیا ہے، ہماری حجت کیا ہے؟ ان کا جواب کیا ہے، ہمارا جواب کیا ہے؟ یہ ایک چھوٹا سا دائرہ ہے۔
مطالعۂ مذاہب اور تقابلِ ادیان میں عام طور پر میں جس دائرے میں گفتگو کیا کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے معاصر مذاہب کونسے ہیں۔؟ اس وقت کی آٹھ ارب کے لگ بھگ انسانی آبادی میں مذہب، نظام، تہذیب اور ثقافت کے حوالوں سے ہمارے معاصرین کون ہیں۔ معاصر سے گفتگو بعد کی بات ہے، پہلے معاصر سے واقف تو ہوں کہ وہ ہے کون؟ اس کا تعارف کیا ہے، اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ ایک تو یہ ہے کہ اپنے معاصرین کا ہمیں پتہ ہونا چاہیے۔
مثال کے طور پر اس وقت انسانی دنیا میں، انسانی سوسائٹی میں مذہبی اعتبار سے ہمارا واسطہ مسیحی حضرات سے پڑتا ہے، یہودیوں سے، ہندوؤں سے، بدھوں سے اور سکھوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ سے علاقائی اعتبار سے اور کچھ سے عالمی اعتبار سے۔ بڑے مذاہب جن کے ساتھ ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ پانچ سات ہیں۔ مثلاً سکھ ازم ہمارا پڑوسی مذہب ہے، بلکہ ہمارا داخلی پنجاب کے دائرے کا مذہب ہے۔ ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟ ان کے عقائد کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ ان کا فرق کیا ہے؟ ہمارے ساتھ ان کا تنازع کیا ہے؟ کون سے مشترکات ہیں اور کون سی اختلافی باتیں ہیں؟ تو پہلا دائرہ معاصرین کا تعارف اور ان کے ساتھ فرق اور امتیاز کا واضح کرنا ہے۔ یا مثلاً عیسائیوں کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہے؟ یہودیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ ہندوؤں کے ساتھ ہمارا ہزار بارہ سو سال سے کیا معاملہ چلا آ رہا ہے؟ تو پہلا دائرہ معاصرین کی پہچان کا ہے کہ ان سے ہمیں پہچان ہونی چاہیے۔
(۳) ہمارا امتیاز اور فرق کیا ہے؟ مثلاً مغربیت اب ایک مستقل مذہب بن گیا ہے۔ اہلِ مغرب تو اپنے آپ کو مذہب سے لا تعلق کہتے ہیں، لیکن نہیں! مغربیت نے، سیکولرازم نے باقاعدہ ایک مذہب کی شکل اختیار کر رکھی ہے، جو مذہب کا نام لیے بغیر مذہب کے سارے لوازمات اپنے اندر رکھتا ہے۔ عقیدہ بھی رکھتا ہے، کمٹمنٹ بھی اور سارے معاملات رکھتا ہے۔ نظریہ، فکر، نفی، اثبات، سارے کام اس کے ہوتے ہیں۔ تو پہلے تعارف اور اس کے بعد امتیازات۔
آج ہماری ایک تو عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور سکھوں سے مذہبی کشمکش ہے، اور ایک ہماری تہذیبی کشمکش ہے۔ اس وقت ہم دنیا بھر میں تہذیبی کشمکش کے دائرے سے گزر رہے ہیں۔ مغرب کی تہذیب کے لیے ہماری تہذیب چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ہمارا خاندانی نظام، ہمارا فکری نظام، ہمارا اعتقادی نظام۔ مغرب کے بنیادی ہتھیار ہیومن رائٹس اور سولائزیشن ہیں۔ تو یہ کیا چیز ہے، اس سے تعارف حاصل کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا ہم ان شاء اللہ العزیز بات کریں گے سولائزیشن پر، ہیومن رائٹس پر، ہیومینٹی پر، اس حوالے سے کہ اسلام کا اور ان کا فرق کیا ہے؟ وہ کیا کہتے ہیں اور ہم کیا کہتے ہیں؟
(۴) اور ہمارا موضوع یہ ہوگا ان شاء اللہ العزیز کہ آج کے عصری دور میں اسلام کے قوانین و احکام کو ہم نے کس طرح پیش کرنا ہے۔ آج کے عصری مسائل کے حل میں اسلام کیا کہتا ہے، قرآن پاک کیا کہتا ہے، جناب نبی کریمؐ کی سنت و حدیث کیا کہتی ہے؟ آج کی انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں اور مسائل کے حل کے لیے انسانیت پریشان ہے۔ ہمارے پاس حل تو موجود ہے مگر پہنچانے کا اسلوب نہیں ہے۔
یعنی یوں سمجھ لیجیے کہ تیل کے چشمے تو ہمارے پاس ہیں مگر مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے پائپ لائن نہیں ہے۔ میں پورے شرح صدر کے ساتھ، پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج کی نسلِ انسانی کو، آٹھ ارب کے لگ بھگ انسانوں پر مشتمل گلوبل سوسائٹی کو جو مسائل درپیش ہیں، اس کا قرآن پاک میں، حدیث و سنت میں بالکل مکمل حل موجود ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پائپ لائن نہیں ہے۔ ہم اس کو دنیا تک ڈلیور کرنے کی، پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم اس کا اسلوب نہیں رکھتے، ذوق نہیں رکھتے، صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہمارے ساتھ معاملہ یہ پیش آ رہا ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی عملی میدان میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ سچی بات ہے مجھے معاف فرمائیں۔
چنانچہ آج کی گلوبل سوسائٹی سے آج کے ماحول میں، آج کی نفسیات میں، آج کے فکری دائروں میں اسلام کی بات کرنا، قرآن پاک کی اور حدیث و سنت کی بات کرنا، شریعت کی بات کرنا، اس کے لیے ہمیں بہتر اسلوب کیسے اختیار کرنا چاہیے۔
اس سال کے کورس کے دوران ہمارے یہ موضوعات ہوں گے ان شاء اللہ۔ میں ایک بار پھر آپ سب حضرات کو مبارکباد دیتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت تمام اساتذہ کرام کو، جن میں ہمارے محترم ڈاکٹر سعد صدیقی صاحب ہمارے فاضل بزرگ اور دوست ہیں، مولانا شفیق بستوی صاحب ہیں، اور جو آپ کے دیگر اساتذہ ہیں، اللہ پاک انہیں اور مجھ طالب علم کو بھی توفیق دیں، اور آپ شرکاء کو بھی توفیق دیں کہ یہ سال آپس میں مل بیٹھیں گے تو کچھ مقصد کی باتیں ہم کہہ سن سکیں اور سمجھ سمجھا سکیں۔ اللہ پاک ان پر عمل کی توفیق بھی عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔