محمد ندیم: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
جے ٹی آر میڈیا میں آپ کا میزبان محمد ندیم آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ ناظرین محترم! آج ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج ہمارے ساتھ عالم اسلام کا ایک بہت ہی معتبر نام، معروف رائٹر، مصنف، اور ڈائریکٹر ہیں الشریعہ اکیڈمی کے اور بہت بڑا نام ہے یہ خاص طور پر فکری حوالے سے جو گفتگو ہوتی ہے پوری دنیا میں، ان کو جانا جاتا ہے، میری مراد مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں، جو آج ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ سر! بہت شکریہ ٹائم دینے کا، آپ نے وقت دیا۔
سوال: سب سے پہلا سوال میرا آپ سے یہ ہے کہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف آج کل جو نظر آ رہا ہے، جو رائے کا اختلاف ہے، یا وہ علمی اختلاف ہے، یا وہ تحقیق کا کوئی معاملہ ہے، تجزیے کی جہاں تک بات ہے، اس کو یا تو کسی ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ، وہ عناد بن جاتا ہے، وہ دشمنی بن جاتی ہے، اور یہ کہا جاتا ہے کہ کسی دشمن کی یہ سازش ہے، یا یہ بندہ کسی کا ایجنٹ ہے، تو اس اختلاف کو تھوڑا سا ڈیفائن کریں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے آج کے معاشرے میں؟
جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سب سے پہلے تو میں جامعۃ الرشید میڈیا ہاؤس کا شکر گزار ہوں کہ اس ملاقات کا اور چند باتوں کا موقع فراہم کیا۔
گزارش یہ ہے کہ اختلاف کے تو ہمیشہ ضابطے، اصول، آداب ملحوظ رہے ہیں۔ جب بھی اختلاف کو اختلاف سمجھا گیا ہے اور اختلاف کے دائرے میں علمی انداز میں باہمی احترام کے ساتھ اس کا اظہار کیا گیا ہے تو وہ رحمت ثابت ہوا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو بات منقول ہے ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ اس کا یہ پہلو ہے۔ صحابہ کرامؓ میں بھی اختلاف تھا، تابعین میں بھی تھا، ائمہ کرام میں بھی، مفکرین میں بھی۔ اختلاف اگر اختلاف کے دائرے میں رہے، اس کا اظہار دلیل اور لاجک کے ساتھ کیا جائے، اور ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، تو وہ اختلاف رہتا ہے، ورنہ وہ مخالفت بن جاتی ہے اور خِلاف بن جاتا ہے۔ آج کل بدقسمتی سے ہمارے ہاں خِلاف کا ماحول زیادہ ہے۔
اس کی بڑی وجہ ایک تو سماجی ماحول ہے کہ مفادات کی کشمکش بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، ایک تو وجہ یہ ہے، کہ ہمیں ہر بات میں مفاد کا کوئی نہ کوئی پہلو مثبت یا منفی دکھائی دینے لگتا ہے اور ہم ہر چیز کو اس پر تطبیق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ مطالعہ، تحقیق، ریسرچ، اس کا مزاج کم ہوتا جا رہا ہے کہ میں کسی مسئلے کو اس کے تناظر میں دیکھوں، اس کی علمی بنیادوں کے حوالے سے دیکھوں۔ سطحی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، سطحی تناظر پر اس کا نتیجہ متعین کیا جاتا ہے، اسی حوالے سے بحث کی جاتی ہے ۔ تو میرے خیال میں یہ اختلاف کے آداب اور تقاضوں کو دوبارہ ریفائن کر کے پیش کرنے کی ضرورت ہے، نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اختلاف دشمنی نہیں ہوتی، اختلاف اختلاف ہوتا ہے۔
اور اختلاف فطری ہے، اللہ پاک نے سب انسانوں کو الگ الگ فکری اور عقلی دائرے اور لیول دیے ہیں، تو یہ فطری بات ہے۔ لیکن اس میں مفادات اٹھانا یا مفادات کا الزام لگانا ، یہ دونوں باتیں یکساں ہیں، اور بغیر تحقیق کے، بغیر ریسرچ کے اور کسی مسئلے کا پس منظر جانے بغیر۔ میں صرف پس منظر کی بات نہیں کرتا، نتائج کی بات بھی کرتا ہوں۔ ایک مسئلہ میں بات کر رہا ہوں، میری بات کا پس منظر اور بیک گراؤنڈ کیا ہے، اور جو بات میں کر رہا ہوں اس کا الٹیمیٹ نتیجہ کیا ہوگا ، سوسائٹی پر اس کے اثرات کیا ہوں گے، سماج اس سے کیا اثر لے گا؟ میرے خیال میں اگر یہ باتیں ملحوظ رکھ کر گفتگو کی جائے تو مثبت ہوگی ورنہ اس کے نقصانات ہوں گے۔
سوال: ذمہ داری کس کی بنتی ہے جی! اس اختلاف کو یہاں تک لے کر جانے کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ عوام کی، علماء کی، یا اسٹیک ہولڈرز کی، پلیز ذرا اس کے اوپر بات کریں۔
جواب: میرے خیال میں بحث کرنے والوں کی بھی ہوتی ہے، لیکن بحث کرانے والوں کی زیادہ ہوتی ہے۔ جنہوں نے بحث کروانی ہوتی ہے وہ گفتگو کو اپنے رخ پر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور سوال کر کے جواب لینا نہیں، جواب اگلوانا آج کا مزاج بن گیا ہے کہ میں نے کسی نہ کسی طریقے سے ان سے اس سوال کا یہ جواب لینا ہے۔ میرے خیال میں یہ طرز عمل زیادہ باعث ہے اس کا۔
سوال: ہم بات کریں اگر آج کی سیاست کی، ہمیں بہت زیادہ عدم استحکام نظر آ رہا ہے اور خاص طور پر جو سیاسی رویے ہیں، بہت زیادہ مایوسی ہے، چاہے وہ قائدین ہوں، چاہے وہ اس کے پیچھے چلنے والی عوام ہو، اعتماد نہیں ہے دونوں کا ایک دوسرے کے اوپر۔ یہ پورا پس منظر، سیناریو آپ کے سامنے ہے، کس حد تک دیکھیں گے اور آپ کی رہنما ہدایات اس حوالے سے کیا ہیں؟
جواب: میں تو ایک ہی بات کہتا آ رہا ہوں، اب بھی کہتا ہوں کہ دیکھیں! پاکستان کا ایک دستور ہے جو ہمارا سوشل کنٹریکٹ ہے پوری قوم کا۔ ہم نے اس دستور کے تحت اکٹھے رہنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے، اس سوشل کنٹریکٹ یا دستور کی پابندی اگر نہیں کریں گے، اس کا احترام نہیں کریں گے، اور دستور کے تقاضوں کو اپنے اپنے مفادات کے حق میں کھینچنے کی کوشش کریں گے، تو معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس کی بنیادی بات دستور کی بالادستی اور قومی خود مختاری کا تحفظ ہے۔
ہمارے ہاں دستور کی بالادستی سے شعوری یا غیر شعوری گریز، اور بیرونی مداخلت کو چپکے سے قبول کرتے چلے جانا، یہ ہمارے موجودہ خلفشار کے دو بنیادی سبب ہیں۔ ہمیں بیرونی مداخلت کے راستے میں کوئی نہ کوئی روک لگانی ہوگی اور بحیثیت قوم لگانی ہوگی، اور دستور کی بالادستی اور اس پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا ہوگا، ورنہ خلفشار پر قابو پانا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔
سوال: اس وقت جو معاملہ ہے سود کا ، وزیر خزانہ کا بیان بھی ہمارے سامنے ہے، کیا پلاننگ ہونی چاہیے، فیوچر میں کیسے لے کر چلنا ہے؟ کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسٹیک ہولڈرز کے اوپر؟ آگے کرنے کا جو پورا ایک کام ہے۔ بیان تو آگیا اور درخواستیں واپس لینے کی بات بھی ہو گئی، لیکن آگے کیا کرنا ہے، اس کے اوپر ذرا روشنی ڈالیے۔
جواب: گزارش یہ ہے کہ سود کا مسئلہ —
(۱) میں پہلے ایک بات تمہیداً عرض کرنا چاہوں گا، عالمی سطح پر بھی سود کا مسئلہ ایک ضرورت ہے کہ ایک ہی نظام دنیا میں رول کر رہا ہے، مقابلے پر کوئی متبادل نظام عملاً موجود نہیں ہے۔ عالمی ضرورت ہے کہ متبادل کوئی نظام رول کر رہا ہو، تاکہ دنیا کو معیشت کے دو متوازی نظاموں میں سے کوئی ایک اختیار کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ یہ عالمی ضرورت بھی ہے۔ ایک ہی نظام کے رول کرتے چلے جانے سے عالمی سطح جو معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ کوئی آلٹرنیٹِو بھی ہو، متبادل بھی کوئی سامنے ہو۔
(۲) اور ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو عقیدے کا مسئلہ ہے، ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، دین کا مسئلہ ہے، قرآن پاک کا مسئلہ ہے۔ ایک ہمارے قیام پاکستان کے مقاصد کا مسئلہ ہے کہ قیام پاکستان کے مقاصد میں یہ بات شامل ہے جیسا کہ قائد اعظم رحمہ اللہ نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ ہم معیشت کو مغربی اصولوں پر نہیں، اسلامی اصول پر رکھیں گے۔
(۳) تیسرے نمبر پر یہ دستور کا مسئلہ ہے کہ ہمارے دستور میں (محض) واضح وعدہ نہیں کیا گیا، گارنٹی دی گئی ہے کہ ملک کے نظام کو غیر سودی بنایا جائے گا۔
(۴) اور چوتھے نمبر پر ہماری معیشت کی بدحالی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب سود کو گنا جاتا ہے، اور (صرف) گنا نہیں جاتا (بلکہ یہ سبب) ہے، اس کا حل بھی یہی ہے۔
ایک تو یہ ہے کہ ہماری قومی ضرورت ہے، عالمی ضرورت ہے، دینی ضرورت ہے، معاشی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت معروضی صورتحال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے رمضان المبارک میں بڑا تاریخی اور بڑا جامع اور بڑا دوٹوک فیصلہ دیا تھا ۔ہم نے اس وقت بھی اپیل کی تھی مختلف فورمز سے۔ ہمارے ہاں مختلف فورمز ہیں: تحریک انسداد سود پاکستان ہے، ملی مجلس شرعی پاکستان ہے، متحدہ علماء کونسل ہے، یہ ہمارے سارے مشترک فورم ہیں تمام مکاتبِ فکر کے۔ ہم نے اپیل کی تھی کہ وفاقی شرعی عدالت نے متبادل سسٹم بھی دیا ہے… اور پانچ سال کا وقت بھی دیا ہے۔ اپیلوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اس پانچ سال کے وقفے کو استعمال کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے دیے ہوئے متبادل سسٹم کے مطابق ملک میں نظامِ معیشت کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ بینک (اپیل میں) چلے گئے۔ اس وقت میری معلومات کے مطابق سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ستائیس درخواستیں آئیں، اور قانون یہ ہے کہ درخواست ایک بھی ہو تو سٹے ہو جاتا ہے اور سٹے ہو تو کوئی کام پھر آگے بڑھ نہیں سکتا۔
اس دوران قومی ٹاسک فورس بنی، وزیراعظم نے اعلان کیا، تو ہم نے اشکال پیدا کیا کہ بھئی! ایک طرف ٹاسک فورس قائم کر کے فیصلے پر عملدرآمد کی بات کی جا رہی ہے، اور دوسری طرف سرکاری اور غیر سرکاری مالیاتی ادارے اپیل کر کے سٹے لے کر رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تو اس پر ہم نے آواز اٹھائی الحمد للہ۔ سرکاری سطح پر بھی مولانا فضل الرحمٰن نے اس محاذ پر کام کیا، پبلک لیول پر جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، پاکستان شریعت کونسل، دوسری جماعتوں نے، ہم نے آواز اٹھائی، تو خیر یہ بات ہماری مان لی گئی سرکاری سطح پر۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ ہم سرکاری ادارے اپیلیں واپس لے رہے ہیں، اور سرکاری اداروں نے واپس لے لی ہیں۔ لیکن تیرہ درخواستیں واپس ہوئی ہیں، چودہ باقی ہیں۔ غیر سرکاری مالیاتی اداروں کی، بینکوں کی، چودہ درخواستیں سپریم کورٹ کے فورم پر موجود ہیں۔ اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر ایک درخواست بھی موجود ہے تو سٹے قائم رہے گا اور ٹاسک فورس یا کمیٹیاں، کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔
اس وقت ہم اس مرحلہ میں ہیں کہ درخواستیں واپس لینے والوں کا ہم نے خیر مقدم کیا ہے، خیر مقدم کرتے ہیں، اور حکومت کی طرف سے اس عزم کے اظہار کا کہ ہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا آغاز کر رہے ہیں، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے درخواستیں واپس نہیں لیں، وہ نہ صرف سٹے پرکھڑے ہیں، بلکہ حکومت کے اس عزم کے راستے میں بھی رکاوٹ ہیں۔ اگر حکومت اس فیصلے پر عمل کرنا چاہ رہی ہے اور سٹے جو اپیلوں کی بنیاد پر ہے وہ رکاوٹ ہے، تو اس رکاوٹ کے ذمہ دار پھر اپیل واپس نہ لینے والے ادارے ہوں گے۔ اس وقت ہم اس مرحلہ میں ہیں کہ جنہوں نے اپیلیں واپس نہیں لیں، ان سے درخواست کریں، مطالبہ کریں، دباؤ ڈالیں، کچھ بھی کریں، لیکن ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ درخواستیں واپس لیں۔
سوال: ہم بات کرتے ہیں کہ آج کل بڑا اس کے اوپر شور مچا ہوا ہے، سیکسوئل ریولوشن جب بھی یورپ میں ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے بہت ساری نئی چیزیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بالکل یہ آئیڈنٹٹی کا ایک کرائسس آپ کہہ لیں، اس وقت وہ چل رہا ہے، انفینٹ نمبر آف جینڈر ہے، یعنی کوئی تمیز ہی نہیں ہے اور کوئی حد بھی نہیں ہے، ایل جی پی ٹی کی اگر بات کی جائے، تو اس حوالے سے کیا ہدایات ہو سکتی ہیں؟ کیسے اس کو روکا جا سکتا ہے؟ ہمارے لیے بھی اور اوورآل، تھوڑی سی بات اس کے اوپر ہو جائے۔
جواب: اس کے دو بڑے پہلو ہیں:
ایک تو یہ ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی امتیاز، یہ تو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے، نیچر ہے، فطرت ہے، اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس امتیاز کے جو تقاضے ہیں ان تقاضوں کی بھی نفی نہیں کی جا سکتی۔ مرد مرد ہے، عورت عورت ہے ۔ وہ ایشیا میں ہو تب مرد مرد ہے، عورت عورت ہے۔ یورپ میں ہو تب بھی مرد مرد ہے اور عورت عورت ہے۔ جو امتیاز فطرت نے قائم کیا ہے، اور جو اس امتیاز کے تقاضے ہیں، اس کی نفی کرنا نیچر کا انکار ہے، فطرت کا انکار ہے اور قدرتِ خداوندی کا انکار ہے ، اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
اس فرق کو مٹانے کی کوششیں، یہ غیر فطری ہیں۔ اور اس ماحول کو واپس لانے کی کوششیں ہیں جس کو ہم دورِ جاہلیت کہتے ہیں کہ جنس کے حوالے سے حلال حرام کا کوئی فرق نہیں تھا، جائز ناجائز کا کوئی فرق نہیں تھا، وہ اوپن ماحول جس کے بارے میں لوط علیہ السلام نے کہا تھا ”انکم قوم تجھلون“ یہ جہالت کی باتیں جو تم کرتے ہو، جو فطرت نے مرد کے فرائض رکھے ہیں ، عورت کے فرائض رکھے ہیں، جو آپس کا دائرہ کار رکھا ہے، اس کو ڈسٹرب کرنا، یہ فطرت کے خلاف ہے، اور یہ ’’ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ‘‘، اور اس قسم کے قوانین، اس فطری پراسس کو ختم کرنے کی، ڈسٹرب کرنے کی کوشش ہے۔
سوال: ۲۰۱۸ء میں اس کا ایکٹ پاس ہوا ، اس کے بعد اب تک جو فگرز آ رہے ہیں، تقریباً تیس ہزار لوگ ہیں جو اپنی آئیڈنٹٹی تبدیل کر چکے ہیں۔
جواب: اگر رکاوٹ نہ ڈالی گئی تو ایک تو ہمارا خاندانی نظام بکھر جائے گا (بلکہ) بکھرتا جا رہا ہے۔ خاندانی نظام یورپ کا تو بکھر گیا ہے، یورپ کا دانشور تو سر پکڑے بیٹھا ہے کہ خاندانی نظام اور فیملی سسٹم کہاں ہے؟ رشتوں کا وہ تقاضہ، تقدم کدھر گیا؟ گورباچوف سے پوچھ لیں، ہیلری کلنٹن سے پوچھ لیں، جان میجر سے پوچھ لیں کہ مغرب کے خاندانی نظام کے بکھر جانے پر یورپ کی وہ دانش کس قدر پریشان ہے؟
وہ ماحول ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارا خاندانی نظام الحمد للہ ہے، اس کا احترام بھی ہے، اس کو ڈسٹرب کرنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش ’’ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ‘‘ ہے۔ جس کی ہم نے مزاحمت کی ہے اور ان شاء اللہ العزیز ہم نے اس کے خلاف آواز بلند کی بھی ہے، کرتے بھی رہیں گے۔ حکومت کو بہرحال قرآن و سنت اور دستور کی بالادستی کا احترام کرتے ہوئے اس قسم کے قوانین واپس لینا ہوں گے۔
سوال: اچھا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو تک تو بات محدود تھی، اس سے آگے یہ بڑھی ہے کہ بھئی میں ’’جینڈر فلوئڈ‘‘ ہوں، میں صبح کو مرد ہوتا ہوں، شام کو میں عورت ہو جاتا ہوں، تو فیلنگز کے اوپر قانون بدلے جا رہے ہیں، یہ بڑا مسئلہ چل رہا ہے۔
جواب: یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ اس کی معروضی اور فزیکلی جو صورتحال ہے، اس کو نظر انداز کر کے محض ذہنی خیال پر کسی کو مرد تصور کر لینا، کسی کو عورت تصور کر لینا۔ ہم کسی کے صرف ذہنی خیال پر، معروضی حقائق کو، زمینی حقائق کو اور فزیکل حقائق کو نظر انداز کر کے کسی اور معاملے میں یہ کام کرتے ہیں؟ سب سے پہلے یہ ہوتا ہے کہ فزیکل حقائق کیا ہیں، اس کی زمینی صورتحال کیا ہے ۔ یہ صرف ایک مسئلہ میں کہ جو وہ سوچے گا وہ ہوگا؟ نہیں بھئی! سوچ (کی بات) نہیں ہوتی، سوچ تو پاگل کی بھی ہوتی ہے اور سوچ تو جس کا دماغ کام نہ کر رہا ہو اس کی بھی ہوتی ہے۔
سوال: تاریخ انسانی میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ڈاکٹر جو ہدایت دے رہا ہے، جو ڈائگنوز کر رہا ہے، اس کی بات نہیں مانی جا رہی۔ اس کے خلاف یورپ میں قانون بن رہا ہے کہ بھئی آپ کی ہدایات اپنی سائیڈ پر ، جو فیل کر رہا بندہ، اس کے مطابق قانون بنے گا، فیلنگ پر بنے گا۔
جواب: فیلنگ پر بات چھوڑیں گے آپ تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ فیلنگ کا لیول ایک نہیں ہے، فیلنگ کا دائرہ ایک نہیں ہے، فیلنگ کا بیک گراؤنڈ ایک نہیں ہے، فیلنگ کے نتائج ایک نہیں ہیں۔ آپ فیلنگ پر فیصلے کریں گے تو دنیا کا سارا نظام معطل ہو کر رہ جائے گا ہر شعبے میں۔
سوال: آخر میں، میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اس وقت کلیش آف سولائزیشن ہے، اس کے عنوان سے بڑی بڑی کتابیں چھپ رہی ہیں، کتابوں کے اوپر ٹائٹل لگ رہے ہیں کہ کلیش آف سولائزیشن کے عنوان کے اوپر یہ بک ہے، اس کے اندر ساری بات یہی ہے ۔ مغرب کا اور دیگر ورلڈ کا ہم جائزہ لیں تو اس کی اور اسلام کی بنیادیں یکسر الگ ہیں، اوپر جا کر کہیں ایک ہو سکتی ہیں، لیکن نیچے بنیادیں بالکل الگ الگ ہیں۔ یہ سارا جو منظر نامہ ہے، اس کے اوپر آپ کا کیا تجزیہ ہے، آج کل بڑی بات ہو رہی ہے کلیش آف سولائزیشن کی۔
جواب: گزارش یہ ہے کہ مغرب نے تو سولائزیشن کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ مذہب کا سماج سے، معاشرے سے اور زندگی کے عملی پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اس فلسفے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہماری بنیاد آسمانی تعلیمات ہیں، وحی الٰہی ہے، قرآن پاک ہے، سنتِ رسول ہے۔ مغرب دو سو سال اور بھی گزار لے، مسلم امہ بحیثیت امہ اپنی معاشرتی اور سیاسی اور سماجی بنیاد کے طور پر قرآن پاک سے اور سنتِ رسول سے دستبردار ہونے کو نہ تیار ہے، نہ تیار ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ میں عرض کرتا ہوں۔
ایک تو یہ فطری تسلسل ہے قیامت تک، اس کا پیریڈ قیامت تک ہے۔ قرآن پاک، سنتِ رسول، شریعت، ان کا پیریڈ قیامت تک ہے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ مغرب کو مغالطہ یہ ہے کہ اس نے یورپ میں عیسائیت کو کارنر کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کے پاس اپنے علمی ذخائر محفوظ نہیں تھے۔ اس بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مغرب میں پادری بحیثیت پادری اتھارٹی تھا ۔ نہ بائبل محفوظ تھی، نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات محفوظ تھیں۔ ہمارے پاس الحمد للہ قرآن پاک بھی موجود ہے، سنتِ رسول بھی موجود ہے، شریعت بھی موجود ہے۔ صرف موجود نہیں، کتابوں میں نہیں (بلکہ) تعلیم میں ہے ، سینوں میں ہے، عملی میدان میں ہے۔ اس لیے مغرب کو جلد سے جلد اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ جس طرح ہم نے مغرب میں سماج کو مذہب اور آسمانی تعلیمات کی بالادستی سے دستبردار کروا لیا ہے، مسلمانوں کو بھی کروا لیں گے۔ جتنا مرضی وقت ضائع کریں، مسلمان کبھی بھی اپنی بنیادوں سے دستبردار نہیں ہوگا۔ اور مغرب کو ہی سرنڈر ہونا پڑے گا، قرآن پاک اور سنتِ رسول کی موجودگی اور اس کے احترام اور اس کے سماج کی بنیاد ہونے پر ۔
سوال: مولانا زاہد الراشدی صاحب! کن کن سیاسی، سماجی، علمی شخصیات کے ساتھ کام کر چکے ہیں؟ اگر میں تاریخ کی بات کروں، کن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا؟
جواب: اللہ اکبر، مجھے سعادت حاصل رہی ہے کہ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ، اور حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ، نوابزادہ نصر اللہ خانؒ، قاضی حسین احمدؒ، مولانا سمیع الحقؒ صاحب، ان اور (دیگر) قائدین کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع ملا ہے، اور انہی تجربات کی بنیاد پر آج جو کچھ بھی ہوں یا جو کچھ کر رہا ہوں، انہی شخصیات کے اثرات، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ بھی اس میں شامل ہیں، اور دوسرے حضرات بھی شامل ہیں، تو انہی کی تربیت ہے، انہی کا ذوق ہے، انہی کا مشن ہے، جس کو لے کر دھیرے دھیرے آگے چل رہا ہوں۔
سوال: جامعۃ الرشید اور اس کا نظامِ تعلیم، ان کی خدمات، اس کے اوپر آپ کا تبصرہ؟
جواب: جامعۃ الرشید کی تعلیمات کا اور اس کے نظام کا میں شروع سے معترف ہوں اور ہمارا ٹارگٹ بھی یہی ہے کہ عصری اور دینی تعلیمات یکجا کی جائیں، بیلنس کے ساتھ، توازن کے ساتھ، وہ توازن جو میں نے ذکر کیا ہے ۔ ایک کی نفی کر کے دوسرے کو مسلط کرنا نہیں، دونوں کو برابر کی سطح پر۔ اس کے لیے میں نے وہ اصطلاح استعمال کی ہے، ۱۸۵۷ء سے پہلے کے لیول پر، دونوں (تعلیموں) کی اہمیت تسلیم کر کے ایڈجسٹ کرنا، میں سمجھتا ہوں جامعۃ الرشید اس رخ پر چل رہا ہے اور میری دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں اور ان شاء اللہ العزیز کوششیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔
محمد ندیم: بہت شکریہ جی۔ ناظرین محترم! بڑی ہی علمی گفتگو اور بڑی زبردست عمدہ پیرائے میں بات ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھ آج کے مہمان مولانا زاہد الراشدی صاحب موجود رہے۔ ان شاء اللہ مزید آپ کی خدمت میں کسی نئے موضوع کے ساتھ کسی نئے مہمان کے ساتھ حاضر خدمت ہوتے رہیں گے، اجازت دیجیے، اللہ حافظ!