ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ ’’تجدید‘‘ اور ’’تجدد‘‘ میں کیا فرق ہے اور ’’متجدد‘‘ کسے کہتے ہیں؟ بہت سے ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے اس لیے آج کی صحبت میں اس کا تھوڑا سا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تجدید اور مجدد کی اصطلاح تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی سے لی گئی ہے جس میں یہ پیش گوئی فرمائی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے آغاز پر ایک مجدد بھیجے گا جو دین کی تجدید کرے گا۔ جبکہ تجدید کا معنٰی علماء امت کے ہاں یہ معروف چلا آرہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوسائٹی اور افراد کے اعمال و اقدار میں غیر محسوس طریقہ سے کچھ اضافے ہوتے چلے جاتے ہیں، جس طرح کھیت اور باغ میں کچھ خودرو پود پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں وقفہ وقفہ سے تلف کر کے چھانٹی کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح از خود اعمال و روایات کا حصہ بن جانے والی رسوم و بدعات کی نفی کر کے دین کی اصلی حیثیت اور ڈھانچے کو نکھارنے کا کام مجدد کے ذریعہ لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تکوینی طور پر اس کا اہتمام فرماتے ہیں۔ مجدد پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے باقاعدہ مبعوث کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک اور عالم بندے کو ایسی صلاحیت، فراست اور توفیق سے بہرہ ور کر دیتے ہیں جو یہ خدمت سرانجام دیتا ہے اورا س کی محنت اور جدوجہد سے اسے پہچان کر مجدد کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہر دور میں ایسی صفات و توفیق کے حامل بزرگ موجود رہے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو مجددین کا اولین سرخیل کہاجاتا ہے اور ان کے کاموں سے تجدید کی ماہیت و ضرورت کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں برصغیر میں اکبر بادشاہ کو جب مجدد اعظم اور مجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر و تشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر و تشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہوگئی ہے جو اکبر بادشاہ نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکروفریب کے تاروپور کو بکھیرنے میں حضرت شیخ احمد سرہندیؒ نے مسلسل محنت کر کے فقہ و شریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں مجدد الف ثانیؒ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر و تشریح کی بجائے وہی پرانی اجماعی اور متوارث تعبیر و تشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندیؒ کر رہے ہیں اور اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔
مجدد کے کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ دینی عبادات اور معاملات و روایات میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ جن رسوم و رواجات کا اضافہ ہوجاتا ہے ان کی کانٹ چھانٹ کر کے اصل عبادت و روایت کو پھر سے سامنے لے آئے۔ جبکہ دوسرا کام وہ یہ کرتا ہے کہ زمانہ کے ارتقاء اور تغیر کے باعث جو نئی ضروریات پیش آتی رہتی ہیں ان کا اجتہاد کے مسلمہ اصولوں کے دائرے میں شرعی حل پیش کر کے ماضی اور حال کا رشتہ جوڑ دے۔ گویا وہ مجدد اور مجتہد کے دونوں فریضے سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ امت میں اس درجہ کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد تاریخ میں مذکور ہے جن سے قدرت نے یہ کام لیا ہے۔ وہ ہر دور میں موجود و متحرک رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
مجدد ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف نہیں کرتا اور نہ ہی پہلے سے چلے آنے والے مسلمہ فقہی اصولوں سے بغاوت کرتا ہے۔ بلکہ وہ جدید رجحانات کو بھی ان کے دائرے میں واپس لے جانے کی محنت کرتا ہے اور ماضی کی علمی و فقہی روایت سے رشتہ توڑنے کی بجائے اس رشتہ اور تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ و دو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مجدد ین کی فہرست میں مسلمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فردًا فردًا جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
’’تجدید‘‘ کا معنٰی موجود چیز کو نئے اسلوب میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں معاہدہ کی تجدید کی گئی ہے یعنی معاہدہ پہلے سے موجود ہے، اس میں جزوی رد و بدل تو معاہدے کے مجموعی ماحول کو ملحوظ رکھتے ہوئے کر لیا جاتا ہے لیکن بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر بنیادی ڈھانچہ ہی بدل دیا جائے تو اسے معاہدہ کی تجدید سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ نیا معاہدہ کہلاتا ہے۔ اسی طرح تجدید کا یہ عمل بھی ہے کہ ماضی کے مسلمہ علمی اور فقہی اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے دائرے میں رہ کر مسائل و احکام کی زمانہ کی ضروریات کے تحت تعبیر و تشریح کی جاتی ہے۔ لیکن اگر ماضی کی مسلمہ علمی روایات اور متفقہ فقہی اصولوں سے انحراف کر کے اور ان کا لحاظ رکھے بغیر دین کے احکام و قوانین کی نئی تعبیر و تشریح کی جائے گی تو یہ ’’تجدید‘‘ نہیں ہوگی بلکہ ’’تجدد‘‘ کہلائے گی۔ چونکہ تجدد کے لفظی معنٰی میں تکلف و تصنع پایا جاتا ہے اس لیے اس عمل کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں سمجھا گیا ہے کہ اس کی حیثیت ’’تکلف بے جا‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ تجدد کی بڑی علامت یہ ہے کہ اس میں ماضی کی مسلمہ علمی روایت اور فقہی اصولوں کو نظر انداز کر کے نئے خودساختہ اصولوں پر اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور جس دور میں یہ کام کیا جا رہا ہوتا ہے اس زمانے کے جمہور علماء کو اعتماد میں لیے بغیر بلکہ ان کی نفی و تحقیر کے ماحول میں اس عمل کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ تجدید میں مسلمہ فقہی اصولوں اور اپنے دور کے جمہور علماء کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس اعتماد کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے یا کسی عمل کے صحیح ہونے پر اسے جمہور علماء کا اعتماد حاصل ہو جائے، نتیجے کے حوالہ سے دونوں صورتیں یکساں ہیں لیکن یہ کسی بھی دینی تعبیر کے قابل قبول ہونے کے لیے بہرحال ضروری ہے۔
ان دونوں کی عملی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اورنگزیب عالمگیرؒ نے اپنے دور میں مروجہ فقہ کے پورے ڈھانچے پر نظر ثانی کی تھی جس کے نتیجے میں ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘ کا بے مثال علمی ذخیرہ سامنے آیا تھا اور وہ ملک کے دستور و قانون کے طور پر رائج بھی ہوا تھا۔ فقہ حنفی پر یہ مکمل نظر ثانی ماضی کے مسلمہ فقہی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے وقت کے جمہور علماء کو اعتماد میں لے کر کی گئی تھی اس لیے یہ ’’تجدید‘‘ تھی۔ جبکہ اسی اورنگزیب عالمگیر کے پردادا اکبر بادشاہ نے شرعی عقائد و احکام کی تشکیل نو مسلمہ علمی و فقہی اصولوں اور وقت کے جمہور علماء کرام کی نفی کر کے کی تھی بلکہ ماضی اور حال کے علماء و فقہاء کی تحقیر اور ان کے ساتھ استہزاء و طنز بھی اس عمل کا مربوط حصہ تھا اس لیے وہ ’’تجدد‘‘ تھا۔
تجدید اور تجدد کے فرق کو سمجھنے کے لیے اکبر بادشاہ اور اورنگزیب عالمگیرؒ کی ان کاوشوں کا تقابلی مطالعہ کرلینا کافی ہے۔ یہ پردادا اور پڑپوتا دونوں اپنے اپنے وقت کے عظیم حکمران تھے اور میرے خیال میں دونوں کی ’’علمی روایات‘‘ کا تسلسل اب تک جاری ہے بلکہ اب تو زیادہ ہی نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ امت کا سواد اعظم چونکہ قرآن کریم، سنت رسولؐ، صحابہ کرامؓ، فقہائے عظامؒ اور اولیائے امتؒ کے ساتھ جذباتی اور فکری دونوں حوالوں سے بے لچک وابستگی رکھتا ہے اس لیے ماضی کی طرح اب بھی ’’تجدد‘‘ کے کسی عمل کا امت میں قبول عام حاصل کرنے کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔