’’پاکستان کے مذہبی اچھوت‘‘

   
۲۱ جولائی ۲۰۰۳ء

بعض مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ’’پاکستان کے مذہبی اچھوت‘‘ نامی ایک کتاب کے مندرجات پر سخت غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ

  • یہ دو قادیانی مصنفین تنویر احمد میر اور مرتضیٰ علی شاہ کی مشترکہ کاوش ہے۔ اور اس میں پاکستان میں قادیانیوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کا رونا روتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اصلی اور کھرے مسلمان صرف قادیانی ہیں، جنہیں پاکستان میں اچھوت بنا دیا گیا ہے، حالانکہ قادیانیوں کی کوششوں کے نتیجے میں ہی پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور پنجاب بھی انہی کی کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہوا۔
  • اس کتاب کے جو مندرجات بعض اخبارات کے ذریعے سامنے آئے ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ جداگانہ الیکشن کا نظریہ مرزا غلام احمد قادیانی نے پیش کیا تھا اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے بھی مرزا قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔ اس کتاب کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ’’احمدیت‘‘ ہی حقیقی اسلام ہے اور بالآخر اسی کے ذریعے تمام مذاہبِ عالم ایک جھنڈے تلے جمع ہوں گے اور ساری دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گی۔
  • کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہ دیا جاتا تو ضلع گورداسپور بھی پاکستان میں شامل ہو جاتا، اور بھارت کو کشمیر میں داخلے کا راستہ نہ ملتا، جس کے نتیجے میں آج تک کشمیر کا تنازع موجود ہے۔ کتاب کا عنوان اور بنیادی خیال یہ ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو مذہبی اچھوت بنا دیا گیا ہے، ان کی مذہبی آزادی سلب کر لی گئی ہے، ان پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اور ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا ہے۔

مذہبی آزادی سلب ہونے اور ان پر مظالم ڈھائے جانے کی بات تو ہم کسی اور موقع پر کریں گے، مگر اس بنیادی نکتہ سے ہمیں اتفاق ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو فی الواقع ’’اچھوت‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور انہیں مسلم معاشرے میں وہ سماجی مقام میسر نہیں جو مسلم سوسائٹی کے مختلف طبقات کے لیے مخصوص ہے۔ عام مسلمانوں میں قادیانیوں کا تذکرہ حقارت سے ہوتا ہے اور ان کے ساتھ میل جول کو عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کا سبب مسلمان نہیں بلکہ خود قادیانی ہیں، انہوں نے شروع سے طرز عمل ہی ایسا اختیار کر رکھا ہے کہ ان کے لیے کسی مسلم معاشرے میں وہ جگہ نہیں بن سکی جس کے وہ خواہشمند ہیں۔ اگر تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے لیے اچھوت کا کردار خود قادیانیوں نے منتخب کیا ہے جس کی ذمہ داری خود ان کے سوا کسی اور پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً مسلمانوں کے چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر چلے آنے والے متفقہ عقیدۂ ختمِ نبوت سے انحراف پہلا قدم ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے کے علی الرغم اٹھایا اور خود کو امتِ مسلمہ سے الگ کر لیا۔

پوری امتِ مسلمہ چودہ سو برس سے اس بات پر متفق چلی آ رہی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بعد کسی شخص کو قیامت تک نبوت نہیں ملے گی، اور جو شخص بھی رسول اکرمؐ کے بعد نبوت اور وحی کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اسے کسی صورت میں نبی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں نے اس اجتماعی عقیدے سے انحراف کا راستہ اختیار کیا اور اس کے باوجود اس بات پر مصر رہے کہ وہ نہ صرف ملتِ اسلامیہ کا حصہ ہیں بلکہ اصلی مسلمان وہی ہیں، اور دنیا بھر کے وہ تمام مسلمان جو مرزا غلام احمد قادیانی کے دعووں کو نہیں مانتے وہ مسلمان نہیں رہے۔

اب ظاہر بات ہے کہ قادیانیوں کے اس دعویٰ بلکہ ہٹ دھرمی کو کسی طرح بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا، اور مسلمانوں کا یہ فطری اور منطقی حق تھا کہ وہ اس بات کا صاف اعلان کر دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار مسلمانوں کے اجتماعی دھارے کا حصہ نہیں ہیں اور ان سے الگ وجود رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جو علماء کرام اور دینی رہنماؤں نے تو کہنا ہی تھی، جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں نے بھی اسے تسلیم کیا، اور سب سے زیادہ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اس نقطۂ نظر کی وضاحت کی کہ قادیانی نئی نبوت اور نئی وحی کی وجہ سے مسلمانوں سے الگ ہو چکے ہیں اور ان کا ملتِ اسلامیہ کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ حتیٰ کہ جب پنڈت جواہر لال نہرو قادیانیوں کی وکالت کے لیے سامنے آئے تو ان کے ساتھ علامہ اقبالؒ نے خط و کتابت کی اور ان کے نام اپنے مکاتیب میں واضح کیا کہ قادیانی گروہ کسی طرح بھی ملتِ اسلامیہ کے وجود کا حصہ نہیں ہے۔

پھر قادیانیوں نے بھی ہر مرحلہ میں خود کو مسلمانوں سے الگ شمار کیا ہے:

  • جسٹس منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سب سے پہلے قادیانیوں کو مردم شماری میں ۱۹۰۱ء میں الگ کیا گیا اور اس کی تحریک مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے ہوئی تھی۔
  • جبکہ ضلع گورداسپور کے بھارت میں شامل ہونے کے حوالے سے جس بات کا ذکر کیا گیا وہ بھی مغالطہ دینے کی کوشش ہے۔ کیونکہ ریڈ کلف سرحدی کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اصل صورتحال یہ ہے کہ ضلع گورداسپور جس میں قادیان واقع ہے اور جس کی آبادی کے تناسب میں قادیانیوں کو یہ پوزیشن حاصل تھی کہ اگر انہیں مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جاتا تو یہ ضلع پاکستان میں شامل ہو جاتا۔ اس صورت میں اس وقت بھارت کے پاس کشمیر میں داخل ہونے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اور کشمیر کسی رکاوٹ کے بغیر خودبخود پاکستان کا حصہ بن رہا تھا۔ لیکن سرحدات کے تعین کرنے والے ریڈ کلف کمیشن کے سامنے قادیانیوں کے نمائندے چودھری ظفر اللہ خان نے یہ کہہ کر قادیانیوں کا الگ کیس پیش کیا کہ ان کی جماعت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت ہے کہ ان کی فائل مسلمانوں سے الگ طور پر کمیشن کے سامنے پیش کی جائے۔ چنانچہ اس بنیاد پر گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پا کر بھارت میں شامل ہو گیا، اور پھر اسی راستے سے گزر کر بھارتی فوجوں نے کشمیر پر قبضہ کیا، اور آج مسئلہ کشمیر پورے جنوبی ایشیا کے امن اور ترقی کے لیے خوفناک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان اس وقت بھی قادیانیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے، لیکن ریڈ کلف کمیشن کے سامنے الگ حیثیت کی بات اس وقت مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ قادیانیوں کی طرف سے سامنے آئی تھی، اس لیے اس علیحدگی اور جداگانہ راستہ کے جو بھی منطقی نتائج سامنے آئے ان کی ذمہ داری بھی خود ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔

جہاں تک سوشل بائیکاٹ کی بات ہے اس کی ابتدا بھی قادیانیوں نے کی تھی، مثلاً :

  1. قادیانی اخبار ’’الحکم‘‘ قادیان اگست ۱۹۰۱ء کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی جماعت کے ارکان کو پابند کیا کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔
  2. اخبار ’’الفضل‘‘ قادیان ۳ مئی ۱۹۲۲ء کے مطابق قادیانی خلیفہ حکیم نور الدین نے اپنی جماعت کو ہدایت جاری کی کہ وہ کسی غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھیں۔
  3. اخبار ’’الحکم‘‘ ۱۶ اپریل ۱۹۰۸ء کے مطابق مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ رشتہ کرنا جائز نہیں ہے۔
  4. اور ’’کلمۃ الفصل‘‘ میں مرزا بشیر احمد (ایم ایم احمد کے والد) نے کہا کہ غیر احمدیوں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات حرام ہیں۔

اس لیے اگر قادیانی یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں ان کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا معاملہ کیا جا رہا ہے تو اس کی پہل بھی خود ان کے بڑوں نے کی ہے، اور سماجی مقاطعہ کی مختلف صورتیں بھی خود انہوں نے ہی پیدا کی ہیں۔ جس کے بعد اگر مسلمانوں نے بھی ردعمل میں انہیں سماجی مقاطعہ اور سوشل بائیکاٹ کے ماحول سے دوچار کر دیا ہے تو اس میں صرف مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینا قرینِ انصاف نہیں ہے۔

اس سارے قصے کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تجویز پر غور کر رہی تھی، اور قادیانی جماعت کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر احمد آنجہانی کو قومی اسمبلی کے فلور پر مسلسل گیارہ روز تک اپنے موقف کی وضاحت کا موقع دیا گیا تھا۔ انہوں نے اٹارنی جنرل مسٹر یحییٰ بختیار مرحوم کے سوال پر دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ دنیا بھر کے جو مسلمان مرزا غلام احمد قادیانی کو ان کے دعووں میں سچا نہیں مانتے وہ قادیانیوں کے نزدیک مسلمان نہیں ہیں، خواہ انہوں نے مرزا قادیانی کا نام بھی نہ سن رکھا ہو۔ اس کے بعد اگر قومی اسمبلی نے دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کو کافر تسلیم کرنے کی بجائے چند لاکھ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا تو اس پر سیخ پا ہونے کی بھلا کون سی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

آج بھی قادیانیوں کی مشکلات کا سب سے بڑا سبب وہ خود ہیں۔ وہ مسلمانوں کے اجتماعی عقیدے سے انحراف بھی کر رہے ہیں اور ان کی صفوں میں گھسے رہنے پر بھی مصر ہیں۔ یہ غیر منطقی اور قطعی طور پر ناقابل قبول بات ہے جو دنیا کی کوئی بھی قوم قبول نہیں کر سکتی۔ قادیانیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور ہٹ دھرمی اور ضد کا وہ طرز عمل ترک کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں وہ ’’پاکستان کے مذہبی اچھوت‘‘ کا درجہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جس کی ایک ہی صورت ہے کہ

  1. یا تو مرزا قادیانی کی نبوت اور وحی پر چار حرف بھیجتے ہوئے چودہ سو سالہ اجتماعی عقیدے کی بنیاد پر ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں واپس آ جائیں،
  2. اور یا اپنے بارے میں دنیا بھر کی ملتِ اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ قبول کر کے مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہبی گروہ کے تشخص کو قبول کر لیں۔

اس کے سوا تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے، اور جو تیسرا راستہ قادیانی دھونس اور ہٹ دھرمی کے ساتھ نکالنا چاہتے ہیں وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے جس کا انہیں اپنے سوا کسی اور کو دوش نہیں دینا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter