صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ۸ اکتوبر کو طلب کر لیا ہے جس میں حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پارلیمنٹ کے ارکان کو بریفنگ دیں گے۔ اجلاس میں امن و امان کی صورت حال پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ صدر اور وزیر اعظم کا یہ اقدام موجودہ حالات میں یقیناً خوش آئند ہے اور اس سے جہاں عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا، وہاں حکومت کے ذمہ دار حضرات بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے عوام کے جذبات اور تاثرات سے مزید آگاہی حاصل کریں گے۔
ملک میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ’’ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ‘‘ کے عنوان سے سرفہرست ہے اور اس جنگ کا پھیلاؤ جوں جوں بڑھتا جا رہا ہے، عوام کے اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کے بارے میں سوالات میں بھی شدت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ ’’دہشت گردی ‘‘ کیا ہے اور اس کے خلاف جنگ کے اہداف و مقاصد کیا ہیں؟ اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے گزشتہ چند روز میں قومی اخبارات کے ذریعے سامنے آنے والی بعض رپورٹوں اور خبروں پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
۳۰ ستمبر کو شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے کرائے جانے والے ایک عالمی سروے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اپنے سب سے بڑے ہدف ’’القاعدہ‘‘ کو کمزور کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ تیس میں سے بائیس ممالک کے افراد کے مطابق اوسطاً بائیس فی صد رائے دہندگان کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے القاعدہ تنظیم کمزور ہوئی ہے، جبکہ سروے میں شریک ہر پانچ میں سے تین رائے دہندگان کہتے ہیں کہ اس جنگ کا القاعدہ پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ القاعدہ اس جنگ سے مضبوط ہوئی ہے۔
۳۰ ستمبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترمہ این ڈبلیو پیٹرسن نے لاہور کے ایوان صنعت و تجارت کے کاروباری افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم افغانستان اور قبائلی علاقوں میں تعلقات عامہ کی جنگ ہار چکے ہیں اور امریکی پیغام نہیں پہنچا سکے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے متاثرہ علاقوں کے لیے ایک ارب ستر کروڑ ڈالر سالانہ دے رہا ہے، لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیسہ وہاں خرچ ہونے کی بجائے درآمدی بل کی ادائیگی میں خرچ ہو رہا ہے۔
۵ اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق عالمی امدادی ادارے ’’ریڈ کراس‘‘ کے ترجمان مارکوسی نے اسلام آباد میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کو دنیا کا نیا ’’وار زون‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ قبائلی علاقے مکمل میدان جنگ بن چکے ہیں، پاکستانی فوج طالبان کے خلاف برسرپیکار ہے، بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں، فورسز کی بمباری اور جنگجوؤں کے خوف سے اڑھائی لاکھ افراد نقل مکانی کر گئے ہیں، اور کئی ہزار افغانستان میں داخل ہونے کے منتظر ہیں، ہزاروں افراد پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور وادی سوات جہنم میں تبدیل ہو چکی ہے۔
۵ اکتوبر کو ہی شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق عراق میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل پیٹر یوس نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بغداد میں غیر ملکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ختم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عراق میں حاصل ہونے والے تجربہ کو افغانستان میں استعمال کرنا چاہیے تھا، لیکن ہر جگہ صورت حال مختلف ہوتی ہے۔
یکم اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق اعلیٰ سفارت کار فرانسس منشال نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو مزید تباہی و بربادی سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سرگرمیوں اور حکمت عملی میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی کارروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے باعث عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہوا ہے جس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
۴ اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ملکوں کے تمام انٹیلی جنس اداروں کے اہل کار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک اگلے سات برسوں میں بھی افغانستان کو زیر نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ لوگ اب بھی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنے نائن الیون کے حملوں کے وقت تھے۔
۶ اکتوبر کو روزنامہ پاکستان نے یہ خبر شائع کی ہے کہ افغانستان میں برطانوی کمانڈر بریگیڈیئر مازک اسمتھ نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں فیصلہ کن فتح ممکن نہیں ہے، اس لیے برطانیہ کو طالبان کے ساتھ ممکنہ ڈیل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کمانڈر مازک اسمتھ نے کہا ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کا جنگ جیتنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں عوام کو اپنی توقعات میں کمی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عسکریت پسندی کی سطح کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ کام افغان فوج کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اور طالبان سے مذاکرات کر کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شائع ہونے والی بیسیوں خبروں اور رپورٹوں میں سے ان چند خبروں کا ہم نے بطور مثال حوالہ دیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ سات برس میں کیا کچھ حاصل کیا ہے اور مستقبل قریب میں مزید کیا کچھ حاصل ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس جنگ کا نتیجہ اس کے سوا کچھ برآمد ہونے والا نہیں تھا اور ہم جنگ کے آغاز میں ہی اس خیال کا اظہار کر چکے ہیں، اس لیے کہ اس جنگ کی بنیاد ہی مغالطوں اور فریب کاری پر تھی اور مغالطوں اور فریب کاری کی اساس پر لڑی جانے والی جنگوں کا نتیجہ یہی ہوا کرتا ہے۔
- ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف یہ جنگ دہشت گردی کا کوئی واضح مفہوم اور مصداق طے کیے بغیر لڑی جا رہی ہے، کسی گروہ یا ملک کو دہشت گرد قرار دینے اور اس کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ موجود نہیں ہے اور یہ اختیار اتحادی افواج اور ان کے قائد امریکہ کے پاس ہے کہ وہ جس کو چاہیں، دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف عسکری یلغار کر دیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ طالبان اور القاعدہ دہشت گرد ہیں، اس لیے ان کے خلاف جنگ ضروری ہے جبکہ طالبان اور القاعدہ کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان اور مڈل ایسٹ میں غیر ملکی مداخلت اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کے خلاف اپنی آزادی اور خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بد قسمتی سے ان دونوں کے موقف سن کر غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ کرنے والا کوئی ایسا فورم دنیا میں موجود نہیں ہے جس پر دونوں فریق اعتماد کرتے ہوں، اس لیے ظاہر ہے کہ یہ جنگ ہتھیاروں سے ہی لڑی جائے گی اور وہی غالب ہوگا جو طاقت اور ہتھیار سے دوسرے کو شکست دے گا۔
- امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے غلط طور پر یہ سمجھ لیا ہے اور دنیا کو بھی مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ القاعدہ اور طالبان صرف دو طبقے یا گروہ ہیں جن کو زیر کرنے سے معاملہ حل ہو جائے گا، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ صرف دو طبقے نہیں بلکہ افغان اور عرب عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی قوم کو زیر کرنے میں آج تک کسی کو کامیابی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ کبھی اس کا امکان موجود ہے۔
- امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا کو غلط طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دہشت گردی غربت اور جہالت کی وجہ سے ہے، اس لیے اگر مغربی تعلیم سے لوگوں کو بہرہ ور کر دیا جائے اور چار پیسے دے دیے جائیں تو فتح حاصل ہو سکتی ہے، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جسے دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے، وہ دراصل امریکہ اور مغربی اقوام کی ان مسلسل زیادتیوں، ناانصافیوں اور مظالم کا ردعمل ہے جو وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بالعموم اور فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بالخصوص طویل عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب تک ان زیادتیوں اور ناانصافیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا، ان کے رد عمل کو روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت اسامہ بن لادن کو بتایا جاتا ہے اور وہ اور اس کے گروپ کے افراد نہ غریب ہیں اور نہ ہی ان پڑھ ہیں۔
اس پس منظر میں ۸ اکتوبر کو عوام کے منتخب نمائندے اسلام آباد میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جمع ہو رہے ہیں تو ہم اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ بالآخر عوام کے منتخب نمائندوں کو اس کا موقع مل گیا ہے کہ وہ اس اہم ترین قومی مسئلہ پر باہمی تبادلہ خیالات کریں، لیکن اس کے ساتھ ہم یہ گزارش بھی کرنا چاہیں گے کہ بلاشبہ پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے ہمارے لیے دو بڑے چیلنج ہیں: ایک یہ کہ وطن عزیز کی سرحدوں میں بیرونی مداخلت اور حملوں کو روکنے اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ملک کے اندر خود کش حملوں میں اضافہ اور ان میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا کیسے سدباب کیا جا سکتا ہے؟ ہم پاکستان کی سرحدوں کے اندر بیرونی حملوں اور اندرون ملک خودکش حملوں کی یکساں مذمت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ہیں، البتہ یہ درخواست ہم ضرور کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کے عمومی اور عالمی تناظر کو بھی سامنے رکھیں اور صورتحال کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ملک میں امن و امان کی بحالی، قومی خود مختاری کے تحفظ اور ملکی وقار کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
مذکورہ گزارشات راقم الحروف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل روز نامہ پاکستان میں اپنے کالم کے ذریعے پیش کیں جو ۷ اکتوبر کو شائع ہوئیں، جبکہ اس کے بعد اجلاس کے دوران جیو ٹی وی کے معروف پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ کی دو نشستوں میں مجھے پروفیسر عبد الجبار شاکر، مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی اور مولانا امین شہیدی کے ساتھ مدعو کیا گیا۔ ان نشستوں میں راقم الحروف نے مختلف سوالات کے جواب میں جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج کیا جا رہا ہے۔
سوال: خود کش حملوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: خودکش حملہ ایک جنگی ہتھیار ہے جو مظلوم قومیں ہمیشہ سے استعمال کرتی آ رہی ہیں۔ یہ ہتھیار جاپانیوں نے بھی استعمال کیا تھا، جنگ عظیم میں برطانیہ نے بھی استعمال کیا تھا اور ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاک فوج نے بھی چونڈہ کے محاذ پر استعمال کیا تھا۔ دوسرے جنگی ہتھیاروں کی طرح یہ بھی میدان جنگ میں استعمال ہو تو جائز ہے، لیکن پرامن ماحول میں اس کا استعمال ناجائز ہوگا۔
سوال: پاکستان میں خود کش حملوں کے بارے میں علماء کا فتویٰ شائع ہوا ہے کہ یہ حرام ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: پاکستان میں خود کش حملوں کو ناجائز کہنے والوں میں خود میں بھی شامل ہوں، اس لیے کہ پاکستان اس حوالے سے نظریاتی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے کہ پاکستان کا دستور قرارداد مقاصد کو اپنی بنیاد قرار دیتا ہے، قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب تسلیم کرتا ہے، قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکتا ہے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کا وعدہ کرتا ہے، اس لیے جب تک یہ دستوری پوزیشن موجود ہے، پاکستان عملی طور پر کچھ بھی ہو، مگر نظریاتی طور پر بہرحال ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریاست میں حکومت کے خلاف کسی بھی مطالبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔
سوال: قبائلی علاقہ میں جو فوجی آپریشن اور خود کش حملے ہو رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: اس وقت پاکستان کی مغربی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ہمارے خیال میں تین قسم کے عناصر ملوث ہیں: وہ انتہا پسند اور جذباتی مسلمان بھی ان میں شامل ہیں جو نفاذ شریعت کے سلسلے میں حکومت کے مسلسل منفی طرز عمل کے باعث رد عمل کا شکار ہو کر ایسا کر رہے ہیں۔ ان کے طریق کار سے ہمیں اختلاف ہے، لیکن ان کا یہ موقف بہرحال درست ہے کہ ملک بھر میں اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں شرعی نظام نافذ کیا جائے۔ دوسرے نمبر پر ان واقعات میں بین الاقوامی محرکات کارفرما ہیں اور مختلف قوتیں اس میں ملوث ہو کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور تیسرے نمبر پر بہت سے جرائم پیشہ لوگ بھی اس فضا کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورا کرنے کے لیے اس میں شامل ہو گئے ہیں جیسا کہ ایسے مواقع پر اس طرح ہوتا ہے، اس لیے اس ’’مبینہ دہشت گردی‘‘ پر قابو پانے کے لیے ان تمام عناصر کو سامنے رکھ کر صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوگا، ورنہ حالات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
سوال: علمائے کرام اور آپ حضرات اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جواب: ہم اس صورتحال میں ان ناراض حضرات سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں جو نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہم ان کی منت کریں گے اور ان کو پوری طرح سمجھانے کی کوشش کریں گے، لیکن اس کے لیے پیشگی طور پر ضروری ہے کہ حکومت بھی اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس کا ثبوت دے اور میرے نزدیک اس سنجیدگی کا ثبوت دو صورتوں میں ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ پارلیمنٹ کی سطح پر فیصلہ کیا جائے کہ قبائلی علاقوں کا مسئلہ فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا، اور دوسرا یہ کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے لیے جس ’’شرعی نظام عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کا حکومت اس علاقے کے لوگوں سے بار بار وعدہ کر رہی ہے اور اس کا کئی بار اعلان ہو چکا ہے، حکومت علامت کے طور پر وہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر وہ شرعی نظام عدل ریگولیشن نافذ کر دے۔ جب حکومت یہ دو کام پیشگی کر لے گی تو باقی ماندہ امور کے لیے ہم وہاں جانے اور کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
اس پس منظر میں پارلیمنٹ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے سلسلے میں مختلف اداروں کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ اور اس پر کئی روز کے بحث و مباحثہ کے بعد جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے، وہ کئی حوالوں سے ہمارے لیے اطمینان بخش ہے۔ مثلاً یہ کہ:
- قوم کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور انہیں پالیسی سازی میں اصولی طور پر شریک کیا گیا ہے۔
- پارلیمنٹ نے قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی اور سٹریٹجی پر نظرثانی اور اس کی ازسرنو تشکیل کو ضروری قرار دیا ہے۔
- ملٹری آپریشن پر مذاکرات کو ترجیح دیتے ہوئے متعلقہ فریقوں سے مذاکرات کے لیے کہا گیا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان کی بریفنگ اور متفقہ قرارداد کو متوازن بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہ نماؤں ار جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن نے مؤثر کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ پوری پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر بھی تشکر و تبریک کے مستحق ہیں اور ہم اس متفقہ قرارداد پر پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو مبارک بار پیش کرتے ہیں۔
ہمارے خیال میں پارلیمنٹ کی اس متفقہ قرارداد سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے حوالے سے پوری قوم کے جذبات و احساسات کی عکاسی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر قوم کا موقف دنیا کے سامنے آ گیا ہے، لیکن یہ بہرحال قرارداد ہے جس کو عمل کے دائرے میں لانے کے لیے حکومتی کیمپ اور حکومت کی ترجیحات اور رجحانات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں اور پوری قوم کی نظریں اب حکومت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں کا یہ موقف پاکستان کی خود مختاری، سرحدوں کے تقدس، مکمل سالمیت اور امن و امان کے حوالے سے صورتحال کو بہتری کی طرف لے جانے میں کس قدر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ پاکستان کے حکمران اس نازک مرحلے میں ملک و قوم کی بہتری اور وقار و استحکام کے لیے مؤثر کردار ادا کریں اور وطن عزیز کو اس دلدل سے باعزت طور پر باہر نکالنے میں کامیاب ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔