حجِ بیت اللہ: امتِ مُسلمہ کی وحدت اور مرکزیت کی علامت

   
مدرسہ طیبہ، مسجد خورشید، کوروٹانہ، گوجرانوالہ
۱۹ جون ۲۰۲۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سعودی عرب میں اور عالمِ اسلام کے بہت سارے حصوں میں ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ یہ ہجری سال کا آخری اور بڑا بابرکت مہینہ ہے، حج کی بہت بڑی عبادت اس مہینے میں ہے، ذی الحجہ کا پہلا عشرہ بھی برکت والے دنوں میں ہے۔ قرآن مجید میں ہے ’’والفجر، ولیال عشر، والشفع والوتر‘‘ (الفجر ۱۔۳) کہ اللہ تعالیٰ نے صبح کی قسم اٹھائی ہے اور دس راتوں کی قسم اٹھائی ہے، بعض روایات کے مطابق ’’لیال عشر‘‘ سے مراد یہ عشرہ ہے یعنی ذی الحجہ کے پہلے دس دن۔ یہ اللہ کے ذکر کے دن ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی عبادت حج کا عشرہ ہے جس کی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت فضیلت بیان فرمائی ہے اور اس عشرے میں عبادت کو بڑی فضیلت کی عبادت فرمایا ہے۔حج کی ترتیب آٹھ ذی الحجہ کو شروع ہوتی ہے اور تیرہ ذی الحجہ تک چلتی رہتی ہے۔

حج کے موجودہ تسلسل کا آغاز ہوا تھا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دونوں باپ بیٹا نے مل کر بیت اللہ تعمیر کیا تھا ’’اذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعیل‘‘ (البقرہ ۱۲۷) اس وقت انہوں نے دعا مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ’’واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالاً‌ وعلیٰ کل ضامر یاتین من کل فج عمیق(الحج ۲۸ ) آپ اعلان کریں پہاڑی پر کھڑے ہو کر، لوگوں کو حج کے لیے بلائیں، آپ کی آواز جہاں جہاں پہنچے گی، اللہ تعالیٰ کا تکوینی نظام ہے، لوگ حج کے لیے آئیں گے، پیدل بھی، سوار بھی، ہر گھاٹی سے، ہر راستے سے، سمندر سے ، خشکی سے ، اور اب ہر ہوائی اڈے سے بھی۔ الحمد للہ یہ حج تب سے جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بلکہ حجۃ الوداع سے پہلے ہر طرح کے لوگ حج کے لیے آتے تھے، مسلمان بھی آتے تھے اور بت پرست بھی آتے تھے، جس کی بھی عقیدت ہوتی تھی وہ چلا آتا تھا، لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکہ قرآن مجید نے پابندی لگا دی کہ ’’انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا‘‘ (التوبۃ ۲۸) کافر نجس ہیں وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔ یہ پابندی ۹ ہجری کو لگی تھی اور ۱۰ کو اس کی پابندی کی گئی تھی کہ کافر حج میں شریک نہ ہوں۔ اس طرح حج مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ حج کی عبادت پہلے مشترک ہوتی تھی لیکن اسلام نے حج کو خالص مسلمانوں کی عبادت قرار دیا کہ کوئی غیر مسلم اس میں شریک نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لے جائے تو وہاں راستے بھی الگ الگ ہیں کہ یہ راستہ حرم کو جاتا ہے، مسلمان اس راستے سے جائیں گے، اور یہ راستہ حرم سے باہر رہتا ہے، غیر مسلم اس راستے سے جائیں۔

یہ عبادت یعنی اللہ کے گھر میں پوری دنیا کے لوگوں کی حاضری، یہ ہماری مرکزیت کی علامت بھی ہے۔ ہمارا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے، حرمین شریفین ہماری عقیدت اور محبتوں کا مرکز بھی ہیں اور ہماری وحدت کی علامت بھی۔ دنیا بھر کے مسلمان، کالے ، گورے ، گندمی ، کوئی کسی رنگ کا ہو، کسی برادری اور قبیلے کا ہو، یہاں سارے اکٹھے ہوں گے اور کوئی تفریق نہیں ہو گی۔ یہ ہماری مرکزیت کی علامت بھی ہے اور وحدت کی علامت بھی ہے۔

ایک ہندو دانشور پنڈت دیانند سرسوتی نے اعتراض کیا کہ ہم ہندوؤں پر تم مسلمان الزام لگاتے ہو کہ ہم پتھر کو پوجتے ہیں، تم بھی تو پتھر کو پوجتے ہو، ہم پتھر کی مورتی بنا کر پوجتے ہیں، تم نے پتھروں کا کوٹھا بنایا ہوا ہے اس کے گرد چکر لگاتے ہو، پھر ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب بہت سے علماء نے دیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا اس کے جواب میں رسالہ ہے ’’قبلہ نما‘‘ کہ نہیں بھئی! ہم بیت اللہ کو نہیں پوجتے، اگر بیت اللہ ہمارا معبود ہوتا تو سترہ مہینے اس کو چھوڑے نہ رکھتے ، مدینہ منورہ آنے کے بعد حضورؐ نے سترہ مہینے ادھر رخ نہیں کیا۔ ہم اللہ کے حکم کو پوجتے ہیں، اللہ نے فرمایا کہ اِدھر رخ کرو، ہم نے اِدھر رخ کیا، پھر فرمایا اُدھر کرو، ہم نے اُدھر کر لیا، پھر فرمایا واپس اِدھر آؤ، ہم واپس آ گئے۔ ہمارا معبود پتھر نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم ہے۔ ہم اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اس لیے اصل معبود اللہ ہے۔ ہم بیت اللہ کی طرف رخ اس لیے کرتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان یکسو ہوں، یہ مرکزیت اور وحدت کی علامت ہے۔ ایک بات اور کہی کہ اگر معبود یہ پتھر ہوتا تو دنیا کے مختلف مقامات پر لوگوں کے پاس بیت اللہ کے تبرکات موجود ہیں لیکن کبھی کسی نے انہیں سجدہ نہیں کیا، نہ بیت اللہ کے غلاف کو کبھی سجدہ کیا ہے، نہ اس کے پتھر کو کبھی سجدہ کیا ہے کہ یہ معبود نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ذات معبود ہے۔

خیر، میں نے یہ عرض کیا کہ بیت اللہ شریف ہماری وحدت اور مرکزیت کی علامت ہے کہ امتِ مسلمہ آپس میں جتنا مرضی لڑتی رہے لیکن یہاں آ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مل کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، سب کا رخ ایک طرف ہوتا ہے، ایک ہی صف میں ہر قسم کے لوگ عبادت کر رہے ہوتے ہیں۔ وحدت اور مرکزیت دو بڑی باتیں ہیں امتِ مسلمہ کی۔

اللہ تعالیٰ وہاں حاضر ہونے والوں کی عبادتیں قبول فرمائے، جو حاضر نہیں ہو سکے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، اور حج کے اجتماع کو دنیا بھر میں ہمارے لیے برکتوں، کامیابیوں اور نجات کا باعث بنائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter