ان دنوں جہاں بھی جا رہا ہوں ایک سوال کا کم و بیش ہر جگہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیا کر رہے ہیں اور ان کا رخ کدھر ہے؟ میرا جواب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ رخ تو ان کا صحیح سمت ہی ہے البتہ رفتار اور لہجے کے بارے میں کبھی کبھی سوچنے لگ جاتا ہوں کہ کیا وہ ضرورت سے زائد تو نہیں ہے؟
ہماری مقتدر قوتوں اور میڈیا دونوں کی یہ مجبوری چلی آرہی ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ قومی سیاست میں دینی حلقوں کے تناسب کو کم سے کم کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے، جبکہ الیکشن کے بعد دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بس یہ دینی حلقوں کا آخری الیکشن تھا، ان کا زور توڑ دیا گیا ہے، قوت ختم کر دی گئی ہے اور ان کے اثرات اب اتنے نہیں رہے کہ وہ کسی قومی یا دینی مسئلہ میں کوئی مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ حالیہ الیکشن کے بعد بھی یہ ڈرامہ دہرانا ضروری سمجھا گیا اور پوری دنیا خاص طور پر مغرب کو یہ پیغام بھجوایا گیا کہ قومی سیاست کو دینی رجحانات اور مذہبی قوتوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور اب عالمی استعمار اطمینان کے ساتھ پاکستان میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس مفروضے کا عملی جواب دے رہے ہیں اور دنیا کو مسلسل بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام اب بھی دینی قوتوں کے ساتھ ہیں اور ان کی آواز پر کسی بھی دینی اور قومی مسئلہ کے لیے سڑکوں پر آنے کو تیار ہیں۔ کراچی، لاہور، سکھر، مظفر گڑھ اور ڈیرہ اسماعیل خان کی شاندار ریلیاں اس بات کی شاہد ہیں اور ۱۷ فروری کو مردان میں تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ہونے والی عوامی ریلی ان شاء اللہ تعالٰی اس میں مزید اضافہ کرے گی۔
میرے نزدیک یہ اس مہم کی مؤثر پیشرفت کا ہی نتیجہ ہے کہ دینی حلقوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو قومی سیاست سے باہر کر دینے کی خواہشمند قوتوں کو متحدہ مجلس عمل کی اس عوامی یلغار کا زور کم کرنے کے لیے ’’ریزرو دستوں‘‘ کو میدان میں لانا پڑا ہے مگر اس ریزرو فورس کی اچھل کود بھی عوامی سیاست کا شعور رکھنے والے کارکنوں کو ’’محظوظ‘‘ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پا رہی۔ یہ ایک طویل دورانیے کا کھیل ہے جس کا آغاز پاکستان بنتے ہی ہوگیا تھا اور اس نے اس وقت تک جاری رہنا ہے جب تک قومی سیاست سے دینی اثرات کو ختم کرنے کے خواہشمند عالمی اور قومی حلقے زمینی حقائق کو اسی طرح تسلیم نہیں کر لیتے جیسے امریکہ بہادر نے افغانستان میں معروضی حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ کھیل شاید اگلی نسل میں بھی اسی طرح جاری رہے اس لیے مجھے مولانا فضل الرحمان کا رخ صحیح سمت ہونے کے باوجود ان کی رفتار اور لہجے پر کبھی کبھی الجھن ہونے لگ جاتی ہے کہ یہ اتنی جلدی کا معاملہ نہیں ہے جتنی جلدی میں مولانا صاحب لگتے ہیں۔
سات عشرے قبل پاکستان تو اسلام کے نام پر بن گیا تھا اور اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت میں اسلام کے معاشرتی نظام کو اس کی اساس اور منزل بھی قرار دے دیا تھا مگر جن قوتوں کے ہاتھ میں وطن عزیز کی باگ ڈور رہی وہ نہ تو اسلام کے عملی نفاذ کی صلاحیت رکھتی ہیں اور نہ ہی ان میں اسلام کے حقیقی نفاذ کے نتائج قبول کرنے کا حوصلہ ہے۔ وہ جس نوآبادیاتی دور اور ماحول میں وجود میں آئی تھیں اسی میں عافیت محسوس کرتی ہیں، اس لیے یہ حکمت عملی طے کر لی گئی کہ اسلام کے نام اور ٹائٹل سے تو کسی مرحلہ میں انکار نہ کیا جائے مگر قومی زندگی کے کسی شعبہ میں اسے نافذ بھی نہ ہونے دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی سیاست میں دینی اقدار و روایات کے حامل عناصر کو بتدریج بے اثر کرتے چلے جانے کی منصوبہ بندی کر لی جائے۔ چنانچہ ابھی تک انہی نکات کے گرد ہماری قومی سیاست گھوم رہی ہے۔ البتہ اس میں ایک نئے نکتہ کا اضافہ دکھائی دینے لگا ہے کہ اسلام کے کسی قانون یا حکم کو اگرچہ عملاً نافذ نہ ہونے دیا جائے مگر یہ سارا کام اسلام ہی کے نام پر کیا جائے اور خلافت راشدہ، فلاحی ریاست اور ریاست مدینہ جیسی خوش کن اصطلاحات کے پرچار کے ماحول میں وہ سارے کام یکے بعد دیگرے کر دیے جائیں جو شاید سیکولر اور لبرل کے لیبل کے ساتھ نہ کیے جا سکیں۔
مذہبی مکاتب فکر کے جو قائدین اس کھیل کو سمجھ رہے ہیں وہ یقیناً اس بات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کا اصل جواب وہی ہے جس کا راستہ مولانا فضل الرحمان نے اختیار کیا ہے کہ عوامی قوت کو متحرک رکھا جائے اور تمام مکاتب فکر کی قیادت کو یکجا رکھنے کا تسلسل قائم رہے۔ کیونکہ دینی قوتوں کی وحدت اور عوامی حمایت ہی وہ دو ہتھیار ہیں جن کے ذریعے گزشتہ ستر برس کے دوران قومی سیاست میں دینی قوتوں نے اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے اور آئندہ بھی ان کے پاس یہی ہتھیار کارآمد رہیں گے۔ اس لیے اپنی جدوجہد کے ان دو پہلوؤں میں توازن قائم رکھنا ہی ان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
یہ عزم و حوصلہ اور صبر و استقامت کی طویل اعصابی جنگ ہے جسے تسلسل کے ساتھ لمبے عرصہ تک جاری رکھنا ہوگا اور اسے جلدی مکمل کرنے کی کوشش شاید سودمند نہ ہو، اس لیے کراچی، لاہور، سکھر، مظفر گڑھ، ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان کے بعد بھی ملک کے ہر خطہ کے علماء کرام اور کارکنوں سے ہم یہ توقع رکھیں گے کہ وہ اس پر اَمن، دستوری اور جمہوری جنگ کو تادیر جاری رکھنے اور منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ضرور ادا کریں گے۔ اگر افغان عوام اپنے اسلامی تشخص اور قومی خودمختاری کے لیے مسلح جنگ کی قومی روایت کو نسل در نسل جاری رکھ سکتے ہیں تو کیا ہم اسی ہدف کے لیے پراَمن سیاسی جدوجہد کی اپنی روایت کو منطقی نتیجے تک جاری نہیں رکھ سکتے؟