جہاں تک عورتوں کے حقوق کی بات ہے اسلام ان کا سب سے بڑا علمبردار ہے لیکن وہ حقوق کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے معاملات میں اور حقوق میں توازن اور بیلنس کی بات بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کو الگ الگ صلاحیتیں، نفسیات اور استعدادات عطا فرمائی ہیں۔ اسلام نے حقوق اور فرائض کی تقسیم فطری امور کو سامنے رکھ کر، دونوں کے فطری تقاضے، ضروریات، اور دونوں کی فطری صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کی ہے، اور وہی متوازن اور فطری تقسیم ہے جو اسلام کرتا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو زندگی کا حق دلوایا، وراثت کا حق دلوایا، رائے کا حق دلوایا، علم کا حق دلوایا، معاشرے میں عزت اور احترام عطا کیا، اور عورت کو بطور ماں کے عزت و احترام، بطور بہن اور بیٹی کے شفقت، بطور بیوی کے محبت کے جذبات کی تلقین فرمائی۔ اور خود بھی اپنے عمل کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں اپنے خاندان میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔
آج عورت کے حقوق کے نام پر، اور عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر جو آواز اٹھائی جا رہی ہے، اور بالخصوص مذہبی اقدار کو، آسمانی تعلیمات کو، اور ان میں سے بھی خصوصاً اسلامی تعلیمات و احکام کو جو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ غیر فطری بات ہے۔ عورت اور مرد کی مساوات مکمل طور پر ممکن ہی نہیں ہے اور نیچر کے بھی خلاف ہے۔ عورت اور مرد کی جسمانی ساخت الگ الگ ہے، نیچرل ڈیوٹیز الگ الگ ہیں، بہت سے معاملات ہیں جو مرد میں ہیں عورت میں نہیں ہیں، جو عورت میں ہیں مرد میں نہیں ہیں، عورت کی جسمانی ساخت مرد سے مختلف ہے، اس کی سائیکالوجی مرد سے مختلف ہے، اس کی قوت کار اور استعداد مرد سے مختلف ہے، لازمی بات ہے کہ فرق تو ہو گا۔ اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر کوئی بھی تقسیم کار یا مساوات اَن نیچرل غیر فطری بات ہے جس کی طرف دنیا کو بلایا جا رہا ہے۔ اور اس کا خمیازہ خود مغرب نے خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں، بکھرنے کی صورت میں خود مغرب بھگت رہا ہے۔ اور مغرب کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کے لیے چیخ و پکار کر رہے ہیں، لیکن وہ آسمانی تعلیمات کی طرف واپس آئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
آج بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ، خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر عورت کے حقوق کی بات کی جائے تو ہم اس کے سب سے زیادہ علمبردار ہیں، لیکن عورت اور مرد کی مساوات کے نام پر، عورت اور مرد کے حقوق کے نام پر جو غیر فطری اور غیر متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اور بالخصوص پاکستان میں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے، دستور اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے، اس لیے پاکستان میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جو اسلامی تہذیب کو، اسلامی تمدن کو، مسلمانوں کی ثقافتی اقدار کو، اور دستور کے تحفظات کو، دستور کی گارنٹیز اور ضمانتوں کو متاثر کرتا ہو۔
میں گزارش کروں گا کہ عورت کی مظلومیت کی اور بہت سی صورتیں ہیں جو پاکستان میں رائج ہیں، لیکن ان ساری صورتوں کو نظرانداز کر کے ایک دو باتوں پر فوکس کر کے جو اوپن سوسائٹی اور فری سوسائٹی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ قابل قبول نہیں ہے، اس کا خیال کرنا چاہیے۔ اور عورتیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں، عورتوں کے حقوق کے لیے مردوں کو بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور عورتوں کو بھی کرنی چاہیے۔ دستور کے دائرے میں، جمہوریت اور قانون کے دائرے میں، تہذیبی اقدار اور ثقافتی روایات کے دائرے میں، اور اسلامی تعلیمات کے دائرے میں ہر ایسی کوشش کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اور ہر اس کوشش کی جو ان دائروں کو متاثر کرتی ہو، اس کی نفی ضروری ہے۔ اور پاکستان کی سالمیت کا، اس کی نظریاتی شناخت کا، اور تہذیب و ثقافت کا، وہ تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد پر مسلمانوں اور ہندؤوں کو الگ الگ قوم شمار کیا گیا تھا، اور سر سید احمد خان سے لے کر قائد اعظم مرحوم تک سب مسلم تہذیب کے تحفظ کے نام پر دو قومی نظریے کی بات کرتے آ رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر پاکستان تشکیل پایا ہے، اس کی نفی کرنا یہ پاکستان کے مقصد کے بھی خلاف ہے، نظریے کی بھی خلاف ہے، دستور کے بھی خلاف ہے، اور پاکستانی مسلمانوں کے، پاکستانیوں کے جذبات و روایات کے بھی خلاف ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو صحیح رخ پر ملک و قوم کی اور قوم کے تمام طبقات کے حقوق کی حمایت اور حفاظت کی توفیق عطا فرمائے۔