لال مسجد تنازع حل کرنے کی علماء کی کوششیں

   
۱۰ جولائی ۲۰۰۷ء

میں گزشتہ روز (۸ جولائی) کو دارالعلوم رحیمیہ ملتان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے گوجرانوالہ سے روانہ ہوا، لاہور پہنچا جہاں شیرانوالہ گیٹ میں جمعیت علماء اسلام صوبہ پنجاب (سمیع الحق گروپ) کے زیر اہتمام ”دفاعِ اسلام سیمینار“ منعقد ہو رہا تھا، اس میں تھوڑی دیر کے لیے شرکت کی۔ حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف صاحب سے ایک عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی اور شیرانوالہ بھی طویل وقفہ کے بعد جانا ہوا۔ حضرت مولانا سمیع الحق صاحب اور دیگر راہنماؤں سے مختصر بات چیت ہوئی۔ مجھے ملتان کے لیے پی آئی اے کی تین بجے والی فلائٹ لینا تھی اور ایئر پورٹ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا فون آ گیا کہ آپ ملتان جانے کی بجائے فوراً اسلام آباد پہنچیں کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان اور حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اور آپ کا پہنچنا بھی ضروری ہے، تاکہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف ہونے والے آپریشن کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے اعلیٰ سطح پر کوئی کوشش کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ملتان سے پی آئی اے کے ذریعہ اسلام آباد جا رہے ہیں۔ جہاز لاہور میں بھی رکے گا، اس لیے اسی جہاز میں ان کے ساتھ اسلام آباد چلا جاؤں۔ ”دفاعِ اسلام سیمینار“ کی انتظامیہ سے معذرت کر کے اجازت چاہی، جہاز کی روانگی میں پون گھنٹہ باقی تھا اور بظاہر سیٹ کا حصول مشکل نظر آ رہا تھا، مگر مولانا قاری حنیف جالندھری مسلسل رابطہ میں تھے، ان کا اثر و رسوخ کام آیا اور میں ان کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خان، حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور ڈاکٹر محمد عادل خان سے ملاقات ہوئی، باہمی مشورہ میں طے پایا کہ سب سے پہلے چودھری شجاعت حسین صاحب سے رابطہ کیا جائے اور ان سے بات کی جائے۔ فون پر بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ وہ ایک گھنٹے بعد اسی مسئلہ میں وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ کے لیے جا رہے ہیں، اس لیے آپ حضرات فوری طور پر آ جائیں تو بات چیت مفید ہو سکتی ہے۔ اس وقت مولانا مفتی رفیع عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، حافظ عمار یاسر اور راقم الحروف کھانے کی میز پر کھانے کے انتظار میں تھے، فوری طور پر اٹھے اور چودھری شجاعت حسین صاحب کے گھر جا پہنچے۔ ہمارے ساتھ اسلام آباد کے علماء میں سے مولانا محمد نذیر فاروقی، مولانا محمد شریف ہزاروی، مولانا ظہور احمد علوی اور دیگر علماء بھی شامل ہو گئے، جبکہ چودھری صاحب کے رفقاء میں وفاقی وزیرِ صحت نصیر خان، انجینئر امیر مقام اور ان کے دوسرے رفقاء موجود تھے۔

حضرت مولانا سلیم اللہ خان کی قیادت میں جانے والے اس وفد کے منتظم مولانا مفتی رفیع عثمانی تھے، انہوں نے ملک کے دینی حلقوں اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے وابستہ ہزاروں مدارس کی ترجمانی کرتے ہوئے چودھری صاحب کو بتایا کہ اس سے قبل یہ صورت حال تھی کہ مولانا عبد العزیز اور مولانا عبد الرشید غازی ایک غلط طریقِ کار پر بے جا اڑے ہوئے تھے اور حکومت نے صبر و تحمل اور مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کیا، لیکن اب حکومت نے طاقت استعمال کر کے اور مذاکرات کا راستہ بند کر کے جو رویہ اختیار کیا ہے ہمارے نزدیک وہ بھی غلط ہے اور اس سے جو جانی نقصان ہو رہا ہے اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت بھی ایک غلط بات پر اڑ گئی ہے۔ اس لیے ہم یہ مطالبہ لے کر آئے ہیں کہ فوری طور پر فوجی ایکشن بند کیا جائے، مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا جائے، وہاں جو لاشیں بتائی جاتی ہیں انہیں نکالا جائے، زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتالوں میں منتقل کیا جائے، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود طالبات اور طلبہ کو خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں، پانی کا کنکشن بحال کیا جائے اور عبد الرشید غازی صاحب نے جو شرائط باہر نکلنے کے لیے پیش کی ہیں، انہیں یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان پر دوبارہ غور کر لیا جائے، تاکہ کوئی قابلِ عمل درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔

اس موقع پر قاری حنیف جالندھری صاحب نے کہا کہ اس سے قبل دنیا میں اور خود پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں کہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے بڑے سے بڑے مجرموں کو رہا کیا گیا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب ”الذوالفقار“ نے طیارہ اغوا کیا تھا تو کابل ایئر پورٹ پر کھڑے پی آئی اے کے طیارہ میں موجود ایک سو پچیس مسافروں کی جانیں بچانے کے لیے پاکستان کی جیلوں سے تین سو کے لگ بھگ مجرموں کورہا کر دیا گیا تھا۔ اس لیے اگر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں موجود سینکڑوں طلبہ اور طالبات کی جانیں بچانے کے لیے عبد الرشید غازی کے مطالبہ پر انہیں اور ان کی والدہ محترمہ کو طلبہ اور طالبات کے ساتھ محفوظ راستہ دے دیا جائے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہو گی، البتہ جو افراد اس سے قبل کسی معاملہ میں حکومت کو مطلوب ہیں تو انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

علماء کے وفد نے چودھری شجاعت حسین سے کہا ہے کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے اور غازی عبد الرشید کی یہ ضد اگر بے جا بھی ہے تو بھی اسے مان لے، تاکہ مزید خونریزی کو رو کا جا سکے۔ اس موقع پر وفد کے بعض ارکان کی طرف سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ فوری طور پر دونوں طرف سے سیز فائر کیا جائے، آپریشن روک دیا جائے، وہاں سے غیر ضروری فورسز ہٹا لی جائیں اور اس کے بعد تمام معاملات سپریم کورٹ آف پاکستان یا وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیے جائیں۔ وہ جو فیصلہ بھی کریں دونوں فریق اسے قبول کر لیں۔

گفتگو کے دوران ایک موقع پر ملک کی عمومی صورت حال اور اہل دین کے حوالہ سے حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی خاصے جذباتی ہو گئے اور صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کو سختی کے ساتھ ہدف تنقید بنایا، جس پر فضا گرم ہوتے ہوتے رہ گئی، مگر مجموعی طور پر گفتگو کا ماحول مناسب رہا اور ہم نے اپنے جذبات اور موقف چودھری شجاعت حسین صاحب اور ان کے رفقاء تک اس خیال سے پہنچا دیے کہ وہ صدر اور وزیر اعظم کے پاس جا رہے ہیں، انہیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف مسلح آپریشن کے بارے میں دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کر دیں گے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ وہ ان جذبات کو پہنچائیں گے اور کوشش کریں گے ان جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی ایسا راستہ نکل آئے جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو اور مزید خونریزی کو روکا جا سکے۔

اس موقع پر میڈیا کے حضرات بھی موجود تھے، جنہوں نے گفتگو کی مجموعی رپورٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں سے الگ الگ انٹرویو بھی لیے۔ میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اس سے قبل ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ لال مسجد کی انتظامیہ کے مطالبات صحیح ہیں لیکن ان کا طریق کار غلط ہے، لیکن اب حکومت بھی طاقت کے استعمال کا غلط طریق کار اختیار کر کے اسی پوزیشن پر آ گئی ہے اور ہم حکومت کو یہ بتانے کے لیے آئے ہیں کہ اس کے اس طرز عمل کا ردعمل انتہائی شدید ہو گا اور ملک بھر کے دینی حلقوں اور عوام میں سخت اشتعال پیدا ہو گا۔

ایک صحافی دوست نے سوال کیا کہ کیا یہ ریاست کو مذہب سے الگ کرنے کی کسی مہم کا حصہ تو نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس قسم کی کارروائیاں اسی مقصد کے لیے کی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی نہ صرف دستوری بنیاد اسلامی نظریہ پر ہے، بلکہ اس کے وجود کی بنیاد بھی اسلام پر ہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو اس کے قیام کے نظریاتی اور تہذیبی پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔

چودھری شجاعت حسین سے ہم نے عرض کیا کہ ہم آپ کی طرف سے جواب کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد ہم سب اپنی قیام گاہ پر آ گئے، جہاں مولانا قاری سعید الرحمٰن صاحب اور دیگر علماء بھی ہمارے منتظر تھے، ان کے ساتھ رات گئے تک مشاورت ہوتی رہی۔ اس دوران وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ چودھری شجاعت حسین صاحب کے ذریعہ آپ کا موقف اور جذبات وزیر اعظم اور صدر تک پہنچ گئے ہیں اور میں وزیر اعظم کے پاس سے ہی آ رہا ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ آپ حضرات کی ملاقات وزیر اعظم سے براہ راست ہو جائے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی بذریعہ فیکس فوری ملاقات کی درخواست کر چکے ہیں، جس کے جواب کا انتظار ہے۔ اعجاز الحق صاحب کم و بیش ایک گھنٹہ ہمارے ساتھ گزارنے کے بعد چلے گئے اور ہم آج (۹ جولائی) کو صدر یا وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے لیے بلاوے کے انتظار میں ہیں، تاکہ انہیں اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے موقف اور جذبات سے براہ راست آگاہ کیا جا سکے اور انسانی جانیں بچانے کے لیے کوئی معقول اور قابلِ عمل راستہ نکالا جا سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter