کیتھولک مسیحیوں کے عالمی راہنما اور پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے گزشتہ دنوں جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک پرانے بازنطینی مسیحی بادشاہ عمانوتیل دوم کا یہ جملہ اپنی تائید کے ساتھ دہرا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اضطراب کی کیفیت سے دو چار کر دیا ہے کہ حضرت محمدؐ نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ مذہب اسلام کو تلوار کی زور سے دنیا میں پھیلائیں۔ پاپائے روم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے شدید احتجاج پر اس سلسلہ میں گول مول سی معذرت بھی کی ہے لیکن ان کی معذرت صرف اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کو ان کی بات سے تکلیف پہنچی ہے، جبکہ اپنی بات کے اصل حصے کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی آسٹریلیا کے چیف پادری نے ان کی اس بات کی ان الفاظ کے ساتھ تائید کرکے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں تشدد شامل ہے۔
ہم پاپائے روم اور آسٹریلیا کے چیف پادری کو توجہ دلانا چاہیں گے کہ:
- اگر تشدد سے مراد ’’جہاد‘‘ ہے تو یہ صرف اسلام کا حکم نہیں بائبل کا حکم بھی یہی ہے اور بنی اسرائیل بھی شریعت موسوی ؑ کی بالادستی کے لیے اسی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مسیحی عقائد کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی دنیا میں دوبارہ تشریف آوری پر تلوار اٹھائیں گے اور دشمنوں کا خاتمہ کرکے ’’خدا کی بادشاہت‘‘ قائم کریں گے۔ اس لیے اسلام پر کوئی اعتراض کرنے سے قبل انہیں بنی اسرائیل کی تاریخ اور بائبل کے احکامات اور پیش گوئیوں پر بھی نظر ڈال لینی چاہیے۔
- اور اگر اس تشدد سے مراد یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور مسلمانوں نے دنیا کو زبردستی کلمہ پڑھایا ہے تو یہ سفید جھوٹ ہے اور تاریخی حقائق اس کی سراسر نفی کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی میں تلوار اور جبر کے تمام ہتھکنڈے دوسری طرف تھے مگر اس کے باوجود لوگ مسلسل اسلام قبول کرتے رہے۔ جناب نبی اکرم ؐ، خلفائے راشدین اور بعد کی چودہ سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے دنیا میں کسی جگہ بھی کسی کو جبر کے ذریعہ کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا ہو، اگر ایسا ہوتا تو کم و بیش ایک ہزار سال مسلمانوں نے متحدہ ہندوستان پر حکومت کی ہے وہ کسی غیر مسلم کو اسلام سے باہر نہ رہنے دیتے۔ اور آج جبکہ نہ صرف تلوار اور ہتھیار کی قوت بلکہ میڈیا اور ابلاغ کی ساری طاقت مغرب کے ہاتھ میں ہے اور مسلمان اس معاملہ میں بالکل بے دست و پا ہیں لیکن اس کے باوجود مغرب میں ہر سال ہزاروں افراد مسلمان ہو رہے ہیں، یہ تاریخی اور معروضی حقائق پاپائے روم کے اس دعویٰ کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔