الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الرسل و خاتم النبیین وعلیٰ آلہ واصحابہ و اتباعہ اجمعین اما بعد اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الم ﴿۱﴾ ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ ھدًی للمتقین ﴿۲﴾ الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوٰة ومما رزقنٰھم ینفقون ﴿۳﴾ والذین یؤمنون بمآ انزل الیک ومآ انزل من قبلک وبالاٰخرة ھم یوقنون ﴿۴﴾ اولئک علیٰ ھدًی من ربھم واولئک ھم المفلحون ﴿۵﴾
سورۃ البقرۃ کی ابتدائی چند آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ترجمہ تو بعد میں کروں گا، لیکن تھوڑا سا پس منظر عرض کر دوں۔ اس سورۃ کا نام سورۃ البقرۃ ہے اور قرآن کریم کی سب سے طویل سورۃ ہے۔ مدنی سورۃ ہے یعنی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے، تقریباً اڑھائی پارے کی سورۃ ہے یہ۔ بقرہ گائے کو کہتے ہیں۔ اس میں گائے کا ایک قصہ ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا، جس میں بنی اسرائیل کو ایک مقدمہ کے حوالے سے گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا، اس مناسبت سے اس کو سورۃ البقرۃ کہتے ہیں ’’سورۃ فیھا ذکر البقرۃ‘‘ وہ سورۃ جس میں گائے کا واقعہ مذکور ہے۔
آغاز ’’الم‘‘ یہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں آغاز مفرد حروف سے کیا گیا ہے۔ ’’الم‘‘، ’’حم‘‘، ’’کھیعص‘‘، ’’طسم‘‘، بہت سی سورتوں کا آغاز مفرد حروف سے کیا گیا ہے۔ اس کی مفسرین کرام نے بہت سی تشریحات اور تعبیرات کی ہیں۔ بعض فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کی طرف اشارہ ہے: اللہ، لطیف، مالک۔ بعض فرماتے ہیں یہ تعلق کا اظہار ہے، اللہ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ قرآن کریم لے کر نازل ہوئے ہیں۔ بعض اور تعبیرات بھی کرتے ہیں، لیکن مجھے سب سے زیادہ اچھی تعبیر امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی محسوس ہوئی ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ ’’تفسیرِ کبیر‘‘ میں بیان فرماتے ہیں کہ حروفِ مقطعات قرآن کریم کی بہت سی سورتوں کا عنوان بنائے گئے ہیں، یہ اشارہ ہے کہ عربی کے جو حروف ہیں اکیلے اکیلے، انتیس حروف ہیں، اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو انسانی کلام کہنے والوں کو دعوت دی ہے کہ تم بھی قرآن کریم جیسی کوئی کتاب لے آؤ اگر تم اسے انسان کا کلام سمجھتے ہو۔ قرآن کریم کا سارا مواد یہ حروفِ مقطعات ہیں۔ یہی انتیس حروف تمہارے پاس بھی ہیں، انہی حروف سے تم کلام کرتے ہو، الم، حم عسق، ابجد کے جو حروف ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سارا مواد ہے، یہ تمہارے سامنے ہے، تمہاری دسترس میں ہے، تم کلام کر کے دکھا دو۔ تو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اِسے اُس تحدی اور چیلنج کا حصہ بتاتے ہیں، کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں یہ حروف ہیں، یہ کلام اللہ ہے۔ اور آج تک الحمد للہ کوئی بھی ایسا کلام پیش نہیں کر سکا۔ تو بہرحال ’’الم‘‘ کے بارے میں مختلف تعبیرات و توجیہات ہیں۔
’’ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘‘۔ ’’الکتاب‘‘ قرآن کریم نے توراۃ، انجیل اور قرآن کریم کو کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو بڑی کتابیں ہیں، ان کو ’’الکتاب‘‘ یعنی وہ کامل کتاب ہے، سب سے کامل کتاب قرآن کریم ہے، اس میں توراۃ بھی ہے، اس میں انجیل بھی ہے۔ قرآن کریم نے اپنا تعارف کروایا ہے ’’مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب ومھیمنا علیہ‘‘ (المائدۃ ۴۸) قرآن کریم پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ان کی اصل تعلیمات کی حفاظت کرنے والا ہے۔ تو یہ ’’الکتاب‘‘ قرآن کریم کے بارے میں فرمایا ’’لاریب فیہ‘‘ کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ دیکھیں، شک نہ ہونے کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ شک کیا نہیں جائے گا۔ نہیں، شک کیا تو گیا ہے۔ مگر شک کا محل نہیں ہے، کوئی شک حقیقی نہیں ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کی زبان میں ہمیشہ بات کی گئی ہے، آج بھی بات کی جاتی ہے۔ لیکن قرآن کریم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو شک کا محل ہو اور جس شک کو دور نہ کیا جا سکے۔ اس معنیٰ میں قرآن کریم شک سے بالاتر ہے۔ اور اس معنیٰ میں بھی کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ’’انزلنا الیک الکتاب‘‘ ہم نے آپ پہ کتاب اتاری ہے۔ وہ ’’الکتاب‘‘ کونسی ہے؟ وہ یہ ہے۔ ’’لاریب فیہ‘‘ اس کے اللہ کی طرف سے ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ قرآن کریم کا تعارف ہے۔
’’ھدًی للمتقین‘‘ قرآن کریم کا موضوع کیا ہے؟ ہدایت۔ قرآن کریم نسلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے، ڈائریکشن کے لیے، ہدایت کے لیے ہے۔ اللہ رب العزت نے آدم و حوا علیہما السلام کو زمین پہ اتارتے ہی یہ فرما دیا تھا کہ میری طرف سے ہدایات آئیں گی، اس کے مطابق چلو گے تو دنیا کی زندگی کامیاب ہو گی اور آخرت میں اپنے گھر جنت میں واپس آؤ گے۔ تو یہ ’’ھدًی‘‘ وہ ہے۔ ہدایت کس کے لیے؟ اب ہدایت کے دو دائرے ہیں۔ یہ خطاب کے اعتبار سے ’’ھدی للناس‘‘ ہے، سب انسانوں کے لیے ہے۔ اور نفع کے اعتبار سے ’’ھدی للمتقین‘‘ ہے، فائدہ وہ اٹھائے گا جو ایمان لائے گا۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ کسی گاؤں میں اگر بجلی نہیں ہے، درخواست پر ٹرانسفارمر لگ گیا ہے، تو ہے تو وہ سارے گاؤں والوں کا، لیکن فائدہ اس کو ملے گا جس کا کنکشن ہو گا۔ ساتھ والے گھر کا کنکشن نہیں ہے تو اس کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور دو میل دور کا کنکشن ہےتو اس کو فائدہ ہے۔ قرآن کریم ہے تو سب کے لیے، ’’ھدی للناس‘‘ ہے، لیکن نفع کون اٹھائیں گے؟ متقین۔
تقویٰ قرآن کریم کی مستقل اصطلاح ہے۔ مومنین، مسلمین، متقین۔ تقویٰ ہے اللہ کی ناراضگی کے ہر کام سے بچنا، اللہ کے پیغمبر کی ناراضگی کے ہر کام سے بچنا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں تقویٰ کی تشریح یوں فرمائی ہے۔ صحابہؓ سے پوچھا، تقویٰ کسے کہتے ہو؟ صحابہؓ کا مزاج تھا ’’اللہ و رسولہ اعلم‘‘۔ فرمایا اگر تم کسی راستے میں جا رہے ہو، راستہ تنگ ہے، کانٹوں والی جھاڑیاں ہیں دونوں طرف۔ جھاڑیاں بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں، راستہ تنگ ہے، تم نے ان کے درمیان سے گزر کر سفر کرنا ہے، تو کیسے سفر کرو گے؟ یا رسول اللہ، کپڑے سمیٹ کر، جسم کو سکیڑ کر، جیسے کیسے بھی وہاں سے گزریں گے، کوشش یہ ہو گی کہ کوئی کانٹا جسم میں نہ چبھے اور کوئی کانٹا کپڑوں سے نہ الجھے۔ فرمایا، اسی کا نام تقویٰ ہے۔ دنیا کی زندگی تم نے گزارنی ہے، یہ راستہ ہے۔ جھاڑیاں خواہشات ہیں، جس طرح جھاڑیوں کی کوئی تعداد نہیں ہوتی، انسان کی خواہشات کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ کانٹے گناہ ہیں۔ دنیا سے یوں گزرو اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے سکیڑتے ہوئے کہ کوئی کانٹا گناہ کا تمہارے جسم کو نہ چبھے، تمہارے کپڑوں میں نہ الجھے۔ یہ تقویٰ کا ایک سادہ سا مفہوم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
متقین سے مراد مومنین ہیں، جو ایمان لانے والے ہیں، جو ایمان لائے ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی تشریح کی ہے کہ متقین کون ہیں، کون قرآن کریم سے استفادہ کریں گے، فائدہ اٹھائیں گے؟ ’’الذین یؤمنون بالغیب‘‘ وہ جو بِن دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ ’’یؤمنون بالغیب‘‘ کا ایک معنیٰ تو یہ ہے کہ بہت سی چیزیں دیکھی نہیں ہیں، بغیر دیکھے مانتے ہیں۔ ہم نے اللہ کو دیکھا نہیں ہے، فرشتے دیکھے نہیں ہیں، ایمان لاتے ہیں۔ قبر کا اندر کا منظر ہمیں نظر نہیں آتا، برزخ کا منظر نظر نہیں آتا، ہم ایمان لاتے ہیں۔ آخرت پہ ہم ایمان لاتے ہیں، یعنی دنیا کا انجام ہو گا اور قیامت بپا ہو گی، اس پر بھی ہمارا ایمان ہے۔ لیکن اس کا ایک عمومی مفہوم بھی ہے کہ ہمیں جن چیزوں سے واسطہ ہے اس کائنات میں، وہ بہت سی چیزیں نظر آنے والی ہیں، بہت سی چیزیں محسوس ہونے والی ہیں، لیکن بہت سی چیزیں نہ نظر آتی ہیں نہ محسوس ہوتی ہیں، اس کو عالمِ غیب کہتے ہیں۔ ہم محسوسات پہ بھی ایمان رکھتے ہیں، مشاہدات پہ بھی ایمان رکھتے ہیں، اور جو ہمارے محسوسات سے اور ہمارے مشاہدات سے اوجھل چیزیں ہیں اور موجود ہیں ان پر بھی ایمان لاتے ہیں۔
ایمان بالغیب کا معنیٰ یہ ہے کہ جو چیزیں اللہ اور رسول نے فرمائی ہیں اور نظر نہیں آ رہیں، ان کی موجودگی پر ایمان رکھنا، یہ عالمِ غیب پہ ایمان رکھنا ہے۔ وہ محسوسات اور مشاہدات پر ہی ایمان نہیں رکھتے، وہ مغیّبات پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں چھوٹی سی، ہمارے اردگرد بہت سی چیزیں ہیں ایسی جو ہمیں نظر نہیں آتیں لیکن ہم انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ابھی یہ دیکھ لیں کہ موبائل پہ ہم میسج بھیجتے ہیں، تصویر بھیجتے ہیں، ویڈیو بھیجتے ہیں، ہزاروں میل دور جاتی ہے، واپس میسج بھی آتا ہے، درمیان میں سورس کیا ہے؟ اس کو لہریں کہتے ہیں جو لے جاتی ہیں اور لاتی آتی ہیں، لہریں کام کرتی ہیں، کنٹرول بھی ہو جاتی ہیں، جام بھی ہو جاتی ہیں، کھل بھی جاتی ہیں، ہمارا سارا کام وہ کرتی ہیں، لیکن نہ نظر آتی ہیں، نہ محسوس ہوتی ہیں۔ ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا، مولوی صاحب! فرشتے ہیں؟ میں نے کہا، ہیں۔ کہاں ہیں؟ میں نے کہا، دو تمہارے کندھے پر، دو میرے کندھے پر۔ کہا، یہ نظر نہیں آتے، محسوس نہیں ہوتے۔ میں نے کہا، میرے بھائی! یہ موبائل جو ہم استعمال کرتے ہیں کہ میری تصویر واشنگٹن جا رہی ہے، واشنگٹن سے یہاں آ رہی ہے، ایک لمحے میں، یہ کون لے جاتا ہے، سورس کیا ہے؟ اس نے کہا، لہریں ہیں۔ میں نے کہا دو لہریں تم دکھا دو، چار فرشتیں میں دِکھا دیتا ہوں۔
’’یؤمنون بالغیب‘‘ کا معنیٰ کہ جو چیزیں نظر نہیں آتیں، ہمارے مشاہدات سے، ہمارے محسوسات سے، ہمارے دیکھنے سے بالاتر ہیں، عالمِ مغیّبات، اللہ رسول کے کہنے پر ہم وہ بھی مانتے ہیں۔ اور پھر صرف ایمان نہیں رکھتے، ’’ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنٰھم ینفقون‘‘ جو نماز قائم کرتے ہیں۔ ایمان کے بعد سب سے بڑا تقاضا نماز کا ہے، اور دوسرا بڑا تقاضا زکوٰۃ کا ہے۔
ایمانیات میں ایک بات اور جو بڑی لازمی ہے، وحی پر ایمان رکھنا۔ وحی آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی تھی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک نازل ہوتی رہی، اس کے بعد وحی ٴ رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ اس وحی پر ایمان رکھنا کہ اللہ کی طرف سے ہے، ہدایات ہیں، یہ ہم سب پہ لازم ہے۔ وحی پر بحیثیتِ مجموع، ہم سے پہلے جو وحی آئی ہے اس پہ بھی، اور ہم پہ جو آئی ہے، دونوں کا ذکر کیا۔ ’’والذین یؤمنون بمآ انزل الیک ومآ انزل من قبلک‘‘ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تئیس سال وحی آتی رہی۔ اس کا ایک بڑا پہلو قرآن کریم ہے، سنت و حدیث بھی وحی کی بنیاد پر ہے، اور حضورؐ کے فیصلے جس کی اللہ نے تصدیق فرمائی ہے، وہ بھی وحی ہے۔ لیکن حضورؐ سے پہلے بھی وحی آتی رہی ہے۔ ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ’’بما انزل الیک‘‘ جس طرح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لاتے ہیں ’’وما انزل من قبلک‘‘ پہلی وحی بھی ہمارے ایمان کے دائرے میں شامل ہے، اس پر بھی ایمان لائیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ پہلی تمام وحی، کتابیں، صحیفے جو نازل ہوئی ہیں، حق ہیں، ہمارا ایمان ہے، لیکن اس کا مکمل اور فائنل ایڈیشن قرآن کریم ہے۔ ہدایات ہم قرآن کریم سے لیں گے، ظاہر بات ہے کہ آخری ایڈیشن ہی قابلِ عمل ہوتا ہے، فائنل ایڈیشن۔ ’’وبالاٰخرۃ ھم یوقنون‘‘ اور آخرت پہ ایمان رکھتے ہیں۔
یہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کا تعارف کروایا ہے۔ قرآن کریم پر ایمان لانے والے تین طبقات ذکر کیے ہیں: پہلا طبقہ مومنین کا ہے جن کو متقین کے ساتھ قرآن کریم نے تعبیر کیا اور اس کی بڑی بڑی صفات یہ بیان کیں کہ جس طرح دیکھی اور محسوس ہونے والی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں، عالمِ غیب پر بھی ایمان رکھتے ہیں، عالمِ غیب بہت بڑا ہے، مشاہدات اور محسوسات کا عالم تو بہت چھوٹا ہے، مغیّبات کا عالم بہت بڑا ہے، اللہ رسول نے جو بات کہہ دی ہے ایمان لاتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور وحی پر ایمان رکھتے ہیں، جو وحی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جس صورت میں بھی نازل ہوئی، اور جو وحی آپ سے پہلے ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تک وحی نازل ہوئی ہے۔
یہ مومنین کی، متقین کی چار پانچ صفات بیان کی ہیں، علامتیں بیان کی ہیں کہ یہ متقین ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا ’’اولئک علیٰ ھدی من ربھم‘‘ ان صفات والے لوگ اس ہدایت پر ہیں جو اللہ کی طرف سے ہے ’’و اولئک ھم المفلحون‘‘ اور یہی کامیاب ہیں۔
ترجمہ ایک بار پھر کر لیتے ہیں: ’’الم ذٰلک الکتٰب‘‘ یہ کتاب جو ہے ’’لاریب فیہ‘‘ اس کے کتاب ہونے میں کوئی شک نہیں، اللہ کی وحی ہونے میں کوئی شک نہیں، ’’ھدًی‘‘ ہدایت ہے ’’للمتقین‘‘ متقین کے لیے۔ اور متقین کی بڑی بڑی علامتیں کیا ہیں؟ پہلی ’’الذین یؤمنون بالغیب‘‘ جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں، یا بن دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔ ’’ویقیمون الصلوٰۃ‘‘ نماز کی پابندی کرتے ہیں، ’’ومما رزقنٰھم ینفقون‘‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ’’والذین یؤمنون‘‘ اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں ’’بما انزل الیک‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ پہ جو وحی نازل کی گئی ہے، اس پر ’’وما انزل من قبلک‘‘ اور آپ سے پہلے جتنے انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات پر وحی نازل ہوئی ہے، سب کو سچا مانتے ہیں، سب پہ ایمان رکھتے ہیں، ’’وبالاٰخرۃ‘‘ اور قیامت کے دن پر بھی ’’ھم یوقنون‘‘ یقین رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو قرآن کریم سے استفادہ کریں گے، قرآن کریم کا نفع اٹھائیں گے۔ ’’اولئک علیٰ ھدًی من ربھم‘‘ یہ لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں اپنے رب کی طرف سے ’’واولئک ھم المفلحون‘‘ اور یہی کامیاب ہوں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کا تعارف کروایا ہے، آگے دوسرے طبقات کا ذکر ہو گا۔
اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ و بارک وسلم۔