فرانسیسی صدر کی طرف سے اسلام کے کردار پر عمومی بحث کی تجویز

   
تاریخ : 
۲۱ مارچ ۲۰۱۱ء

فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے تجویز پیش کی ہے کہ فرانسیسی معاشرے میں اسلام کے کردار پر ۵ اپریل سے عمومی بحث کا آغاز کیا جائے، ان کا خیال ہے کہ ’’فرانسیسی سوسائٹی میں اسلام کا رول کیا ہے؟‘‘ اس موضوع پر بحث کا اہتمام ہونا چاہیے۔ چنانچہ ان کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس بحث کا فوکس صرف اسلام ہوگا اور اگر اس کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے تو میں اس کی مخالفت کروں گا۔

سہ روزہ دعوت دہلی ۱۰ مارچ ۲۰۱۱ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس وقت مسلمانوں کے حوالے سے جن مسائل پر گفتگو ہو رہی ہے ان میں مسلم خواتین کا حجاب، حلال گوشت کی فراہمی پر مسلمانوں کا اصرار، اور مساجد کے باہر عام راستوں پر نمازیوں کی صف بندی کے معاملات سرفہرست ہیں اور مسلمانوں کی مذہبی علامات کے اظہار کو فرانس کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

فرانسیسی دانشوروں کا ایک حلقہ جس میں صدر نکولس سرکوزی بھی شامل ہیں، مذہبی حوالے سے کسی بھی علامت کے برسرعام اظہار کو سیکولرازم کے منافی اور اس کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ اسی پس منظر میں مسلم خواتین کے سرعام حجاب پر فرانس کی پارلیمنٹ نے پابندی لگا دی ہے اور اس کے قانون پر ۱۱ اپریل سے عملدرآمد کا آغاز ہونے والا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آئندہ سال فرانس میں صدارتی الیکشن ہونے والا ہے اور صدر سرکوزی اس سے قبل دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ فرانس مغربی دنیا میں سیکولرازم کا ’’باوا آدم‘‘ تصور ہوتا ہے کہ انقلاب فرانس سے ہی مغربی معاشروں اور ریاستوں میں سیکولرازم کی عملداری کا آغاز ہوا تھا۔ اس لیے اس مجوزہ بحث سے:

  • ایک تو یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ سیکولرازم کا اصل مفہوم کیا ہے؟
  • اور مسلم دنیا کے بعض دانشوروں کی طرف سے وسیع پیمانے پر پھیلائے جانے والے اس مغالطے کی حقیقت کیا ہے کہ سیکولرازم مذہب اور مذہبی اقدار کی نفی کا نام نہیں ہے اس لیے مسلمانوں کو سیکولرازم سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ترکی اور اس کے بعد فرانس میں جس طرح اسلام کی مذہبی علامات اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار کا راستہ روکنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے اس نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ سیکولرازم کا اصل ایجنڈا مذہب اور مذہبی اقدار کی نفی ہے اور معاشرے میں مذہب کے کسی بھی سطح پر اظہار کو ختم کرنا ہے۔ جبکہ سیکولر دانشوروں کی اصل الجھن یہ ہے کہ اسلام نے ایک زندہ مذہب اور فطری دین کے طور پر ترکی اور فرانس کے معاشروں میں اپنے ناقابل شکست ہونے کا جو منظر پیش کیا ہے اس نے سیکولرازم کی فکری بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور مغربی دانشور ایک بار پھر اپنے معاشروں میں مذہب کے کردار کو زیربحث لانے کے لیے بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔

چند سال قبل امریکہ میں ایک دانشور نے سوال کیا کہ مغربی دنیا میں مذہبی اقدار کی واپسی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے جس سے ہمیں یہ پریشانی لاحق ہو رہی ہے کہ مذہب کہیں مغربی سوسائٹی میں فرد سے آگے بڑھ کر سوسائٹی کے معاملات میں نہ دخیل ہونے لگے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا اس سلسلہ میں کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر وہ فی الواقع مذہب ہوا تو یقیناً سوسائٹی کے معاملات پر اثر انداز ہوگا اور سوسائٹی اس کی دخل اندازی سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ اس لیے کہ دین اور مذہب صرف خدا اور بندے کے انفرادی تعلق کا نام نہیں بلکہ وہ خدا تعالٰی اور انسانی سوسائٹی کے تعلق کا نام ہے۔ اصلاً یہ تعلق خدا اور انسانی سوسائٹی کا ہے اور ضمناً اسے خدا اور بندے کے انفرادی تعلق کا عنوان بھی دیا جا سکتا ہے۔ جتنے بھی آسمانی مذاہب گزرے ہیں یا آسمانی تعلیمات کے حوالے سے جو بھی تعلیمات ریکارڈ پر موجود ہیں وہ صرف فرد کی بات نہیں کرتیں بلکہ سوسائٹی کے مسائل پر بھی بحث کرتی ہیں اور اجتماعی مسائل کا حل بھی پیش کرتی ہیں۔ بائبل کے نام سے توریت، انجیل اور زبور کی جو تعلیمات اس وقت دنیا میں موجود ہیں اور پڑھی جاتی ہیں، اپنی استنادی حیثیت کے بارے میں تمام تر تحفظات کے باوجود ان کی تعلیمات کا بیشتر حصہ سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے متعلق ہے اور سوسائٹی کے مسائل پر ان میں راہنمائی موجود ہے۔ البتہ اسلام کو اس حوالے سے یہ نمایاں امتیاز حاصل ہے کہ اس کی تعلیمات سب سے زیادہ جامع اور مکمل ہیں اور اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اسی لیے سوسائٹی میں مذہب کے معاشرتی کردار کی واپسی سے خوف کھانے والے دانشوروں کو سب سے زیادہ خطرہ اسلام سے ہی محسوس ہو رہا ہے۔ اسلام فرد کی اصلاح کی بات تو کرتا ہی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ خاندانی مسائل اور سوسائٹی کے اجتماعی امور کو زیربحث لاتا ہے۔ اور فرد، خاندان، سوسائٹی اور عالمگیریت کے چاروں دائروں میں ایک مربوط پیکیج کے طور پر نسل انسانی کی راہنمائی کرتا ہے۔

مغرب نے خاندان اور معیشت کو مذہبی تعلیمات کے دائرہ سے آزاد کرنے کا نتیجہ دیکھ لیا ہے کہ خاندان کا ادارہ بکھر کر رہ گیا ہے اور معیشت کا نظام مصنوعی تنفس کے تمام تر سہاروں کے باوجود پسپائی کا شکار ہے۔ جبکہ جدید دانش یہ باور کرنے پر مجبور ہے کہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور معاشی نظام کی پسپائی کی اصل وجہ مذہبی اقدار اور اخلاقیات سے انحراف ہے اور اس کا کوئی حل مذہبی اقدار کی طرف واپسی کے علاوہ نظر نہیں آرہا۔

آج عالمی ثقافتی کشمکش میں اسلام کو یہ بالادستی حاصل ہے کہ وہ سب سے پہلے عقیدہ کی بات کر کے انسان کے دل میں اپنی اساس کو مضبوط کرتا ہے، پھر اس کی روحانیت و وجدانیات کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے، اس کے بعد اخلاقیات کا حصار اس کے اردگرد قائم کرتا ہے، اور پھر عمل و کردار کی طرف توجہ دلا کر اس کے عقیدہ و ثقافت کی مضبوط عمارت کھڑی کر دیتا ہے۔ اسلام کو دوسرا ’’ایڈوانٹیج‘‘ یہ حاصل ہے کہ اس کی تعلیمات اپنی اصلی حالت میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ وسیع پیمانے پر ان کی تعلیم و تدریس ہو رہی ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات پر مسلسل ریسرچ کے ذریعے ان میں علمی پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے اور مسلم امہ کے ہر طبقہ کی قرآن و سنت کی تعلیمات تک براہ راست رسائی کے مواقع ہر سطح پر میسر ہیں۔ اسی وجہ سے ایک مسلمان کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی مسلم معاشرے میں رہ رہا ہے یا غیر مسلم معاشرہ میں اس کی رہائش ہے، اس کے لیے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے اردگرد مسلم معاشروں جیسا ماحول بنا لینا دنیا کے کسی بھی خطہ میں کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ اور گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا ہے کہ مسلمانوں کے آٹھ دس خاندان دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہوئے ہیں تو انہوں نے وہیں اپنا ماحول بنا لیا ہے اور ان کا وہ داخلی ماحول اپنی کیفیات کے حوالے سے دنیا کے کسی بھی مسلم ملک کے ماحول سے مختلف نہیں ہے۔ آپ کو ہانگ کانگ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ماسکو اور بیروت سمیت دنیا کے ہر خطے میں مساجد اور نمازوں کا ایک جیسا ماحول ملے گا۔ رمضان میں افطاری اور سحری کا ایک جیسا نظام دکھائی دے گا۔ جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں ایک ہی طرح کا ہجوم اور جوش و خروش نظر آئے گا۔ اور اسلامی اقدار و روایات کی نفی یا توہین پر یکساں نوعیت کا غصہ و اضطراب دیکھنے میں آئے گا۔

کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تاریخ خود کو پھر سے دہرانے جا رہی ہے۔ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کی بحث کا آغاز بھی فرانس سے ہوا تھا اور فرانسیسی معاشرے نے ہی معاشرتی کردار کے دائروں سے مذہب کو خارج کرنے کی شروعات کی تھیں۔ اب دو صدیوں کے بعد فرانس ہی مذہب کے معاشرتی کردار کی بات چھیڑنے لگا ہے اور وہاں باقاعدہ صدارتی اعلان کے ساتھ اس گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب مسیحیت زیربحث تھی اور اب اسلام اس بحث کا عنوان ہے۔ بحث اس وقت بھی معاشرتی کردار کی تھی اور اب بھی معاشرتی کردار ہی زیربحث ہے۔ اس وقت مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کے راستے ہموار کیے جا رہے تھے اور اب مذہب کے معاشرتی کردار کی واپسی کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ’’تلک الاَیام نداولھا بین الناس‘‘۔

ہم صدر فرانس مسٹر نکولس سرکوزی کی طرف سے اسلام کے معاشرتی کردار کی بحث کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ آج کی یہ بحث دو سو سال قبل کی بحث سے قطعی مختلف ہوگی اس لیے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اپنی زندگی کے تحفظ میں اسے انسانی تاریخ میں کبھی پسپائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

   
2016ء سے
Flag Counter