بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا محمد الیاس گھمن جیسا کہ آپ کو بتا رہے تھے، ہمارے بھائی بھی ہیں، ساتھی بھی ہیں، ہمارے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے ہیں، میرے ساتھ بھی تعلق ہے تھوڑا سا، تو احترام کرتے ہیں ادب کرتے ہیں، ان کی مہربانی ہے نوازش ہے۔ میں کبھی کبھی یہاں حاضر ہوتا ہوں اور گزرتے ہوئے کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے مرکز کے عنوان سے یہ ادارہ آج کے حالات کے تناظر میں الحمد للہ دن بدن ایک مرکزیت اختیار کرتا جا رہا ہے، مرکز تو تھا، مرکز بنتا جا رہا ہے، الحمد للہ، الحمد للہ، خوشی ہوتی ہے۔ تو مجھے سب سے زیادہ خوشی دو تین باتوں پر اس مرکز کے حوالے سے، کام تو اپنے دائرے میں کرتا ہے آدمی، لیکن مجھے دو تین باتیں:
(۱) جس بات پر خوشی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو آپ ایک دائرہ متعین کر کے اس کے لیے بڑے خلوص کے ساتھ اور بڑی ترتیب کے ساتھ محنت کر رہے ہیں۔ آدمی زندگی میں ایک دو کام ہی کر سکتا ہے، سارے نہیں کر سکتا۔ دین کے کام کے بیسیوں شعبے ہیں، دو چار نہیں ہیں، ظاہر بات ہے کہ ایک آدمی، ایک حلقہ، اس کا امتیازی کام کسی ایک شعبے میں دو شعبوں میں ہوتا ہے۔ اس بات پر مجھے خوشی ہے کہ ایک ہدف متعین ہے، ایک پروگرام طے ہے کہ یہ ہم نے کرنا ہے۔ عام طور پر ہم بہت سے کام کرتے ہیں اور یہ طے نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے۔ ایک تو اس بات پر کہ آپ کے اہداف طے ہیں، آپ کے مقاصد طے ہیں، دائرہ متعین ہے، اور اس کے لیے آپ پورے خلوص اور محنت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
(۲) دوسری بات، اس بات پر بھی خوشی ہے مجھے کہ آپ کا ہتھیار جو ہے نا، وہ کتاب ہے، دلیل ہے، فہم ہے۔ یہ ہتھیار آج کل کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کتاب کی زبان میں بات کرتے ہیں، دلیل کی زبان میں بات کرتے ہیں، افہام و تفہیم کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ یہ جتنے آج کے دور میں مؤثر ہتھیار ہیں، اتنا بدقسمتی سے ہمارا رابطہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے، ہمیشہ ہی؛ کتاب، علم، تفہیم، فہم؛ ہمیشہ ہی ابلاغ کے بھی اور تعلیم کے بھی سب سے مؤثر ہتھیار رہے ہیں اور آج بھی سب سے مؤثر ہتھیار یہی ہیں۔ میں دیکھتا رہتا ہوں کام کہ آپ کتاب کے حوالے سے بات کرتے ہیں، دلیل کے حوالے سے بات کرتے ہیں، فہم کے حوالے سے بات کرتے ہیں، تو یہ مزید خوشی کا باعث ہوتی ہے۔
(۳) تیسری، مجھے اس بات پر خوشی ہے، میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں دوستوں کے ساتھ مولانا محمد الیاس گھمن کے کام کے حوالے سے، کہ آج کی نسل آپ کی مخاطب ہے۔ نئی نسل، آج کا عام پڑھا لکھا طبقہ، آج کی نسل، نئی پود، آپ کے خطاب کے دائرے میں ہے کہ ہم نے ان سے بات کرنی ہے۔ ورنہ عام طور پر ہمارا دھیان یہ ہے کہ نئی نسل کو ہم گمراہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ ہمارا عمومی مزاج یہ ہے کہ نئی نسل، تعلیم یافتہ طبقہ، آج کا نوجوان، جس نے آج کی دنیا میں پرورش پائی ہے اور آج کی دنیا کی ذہنی نفسیات اور ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ہے۔ ہم عام طور پر اسے نظرانداز کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو گمراہ ہی ہیں، ان سے بات کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ جب آپ آج کے نوجوان کو اور نئی نسل کو اور پڑھے لکھے طبقے کو مخاطب ہوتے ہیں تو یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے جو آپ پوری کر رہے ہیں اور مجھے خوشی ہے الحمد للہ۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ آپ اس مرکز کے حوالے سے اور اپنے کام کے حوالے سے جو آج کے ابلاغ کی ضروریات ہیں، ان ضروریات کو محسوس کرتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں ابلاغیات کے اپنے دائرے ہوتے ہیں۔ ہر دور میں ابلاغ کے، بات پہنچانے کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں۔ آج کے بھی ذرائع ہیں۔ آج سے پچاس سال بعد شاید اس سے مختلف ذرائع ہوں۔ لیکن جو وقت کی ضروریات ہیں ان ضروریات کو آپ محسوس کرتے ہیں اور ضروریات کو استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ ان وجوہ سے، ویسے بھی، دینی کام جس شعبے میں بھی ہو، میرا تو ذوق یہ ہے، میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں میرا تو ویسے بھی خون جو جسم میں دوڑتا ہے وہ ’’او پازیٹو‘‘ ہے، ہر ایک کو لگتا ہے 1 اور ہر ایک کا لگ جاتا ہے 2۔ دین کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے کے لیے میرے دل سے دعا ہی نکلتی ہے۔ دین کا شعبہ ہو، کہیں بھی کام کر رہا ہے تو میں دعا گو ہی رہتا ہوں کہ یا اللہ پاک کامیابی دے، میں فکری اعتبار سے بھی ’’او پازیٹو‘‘ ہی ہوں، ہر ایک کے لیے دعا کرتا ہوں، ہر ایک کے لیے خیرخواہی، جو بھی دین کے کسی شعبے میں کام کر رہا ہے، بیسیوں شعبے ہیں۔
لیکن یہ جب آج کی ضروریات سامنے ہوتی ہیں اور جو، سب سے زیادہ مجھے اطمینان اس پہ ہوتا ہے کہ جو آج کی ضروریات کو، آج کے تقاضوں کو، نئی نسل کی فکری استعداد کو اس کی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر کام کرتا ہے، یقینی بات ہے کہ خوشی زیادہ ہو گی۔ اس لیے میں آتا جاتا تو کم ہوں لیکن دعاگو مسلسل رہتا ہوں اور مطلع بھی ہوتا رہتا ہوں کہ کہاں کہاں کیا کیا ہو رہا ہے۔ یہ تو میں نے پہلی بات عرض کی ہے۔
دوسری بات۔ خاص جو کام ہے، یہ شعبے کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا، حنفیت کا دفاع۔ مین ٹارگٹ تو ہمارا یہ ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے ہمارا مین ٹارگٹ کیا ہے؟ حنفیت کا دفاع۔ صرف دفاع یا تعارف بھی؟ میرا خیال ہے تعارف بھی ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔ حنفیت کیا ہے؟ اور حنفیت پر لوگوں کے اشکالات کیا ہیں؟ حنفیت پر اعتراضات کیا ہیں اور ان کے جوابات کیا ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی دین کے اہم شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے اور ہمارے اکابر کی صدیوں کی روایات ہیں اس میں۔
ویسے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء ایک دو نہیں تھے پوری مجلس تھی۔ حضرت امام صاحبؒ کی شوریٰ کے کتنے ارکان گنتے ہیں؟ چالیس۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے رفقاء میں امام ابو یوسف ہیں، امام محمد ہیں، امام حسن ہیں، امام زفر ہیں، رحمہم اللہ تعالیٰ ، لیکن بات انہی پر بند نہیں ہے۔ شوریٰ کے کتنے ارکان گنتے ہیں ہم؟ چالیس۔ اور جب دوسرے حضرات سے بات ہوتی ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ بھئی حنفی فقہ شخصی فقہ نہیں ہے، اجتماعی اور مشاورتی فقہ ہے۔ جب دوسرے حضرات سے میری بات ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں بھئی مغالطہ ہے تمہیں۔ حنفی فقہ شخصی فقہ نہیں ہے۔ یہ مشاورتی فقہ ہے۔ اس کی اَسی فیصد جزئیات مشاورت سے طے ہوئی ہیں۔ اور مشاورت بھی دو چار آدمیوں میں نہیں۔ کتنے آدمیوں میں؟ چالیس آدمیوں میں۔
اس پر اعتراضات بھی ہوتے ہیں، ظاہر بات ہے کوئی علمی کام ہو گا تو اعتراض بھی ہوں گے، اشکالات بھی ہوں گے، تحفظات بھی۔ اختلاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ اختلاف تو حضرات صحابہ کرامؓ کے درمیان مسائل میں اختلاف رہا ہے۔ عقائد میں نہیں، مسائل میں۔ عقیدے کے اختلاف کا درجہ اور ہوتا ہے اور مسائل میں اختلاف کا درجہ اور ہوتا ہے۔ عقیدے کا اختلاف آدمی میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور مسائل کے اختلاف میں تفرقہ نہیں ہوتا، مسائل کے اختلاف، اس کا دائرہ ہی الگ ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اور تابعین کرام میں آپ کہیں عقیدے کا اختلاف نہیں دیکھیں گے لیکن مسائل کا اختلاف ہزاروں مسئلوں میں آپ کو نظر آئے گا، سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں مسئلوں میں نظر آئے گا۔ اختلاف تو چلا آتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ جب ہم ایک فقہ کے پیروکار ہیں جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ہو کر فقہ حنفی کہلاتی ہے لیکن درحقیقت وہ ایک مشاورتی فقہ ہے اور اجتماعی فقہ ہے، اعتراضات بھی ہوں گے، اختلاف بھی ہو گا۔ ایک دور تک تو یہ کیفیت رہی ہے ہماری، ہم اپنے مسائل کے ثبوت کے لیے دلائل دیتے تھے۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں آپ کو ملیں گے، امام محمد کی کتابوں میں ملیں گے، رحمہم اللہ تعالیٰ، امام زفر، اپنے اپنے دلائل ہیں۔ میرا یہ موقف ہے، یہ میری دلیل ہے۔ تو اس کا جواب سوال ہوتا رہا۔ لیکن حنفیت کے دفاع کو باقاعدہ عنوان بنا کر سب سے پہلے جس شخصیت نے کام کیا ہے اس کا نام کیا ہے؟ امام طحاویؒ، تیسری صدی ہجری کے، تیسری چوتھی، ابو جعفر طحاوی۔ یعنی حنفیت کے دفاع کو عنوان بنا کر۔ سب سے پہلے جنہوں نے اس کو باقاعدہ ایک شعبے کی شکل دی ہے اور ایک موضوع کی شکل دی ہے، وہ کون بزرگ ہیں؟۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ۔ طحاوی شریف پوری کی پوری مسائل میں فقہ حنفی کی ترجیحات پر، استدلالات پر، دوسری فقہوں کے ساتھ اختلافات پر …
آپ اگر دیکھیں گے، یہ محاذ جو ہے، حنفیت کے دفاع کا محاذ، اگر اس کی تاریخ پہ نظر ڈالیں، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ تک ایک پوری تاریخ ہے۔ میں نے ابتدا کا نام لیا ہے اور اب تک کی انتہا کا نام لیا ہے، آئندہ بھی ہو گا لیکن اب تک کی انتہا کا نام لیا ہے۔ حضرت امام ابوجعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ تک جن بزرگوں نے حنفیت کے دفاع کو عنوان بنا کر اپنا کام کیا ہے، آپ ان میں سینکڑوں بزرگ ملیں گے، ہر دور میں ملیں گے۔ یہ مستقل محاذ ہے ہمارا۔ میں عرض یہ کروں گا کہ یہ ہمارا دین کے محاذوں میں سے ایک محاذ ہے، دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے، دینی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اور یہ بھی ایک کام کا میدان ہے۔ لیکن اس حوالے سے جو دو تین باتیں میں عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ ہیں۔
دیکھیں، ایک ہوتا ہے کام، ایک ہوتا ہے ٹائٹل۔ ایک ہے میں یہ کام کر رہا ہوں، ضروری نہیں کہ جو کام کر رہا ہوں، ٹائٹل بھی وہی رکھوں … ایک کام میں کر رہا ہوں، اس کا ٹائٹل جو ہے وہ اس کام کی عمومی نوعیت سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ میں اس کی مثال دوں گا۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ ساری کی ساری کس موضوع پر ہے؟ دفاعِ حنفیت پر۔ ساری کتاب اسی پر ہے نا؟ کتاب الطہارۃ سے لے کر آخر تک کیا کرتے ہیں وہ؟ اگر آپ نے طحاوی پڑھی ہے اور نظر سے گزری ہے۔ میں تو پڑھاتا ہوں، میرے تو ہر سال زیر درس رہتی ہے۔ طحاوی میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے شروع سے لے کر آخر تک کیا کام کیا ہے؟ فقہی مجادلہ۔ فقہی مجادلہ یہی ہے نا؟ فقہی مکالمہ، فقہی مجادلہ۔ ہمارا یہ موقف ہے، ان کا یہ موقف ہے، ہمارے یہ دلائل ہیں، ان کے یہ دلائل ہیں، ان کی دلیل کا جواب یہ ہے، ہماری دلیل کی ترجیح یہ ہے، اور یہ تیسرا موقف ہے، یہ چوتھا موقف ہے۔ یہی کرتے ہیں نا؟ اور آخر میں ترجیح کس کی ثابت کرتے ہیں؟ احناف کے موقف کی ترجیح ثابت کرتے ہیں۔
لیکن ٹائٹل کیا اختیار کیا انہوں نے؟ ٹائٹل یہ نہیں اختیار کیا۔ پانچ سطروں کی تمہید ہے طحاوی شریف میں، پانچ سطروں کی، باقی سارا مجادلہ ہی ہے۔ میں یہ بات آپ کے ذہن میں بطور خاص ڈالنا چاہوں گا۔ ہمارے احناف کے سب سے بڑے وکیل امام طحاویؒ ہیں۔ امام طحاویؒ سے بڑا کوئی وکیل ہے؟ امام طحاویؒ سے متقدم کوئی اتنا بڑا وکیل ہے۔ بعد میں اس لیول کا کوئی نہیں آیا۔ ہیں، لیکن امام طحاویؒ کا لیول اپنا ہی ہے- وہ متقدمین میں سے ہیں اور محدثین میں سے ہیں۔ امام نسائیؒ اور ان کے معاصرین میں سے ہیں۔ کام حنفیت کے دفاع کا کیا ہے سارے کا سارا۔ ٹائٹل یہ اختیار نہیں کیا۔ ٹائٹل کیا اختیار کیا ہے؟ ان کی چار پانچ سطروں کی تمہید پڑھیں، عنوان کیا اختیار کیا انہوں نے؟ انہوں نے کہا دیکھو یار۔ میں اس کا خلاصہ عرض کروں گا۔
انہوں نے کہا دیکھو، جب ہم فقہاء کے درمیان مسائل پہ اختلاف ہوتا ہے تو ہر فقیہ اپنی تائید میں کیا پیش کرتا ہے؟ حدیث۔ یہ تو ہے نا۔ ہمارا شوافع سے اختلاف ہے کسی مسئلے پر تو ہم حدیث پیش کریں گے تو شوافع بھی تو کوئی حدیث ہی لائیں گے نا۔ حنابلہ کیا لائیں گے؟ کوئی حدیث لائیں گے۔ اختلاف تو استدلال پہ ہو گا نا۔ مالکیہ کیا لائیں گے؟ حدیث۔ یا زیادہ سے زیادہ تعاملِ اہلِ مدینہ، جو ان کی بنیادی دلیل ہے۔ انہوں نے کہا جب ہم کسی مسئلے پر فقہاء آپس میں اختلاف کرتے ہیں اور عام آدمیوں کے سامنے اختلاف آتا ہے اور لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ یار یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، اور حدیثیں ٹکرا رہی ہیں، تو ضعیف مسلمان الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اہل الالحاد اس سے غلط فائدہ اٹھا کر حدیث کے خلاف لوگوں کا ذہن بناتے ہیں۔ امام طحاویؒ نے تمہید میں یہی کہا ہے۔
ظاہر بات ہے کوئی مسئلے کا اختلاف ہو گا دو یا تین فقہاء میں تو سارے حدیث ہی پیش کریں گے۔ وہ بعد کی بات ہے کہ حدیث کس کی راجح ہے، کس کی مرجوح ہے، کسی کی صحیح ہے، کسی کی ضعیف ہے، وہ تو بعد کا مسئلہ ہے۔ لیکن سامنے منظر کیا ہے؟ یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے، یہ بھی حدیث بیان کر رہا ہے۔ وہ زمانہ جو حدیث کے شیوع کا تھا، جہاں ہر آدمی حدیث سے واقف تھا، اس وقت تو الجھن نہیں تھی، لیکن جب یہ زمانہ آیا کہ عام آدمی احادیث سے واقف نہیں ہے اور اس کے سامنے منظر یہ ہے کہ چار مسئلے ہیں اختلافی اور چاروں میں حدیث ہی پشت پر پیش کی جا رہی ہے تو عام آدمی کیا سوچے گا؟ یہ بات ذہن میں آئی ہے؟ عام آدمی کیا سوچے گا؟ یار حدیثیں ٹکرا رہی ہیں۔ اور اسی دلیل کو بنیاد بنا کر منکرینِ حدیث نے ایک بڑا مقدمہ کھڑا کیا ہے۔ ان کی ایک بڑی دلیل ہے یہ۔ حدیث و سنت کے منکرین کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ یار حدیثیں متضاد ہیں، متعارض ہیں، یہ ہیں۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ٹارگٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا دیکھو، یہ جو لوگوں کے ذہن میں۔ دو باتیں ، انہوں نے کہا، ضعیف مسلمان الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور اہل الحاد ملحدین کیا کرتے ہیں؟ اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
امام طحاویؒ کہتے ہیں میں نے یہ کیا ہے کہ کسی مسئلے پر تمام احادیث کو سامنے رکھ کر ان کا الگ الگ محمل بیان کر دیا ہے تاکہ تعارض نظر نہ آئے، تطبیق نظر آئے۔ طحاویؒ کا اسلوبِ استدلال کیا ہے؟ محمل بیان کرنا کہ اس حدیث کا یہ محمل ہے، اس کا یہ ہے، اس کا یہ ہے، اس کا یہ ہے۔ اور ایسے طریقے سے محمل متعین کریں گے کہ تعارض کو کیا کر دیں گے؟ رفع کر دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے بنیادی کام یہ کیا ہے کہ تعارض کو، جو ظاہر میں نظر آتا ہے اور لوگوں کی الجھن کا باعث بنتا ہے، اس تعارض کو رفع کر کے میں نے کیا کیا ہے، تطبیق کی صورت دکھائی ہے تاکہ کمزور مسلمان الجھن کا شکار نہ ہوں اور اہلِ الحاد کو غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
یہ چار پانچ سطروں کی تمہید ہے، میری اس گزارش کے بعد کسی وقت طحاوی کھول کر وہ تمہید پڑھ لیں کہ امام طحاویؒ اپنی وجہ کیا، ٹائٹل کیا اختیار کیا ہے انہوں نے۔ انہوں نے ٹائٹل میں یہ نہیں کہا کہ میں حنفیت کے دفاع میں لکھ رہا ہوں۔ میں لوگوں کے شکوک دور کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ اہل الحاد کے ہاتھ سے ہتھیار چھیننے کے لیے لکھ رہا ہوں، ان کو غلط فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ اور میں اختلاف کو واضح کرنے کے لیے نہیں، تطبیق کو واضح کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ تمہید یہ باندھی ہے۔ لیکن کام کیا کیا ہے؟
میں عرض کیا کرتا ہوں اپنے علماء کرام سے، احناف اور حنفیت کے لیے کام کرنے والوں سے کہ امام طحاویؒ کو بار بار پڑھیں، بار بار پڑھیں، بار بار پڑھیں۔ جو اسلوب اس نے اختیار کیا ہے وہ آج تک ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ایک بات طحاویؒ کے حوالے سے ہی، باقی بات بعد میں، طحاوی کے حوالے سے ایک بات اور۔
دیکھیں آج کل ہمیں ایک الجھن کیا پیش آتی ہے۔ آج کی الجھن عرض کرتا ہوں۔ آپ کے اس محاذ پر زیادہ سامنا غیر مقلد نہیں کرتے؟ آپ کا سامنا زیادہ کس سے ہے؟ اچھا، ہوتا یہ ہے کہ عام آدمی جس کو کچھ پتہ نہیں، نہ فقہ کا، نہ حدیث کا۔ اس کو قرآن کا نہیں پتہ تو اس کو فقہ اور حدیث کا کیا پتہ ہو گا۔ عام آدمی غریب کو قرآن کا نہیں پتہ سوائے پڑھنے کے، فہم کا تعلق اس کا نہیں ہے۔ ایک بات کو محسوس کریں، عام آدمی کے سامنے جب ایک طرف سے بیان ہو گا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے، اور دوسری طرف سے بیان ہو گا کہ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے تو عام آدمی کیا کرے گا؟ کیوں جی کیا خیال ہے، عام آدمی کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا کرے گا وہ جب منظر یہ ہو؟ اور اہلِ حدیث حضرات یہ منظر کافی حد تک پیدا کرنے میں کامیاب ہیں۔ مخالف فریق کی جو کامیابی ہو اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ وہ عام آدمی کے سامنے یہ منظر پیش کرنے میں، اس منظر کو یہ کیفیت دینے میں کامیاب ہیں، تقریباً، کہ دیکھو یار، وہ حدیث پڑھتا ہے، یہ امام ابوحنیفہؒ کا قول پیش کرتا ہے، یہ قدوری کا جزئیہ پیش کرتا ہے۔ ہم اس کی وضاحت میں دو گھنٹے لگا دیتے ہیں کہ یار یہ بھی حدیث ہے۔ عام آدمی نہیں سمجھے گا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میری یہ گزارش سمجھ آ رہی ہے؟ میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
ایک جگہ نکاح کی مجلس میں، بسا اوقات لطیفے ہوتے رہتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک نکاح کی تقریب تھی۔ میرے بڑے اچھے دوست تھے، بے تکلف دوست تھے، یہ اہل حدیث علماء میں، مولانا محمد اعظم صاحب مرحوم، نیک آدمی تھے، اللہ پاک [مغفرت فرمائے]، پنجاب کے امیر تھے جمعیت اہل حدیث کے۔ اب نکاح میں وہ بھی ہیں میں بھی ہوں۔ میرے بھی دوست تھے وہ نکاح والے، ان کے بھی دوست تھے۔ ہم دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں کسی نے بحث چھیڑ دی مہر کی۔ درمیان میں لوگ شرارتی بھی ہوتے ہیں نا کہ دو بڑے مولوی بیٹھے ہیں، ایک حنفی ہے، ایک اہل حدیث ہے، ان کو چھیڑو۔ لوگ بھی مزے لیتے ہیں۔ لیتے ہیں یا نہیں لیتے؟ کسی نے بات چھیڑ دی۔ مولوی صاحب! سو روپیہ مہر ٹھیک ہے۔ میں نے کہا یار نہیں ٹھیک۔ اب یہ تو اختلاف آپ کو معلوم ہے نا، ہمارے ہاں مہر کی حد کیا ہے؟ ’’لا مہر اقل من عشرۃ دراہم‘‘ ہم دس درہم سے کم مہر کو جائز نہیں سمجھتے، ہمارا احناف کا موقف ہے۔ تو دس درہم کتنے ہوتے ہیں؟ دس درہم دس روپے نہیں ہوتے۔ یہ تین تولے چاندی ہے۔ بارہ ماشے کا تولہ ہوتا ہے نا۔ دس درہم پینتیس ماشے چاندی بنتی ہے۔ [درہم] ساڑھے تین ماشے کا ہے نا۔ تو دس درہم کتنے ماشے بنیں گے؟ پینتیس ۔ اور بارہ ماشے کا تولہ ہوتا ہے۔ کتنے تولے بنیں گے؟ ایک ماشہ کم تین تولے۔ دس درہم کتنے بنتے ہیں؟ تین تولے چاندی۔ تین تولے چاندی آج کے زمانے (۲۰۱۴ء) میں کتنی ہے، کیا قیمت ہے اس کی؟ اگر نو سو روپے تولہ ہو تو کتنی بنتی ہے؟ ستائیس سو روپے۔ ہمارے نزدیک ستائیس سو سے کم مہر جائز ہی نہیں ہے۔
اچھا جس نے کہا ، اس نے شرارتاً کہا۔ کہتا ہے جی سو بڑا ہے جی۔ مولوی صاحب بھی کہنے لگے کافی ہے یار سو کافی ہے۔ میں نے کہا نہیں یار، سو کافی نہیں ہے، کیا کر رہے ہو؟ اب اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ کہے گا ہمارے احناف کا موقف یہ ہے۔ اور یہاں ہم مولویوں کی چونچیں دیکھیں گے، وہ اپنی دلیلیں دے گا یہ اپنی۔ میں نے کہا یار حدیث میں آتا ہے ’’لا مہر اقل من عشرۃ دراہم‘‘۔ حدیث ہے یا نہیں ہے؟ حضورؐ کا ارشاد ہے بھئی ’’لا مہر اقل من عشرۃ دراہم‘‘۔ دس درہم سے کم مہر جائز نہیں ہے۔ کہتا ہے، حدیث ضعیف ہے۔ میں نے کہا، حدیث ہے یا نہیں؟ وہاں تو موقع بھی دیکھنا چاہیے نا، اب شادی کی مجلس میں جھگڑا تو نہیں کرنا۔ میں نے کہا حدیث ہے کہ نہیں؟ کہتا ہے، حدیث تو ہے۔ میں نے کہا، بس ٹھیک ہے۔ یہ ہوتا ہے موقع محل دیکھ کر کہ بات آپ نے کس لہجے میں کرنی ہے۔
اس وقت آپ چونکہ فیلڈ میں جا رہے ہیں، اہلِ حدیث حضرات کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار کیا ہے، کہ ہم حدیث پیش کرتے ہیں، یہ فقہ کی جزئی لاتے ہیں۔ اور عام آدمی سوچتا ہے کہ یار بات تو ٹھیک کہتا ہے۔ وہ تو حدیث پڑھ رہا ہے اور بخاری کی روایت پڑھ رہا ہے، اور یہ ہدایہ کا جزئیہ پڑھ رہا ہے۔ اور آدمی کوئی بھی ہو، جب ہدایہ اور بخاری کا تقابل ہو گا تو ترجیح کس کو دے گا؟ بخاری کو دے گا، یار حدیث ہے۔ اس لیے تھوڑا سا اُسلوب آپ کو بدلنا ہو گا۔ عام آدمی کے سامنے آپ کو اسلوب بدلنا ہو گا بات کہنے کے لیے، تاکہ جو دوسرا آپ کا مخالف کنفیوژن پیدا کر رہا ہے نا، اس کنفیوژن کو روکیں۔ طحاویؒ کا اسلوب یہی ہے۔ میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ آج حنفیت کی بات کرتے ہوئے طحاویؒ کا اسلوب اپنائیں، آج کے دور کا کامیاب اسلوب بھی وہی ہے۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کسی مسئلے پر بحث کرتے ہیں نا، بڑا دلچسپ انداز ہے ان کا۔ جنہوں نے پڑھی پڑھائی ہے ان کو اندازہ ہو گا۔ وہ کہیں یہ نہیں کہیں گے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے اور اس کے حق میں دلائل یہ ہیں۔ ایک جگہ بھی نہیں۔ امام طحاویؒ کسی جگہ یہ نہیں کہیں گے کہ احناف کا موقف یہ ہے اور اس کے حق میں یہ دلائل ہیں۔ نا، کہیں پوری کتاب میں ایک جگہ بھی نہیں ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں؟ یہ مسئلہ ہے یار، اس میں فلاں کا موقف یہ ہے، اس کے دلائل یہ ہیں۔ پہلے مخالف کے دلائل بیان کریں گے۔ دوسرا قول فلاں کا ہے، اس کے دلائل یہ ہیں۔ تیسرا قول ہمارا ہے، ہمارے دلائل یہ ہیں۔ وہاں بھی دو چار حدیثیں ہیں، وہاں بھی دو چار حدیثیں ہیں، یہاں بھی۔ پھر وجۂ ترجیح بیان کریں گے کہ ہماری ، اس کی وجۂ ترجیح کیا ہے۔ ساری بات جو حدیث سے ثابت ہوئی ہے نا، امام ابوحنیفہؒ بھی یہی کہتے ہیں۔ پہلے بات کو ثابت کریں گے ۔ کس سے؟ احادیث سے۔ پوری بحث کریں گے، کہیں بھی حنفیت کا نام نہیں لیں گے۔ یہ موقف ہے شوافع کا، تو شوافع کا نام بھی نہیں لیتے۔ کچھ حضرات کا یہ موقف ہے، اس کے یہ دلائل ہیں۔ کچھ حضرات کا یہ موقف ہے، اس کے یہ دلائل ہیں۔ کچھ حضرات کا یہ موقف ہے، اس کے یہ دلائل ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے، ہمارے یہ دلائل ہیں۔ اور یہ ترجیح دے کر آخری جملہ کہیں گے کہ ’’وہو قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد…‘‘۔ یہ جو دلائل سے ثابت ہوا ہے نا، وہ یہی کہتے ہیں، امام ابو یوسف بھی یہی کہتے ہیں۔
تو میں نے یہ بات عرض کی ہے، پہلی بات یہ کہ آپ ترجیحات ذہن میں رکھیں کہ ضروری نہیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں، ٹائٹل بھی یہی اختیار کریں۔ ٹائٹل ایسا اختیار کریں کہ دوسرا آدمی آپ کی بات سنے تو سہی نا۔ پہلے سنے تو سہی۔ ایک چھوٹی سی مثال، گھر کی بات ہے نا، ہم آپس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک مسئلہ ہمارے ہاں چلتا رہا ہے۔ مودودی صاحبؒ کے ساتھ ہمارے اختلافات سب کو معلوم ہیں کیا ہیں۔ اب ہمارا موقف کیا ہے، اس پر ایک کتاب آئی۔ عرب دنیا میں مودودی صاحبؒ کے بارے میں ہمارے موقف کو متعارف کرانے میں سب سے زیادہ مولانا علی میاںؒ کا ایک رسالہ ہے، اور مولانا بنوریؒ کا ایک رسالہ ہے۔ مولانا بنوریؒ کے رسالے کا عنوان کیا ہے؟ ’’الاستاذ المودودی ونبذۃ من افکارہ‘‘ … یہ ٹائٹل اختیار کر کے مولانا بنوریؒ نے کچھ ان کے بارے میں، ہمارا یہ اعتراض ہے، یہ اعتراض ہے، یہ اعتراض۔ زیادہ لمبا بھی نہیں ہے، تیس چالیس صفحے کا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عرب علماء کو ہمارے موقف سے متعارف کرانے میں سب سے زیادہ کردار اس رسالے کا ہے۔ لیکن ردِ مودودیت ٹائٹل نہیں ہے۔ ٹائٹل کیا ہے؟ ’’الاستاذ المودودی ونبذۃ من افکارہ‘‘ ۔
ایک دوسری کتاب آئی، میں ناشر سے لڑتے لڑتے تھک گیا، میں نے کہا یار اس کتاب کو اس ٹائٹل سے نہ چھاپو۔ کتاب بہت بڑے آدمی کی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا کون ہو گا، اپنے وقت کے سب سے بڑے محدث۔ کتاب ان کی آئی۔ چھاپی ہمارے دوست خواجہ اسلام نے۔ میں نے کہا یار خدا کے لیے نام بدل دو۔ ’’فتنۂ مودودیت‘‘۔ میں نے کہا، کسی نے نہیں پڑھنی۔ عام پڑھا لکھا آدمی ٹائٹل دیکھ کر وہیں رکھ دے گا۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں غلط کہہ رہا ہوں؟ نام بدلو یار اس کا۔ کوئی اور نام رکھو۔ جس کو دیکھ کر چار صفحے پڑھے تو سہی کوئی۔ ایک عام پڑھا لکھا آدمی، وہ کتاب دیکھ کر، اچھا یار، مودودیوں کی باتیں ہیں، چھوڑو یار۔ ٹائٹل بدلو تاکہ ایک عام آدمی تمہید تو پڑھے کم از کم کہ کس موضوع کی کتاب ہے۔
تو میں نے آپ سے یہ عرض کیا ہے کہ ایک تو ٹائٹل اپنا صحیح رکھیں لوگوں کے سامنے تاکہ لوگ آپ کی بات سنیں، آپ لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں، بات اپنی کریں، پوری کریں، مکمل کریں، لیکن ٹائٹل اس کا ایسا ہو کہ عام آدمی جو غیر جانبدار ہے، آپ کا ٹائٹل سن کنفیوژ نہ ہو… مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ اور دوسری بات میں نے یہ عرض کی ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا اسلوب اختیار کیجیے۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ بات کرتے ہیں حدیث سے اور نتیجے پہ کیا لاتے ہیں؟ آج کے دور میں بھی کامیاب اسلوب یہی ہے۔ آپ کا ایک موقف ہے تو آپ کو اپنی حدیث معلوم ہونی چاہیے۔ یہ ہماری کمزوریاں ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں ہیں تو ہم دوسری بات کر دیتے ہیں۔ ہماری تیاری ہونی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اگر میرا موقف ہے، میر ےبزرگوں کا، احناف کا موقف ہے تو اس کی دلیل کیا ہے۔ تو میں اگر بات اس دلیل سے ہی شروع کر کے آخر میں حنفیت کو لاؤں تو بات زیادہ مؤثر ہو گی، یا ابتدا میں حنفیت کو لا کر دلیل میں قرآن پاک کو پیش کروں تو لوگ متاثر ہوں گے۔ ترتیب صحیح کرنی ہو گی۔ بات اپنی پوری کریں…
تیسری بات، ایک بات اور بھی ہمارے ہاں ہوتی ہے، میں وہ بھی طحاویؒ کے حوالے سے ہی کرتا ہوں۔ مسئلے کا ایک درجہ بھی ہوتا ہے۔ مسائل کے درجات ہیں۔ یہ اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے۔ یہ خطا صواب کا مسئلہ ہے۔ یہ حق باطل کا مسئلہ ہے۔ مسئلے کی نوعیت آپ کے سامنے ہونی چاہیے۔ یہ اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے، یہاں کتنا لڑنا ہے میں نے۔ یہ خطا صواب کا مسئلہ ہے۔ یہ دونوں دائرے الگ الگ ہیں یا نہیں ہیں؟ خطا اور صواب کا دائرہ الگ ہے۔ حق اور باطل کا دائرہ الگ ہے۔ اور اولیٰ غیر اولیٰ کا دائرہ الگ ہے۔ گڑبڑ نہ کریں۔ بہت سے مسائل ہم اس لیے کنفیوژ کر دیتے ہیں کہ ہم گڈمڈ کر دیتے ہیں، اولیٰ اور غیر اولیٰ کا مسئلہ حق باطل کے لہجے میں بیان کر دیتے ہیں، حق باطل کے لہجے میں خطا صواب۔ یہ تینوں دائرے الگ الگ ہیں اور ہمارے فقہاء نے طے کیے ہوئے ہیں۔ جو مسئلہ بھی آپ کریں آپ کے ذہن میں ہو کہ یہ کس دائرے کا مسئلہ ہے، حق اور باطل کا مسئلہ ہے، ایمان اور کفر کا مسئلہ ہے، صواب اور خطا کا مسئلہ ہے، اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے، تاکہ اس کے مطابق آپ بات کریں، اور بات کا تقاضا بھی یہی ہے۔
ایک تو میں نے یہ دو تین باتیں آپ سے عرض کی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ میں یہ چاہوں گا کہ آج ایک بات آپ سے اور عرض کر دوں۔ اور آج کل عام طور پر یہ بات ہوتی ہے۔ جدید دانشگاہوں میں تو یہ مستقل زیربحث ہے بات۔ ابھی جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں اس پر ریسرچ ہوئی ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس خطے کے، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں جو نئی مذہبی تقسیم آئی ہے، یہ تقسیم پہلے نہیں تھی۔ یہ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث تقسیم پہلے تھی؟ ۱۸۵۷ء سے پہلے تھی؟ یہ ساری تقسیم کس کی پیداوار ہے؟ ۱۸۵۷ء کے بعد کی۔ وہ جو ریسرچ کی بات ہے، وہ تو اس بات پر ہے، بڑی دلچسپ بات ہے۔ ایک جرمن سکالر نے ریسرچ کی ہے اس پر کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس جنوبی ایشیامیں ؛ جنوبی ایشیا؛ یہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما؛ یہ جس کو سارک کہتے ہیں، جنوبی ایشیا کہتے ہیں، پہلے متحدہ ہندوستان ہوتا تھا۔ یہ جو نئی تقسیم آئی ہے دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث۔ اس نے اس میں سے ایک نکتے پہ ریسرچ کی ہے کہ ان میں سے انٹرنیشنل کون بنا ہے؟ بین الاقوامیت کس میں آئی ہے؟ آپ کو پتہ ہے یہ پی ایچ ڈی لیول کی تحقیق ، وہ تو کوئی ایک نکتہ زیربحث ہوتا ہے جس کے اوپر دلائل اکٹھے کیے جاتے ہیں، ایک سوچ پیش کی جاتی ہے، وہ تو ایک لمبا موضوع ہے۔
اس نے اس موضوع پہ بحث کی کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد جو نئی تقسیم ہوئی یہاں مذہبی، کتنے گروہ سامنے آئے؟ یہ نئی تقسیم جو ہوئی اس تقسیم میں کتنے فریق ہیں؟ چار۔ چوتھا فریق بھی ہے جو میدان میں ہے۔ ایک دیوبندی، ایک بریلوی، ایک اہلِ حدیث اور ایک چوتھا فریق بھی ہے، سر سید احمد خان، جو منکرینِ حدیث کی شکل میں اس وقت موجود ہیں، کام کر رہے ہیں، فرقہ ہے، مستقل فرقہ ہے، مستقل ذہن ہے۔ چار گروہ سامنے آئے ہیں، باقی شاخیں ہیں۔ بنیادی گروہ چار ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد بنیادی گروہ کتنے آئے ہیں؟ چار۔ اس کی تھوڑی سی اگر درجہ بندی ذہن میں ہو تو۔ میں سوچتا رہتا ہوں ان مسائل پہ، لکھتا بھی رہتا ہوں۔ چونکہ آپس میں بیٹھے ہیں اس لیے میں تھوڑی سی بات عرض کر دیتا ہوں۔
یہ تقسیم کیسے ہوئی؟ ۱۸۵۷ء سے پہلے تو ایک ہی، سب حنفی تھے، سب سنی تھے۔ یہ میں اہل سنت کے دائرے کی بات کر رہا ہوں، شیعہ کو چھوڑیں، اہلِ سنت کے دائرے کی بات کر رہا ہوں۔ سب حنفی تھے، سب کیا تھے؟ سنی تھے، کوئی تقسیم نہیں تھی۔ لیکن ۱۸۵۷ء کے بعد چار گروپ بن گئے:
- ایک قرآن پاک پہ کھڑا ہے کہ بھئی قرآن کے بعد کوئی شے نہیں۔
- دوسرا قرآن اور حدیث پہ کھڑا ہو گیا کہ حدیث کے بعد کوئی شے نہیں۔
- ہم الحمد للہ تینوں کو مانتے ہیں، قرآن بھی، حدیث بھی، فقہ بھی۔ لیکن ہمارا بریلیوں سے جھگڑا کیا ہوا کہ بریلویوں نے کہا کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے۔ ہم نے کہا نہیں، اصلاح کرو یار۔ ہم نے کہا، ڈھانچہ ہمارا ٹھیک ہے، قرآن بھی، سنت بھی، فقہ بھی، لیکن اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے۔
سرسید صاحب کہاں رک گئے؟ قرآن پہ۔ اہلِ حدیث حضرات کہاں رک گئے؟ حدیث پہ، فقہ کا انکار کر دیا۔ ہم آئے فقہ پر، ہم نے کہا کہ تینوں ٹھیک ہیں لیکن روایات، رسوم، عقائد کی تعبیرات، اس میں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تو ہم ان اصلاحات کی طرف آئے۔ تو جنہوں نے اصلاحات قبول کر لیں، یا اصلاحات کی ضرورت تسلیم کر لی، وہ دیوبندی کہلائے۔ جنہوں نے کہا، کسی چیز میں کوئی ترمیم کی ضرورت نہیں، وہ بریلوی ہیں۔ جو ہے ٹھیک ہے۔ اس کو ’’سٹیٹس کو‘‘ کہتے ہیں۔ جیسا ہے، جیسا ہی رہے گا۔ جو رسوم، بدعات، جو کچھ تعبیرات، سب کچھ ٹھیک ہے، کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
لیکن اس میں سے جو تین گروہ ہیں نا ، انہوں نے [ریسرچ] نے تین پہ بحث کی کہ بریلوی، اہلِ حدیث اور دیوبندی، ان تینوں میں سے بین الاقوامیت کس نے اختیار کی ہے؟ بڑی دلچسپ بحث ہے اگر مل جائے، میرا خیال ہے جرمن میں ہے ، پتہ نہیں انگلش ترجمہ ہو گا کہ نہیں ہو گا۔ اس کا خلاصہ چھاپا تھا اسلامی یونیورسٹی والوں نے۔ اس کی بنیاد پر میں بات کر رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ انٹرنیشنل اور بین الاقوامیت کا مطلب کیا ہے، کہ یہ مسلک دنیا بھر میں پھیلا ہو اور دوسری نسلوں میں بھی ہو۔ یعنی جنوبی ایشیا کی جو نسلیں ہیں، ان سے ہٹ کر انگریزوں میں، عربوں میں، افریقیوں میں، دوسری نسلوں کے لوگوں نے بھی یہ مسلک اختیار کیا ہو، وہ بین الاقوامیت اس کو کہتا ہے۔ اس نے کہا ان تینوں میں سے انٹرنیشنل پوزیشن اختیار کی ہے، بین الاقوامیت اختیار کی ہے تو صرف دیوبندیوں نے کی ہے۔ وہ کہتا ہے آپ کو دنیا کے ہر حصے میں اہلِ حدیث ملیں گے، تھوڑے بہت، لیکن وہی ہیں جو یہاں سے گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں ملیں گے آپ کو، ہانگ کانگ میں ملیں گے، امریکہ میں بھی ملیں گے۔ لیکن یہ وہی ہوں گے جو یہاں سے گئے ہیں۔ انڈیا سے گئے ہیں، بنگلہ دیش سے گئے ہیں۔ اس نے کہا، بریلوی بھی آپ کو دنیا کے کم و بیش ہر علاقے میں ملیں گے لیکن وہی ہیں جو یہاں سے گئے ہیں۔ لیکن دیوبندی وہ بھی ہیں جو یہاں سے گئے ہیں اور دیوبندی وہ بھی ہیں جو وہاں کے دیوبندی ہوئے ہیں۔ یورپین میں، افریقن میں، امریکن میں، وہاں کی نسلوں کے لوگ جو دیوبندی ہوئے ہیں، وہ بھی آپ کو ملیں گے۔
اس کی وجہ اس نے کیا بیان کی ہے؟ لکھا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کی ’’فضائلِ اعمال‘‘ ہے۔ آپ کو انگریزی میں بھی ملے گی، آپ کو پشتو میں بھی ملے گی، آپ کو فارسی میں بھی ملے گی۔ اور آپ کو اس عمل کے ساتھ انگریز بھی ملیں گے، افریقی بھی ملیں گے، عرب بھی ملیں گے، سب ملیں گے۔ اور وہ کہتے ہیں جو اس عمل میں آگیا ہے نا وہ دیوبندی ہے۔
لیکن میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ جس اختلاف میں آپ گفتگو کرتے ہیں اس کا پس منظر بھی ذہن میں ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے؟ اپنے گھر میں بیٹھ کر تو پس منظر ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے کہ وجہ کیا ہے، کہاں سے، یہ جھگڑا کیسے ہوا، اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟تھوڑا سا تاریخی پس منظر میں آپ کے سامنے؛ آپ کے علم میں ہو گا لیکن یاددہانی سمجھ لیجیے۔ اپنے ان جھگڑوں کا، اختلافات کا تاریخی پس منظر تھوڑا سا ہمارے ذہنوں میں ہونا چاہیے کہ بات بگڑی کہاں سے تھی، چلی کہاں سے تھی، جو ۱۸۵۷ء سے پہلے نہیں تھی وہ کدھر سے آگئی؟
۱۸۵۷ء سے پہلے بھی ایک معرکہ ہوا تھا بالاکوٹ کا۔ وہ کس سن میں ہوا تھا؟ ۱۸۳۱ء میں۔ اس وقت ہمارا مرکز تھا یہ مدرسہ رحیمیہ۔ ابھی میں گیا ہوں وہاں دہلی تو ابھی زیارت کر کے آیا ہوں، دوبارہ بننا شروع ہو گیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا، حضرت شاہ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ، یہ ہمارا تسلسل ہے مدرسہ رحیمیہ کا، پانچ چھ پشتوں تک یہ مدرسہ چلا ہے۔ ۱۸۳۱ء میں جب شہدائے بالاکوٹ کو بالاکوٹ میں شکست ہوئی ہے اور پورا قافلہ ذبح ہو گیا ہے۔ ہمارا سیاسی مرکز تھا دہلی۔ شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ۔ بالکل اس وقت وہی کیفیت تھی جو جہادِ افغانستان کے بعد یہاں کی تھی۔ مقدمے اور پکڑنا اور داروگیر اور یہ اور وہ، افراتفری تھی انگریزوں کی، اِس کو پکڑو، اُس کو پکڑو، اُس کو پکڑو، یہ افراتفری پھیل گئی۔ ہماری دہلی کی مسند پر ہمارے سب سے بڑے بزرگ کون تھے؟ شاہ محمد اسحاقؒ اور شاہ عبد الغنیؒ۔ یہ ہمارے آخری دو بزرگ ہیں جنہوں نے دہلی کی مسند پر بیٹھ کر علمی کام کیا ہے۔ اللہ کی قدرت دونوں بزرگ ۱۸۳۱ء کے ان ہنگاموں کے بعد ان حالات کی وجہ سے ہجرت کر کے حجازِ مقدس چلے گئے۔ واقعاتی سبب کیا بنا ہے؟ واقعاتی سبب یہ بنا ہے کہ یہ دونوں اُس افراتفری کے ماحول میں، کہ یہاں آرام سے کام کرنا ممکن نہیں ہے، دونوں بزرگ، شاہ محمد اسحاقؒ بھی اور شاہ عبد الغنیؒ بھی ہجرت کر کے حجازِ مقدس چلے گئے۔ جیسے وہاں اس زمانے میں عام معمول تھا۔ ہمارے بہت سے اکابر ہجرت کر کے وہاں گئے ہیں اور وہیں آباد ہوئے ہیں، وہیں پھر۔
حضرت شاہ محمد اسحاقؒ اور حضرت شاہ عبد الغنیؒ کے شاگردوں میں ان کے شاگرد تھے میاں نذیر حسین دہلویؒ ۔ وہ حنفی تھے اور غیر مقلد ہو گئے۔ مسند اُن کے قبضے میں آ گئی۔ یہ واقعاتی پس منظر ہے سارا۔ دہلی میں ان کی مسند پر ان کے ہجرت پر جانے کے بعد جب خالی ہو گئی تو وہ درس و تدریس کا سلسلہ کس نے شروع کیا؟ مولانا میاں نذیر حسین دہلویؒ نے۔ وہ شاہ عبد الغنیؒ کے شاگرد تھے، شاہ محمد اسحاقؒ کے بھی شاگرد تھے۔ وہ غیر مقلد ہو گئے۔ غیر مقلد کیوں ہو گئے تھے؟ اس کا بھی ایک سبب ہے۔
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ جب جہاد کے لیے گئے ہیں تو پہلے کہاں گئے تھے؟ سب سے پہلے کہاں گئے تھے؟ حج کے لیے۔ کتنا عرصہ وہاں رہے تھے؟ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد بن عبد الوہابؒ کی تحریک، فکری تحریک، وہ ساری عروج پر تھی۔ ان کے کچھ ساتھی متاثر ہو کر آئے تھے۔ یہ علماء صادق پور سارے وہی ہیں۔ انہوں نے جہاد کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ آپ حضرت مولانا محمد میاںؒ کی کتاب پڑھیں ’’علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ اس میں ایک پوری جلد ہے، علماء صادق پور۔ یہ وہ تھے جو شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ساتھیوں میں سے تھے، ان کے ساتھ حجازِ مقدس گئے تھے، وہاں سے ان کی تحریک سے متاثر ہوئے تھے، واپس آئے تھے، پھر انہوں نے اپنا دائرہ پھیلانا شروع کیا تھا۔ جہاد میں کام کرتے رہے، علماء صادق پور نے، ان کا جہاد میں بڑا کام ہے۔ لیکن وہاں سے یہ پنیری لائے تھے۔ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ساتھ تھے یہ۔ کچھ مسائل میں شاہ صاحبؒ بھی ابتدا میں نرم ہو گئے تھے، آپ کے علم میں ہو گا۔ رفع یدین کے مسئلے پر شاہ صاحبؒ خود بھی ڈھیلے؛ بعد میں شاہ محمد اسحاقؒ نے سمجھایا تو ٹھیک ہو گئے لیکن پہلے شاہ صاحبؒ بھی نرم ہو گئے تھے، وہاں سے متاثر ہو کر آئے تھے۔ اور ایک پورا گروپ تھا، میاں صاحبؒ بھی ان میں تھے جو اس حلقے کے آدمی تھے۔ وہ بیٹھے دہلی میں، حدیث پڑھانا شروع کر دی۔ اور دنیا کے سامنے یہ تھا کہ شاہ محمد اسحاقؒ اور شاہ عبد الغنیؒ کے بعد اب اس مسند کا وارث کون ہے؟ میاں نذیر حسین دہلویؒ۔ ظاہری منظر یہ تھا۔
ہمارے بزرگ تو، پھر آ کر ہم نے سہارنپور میں سہارا لیا ہے۔ ہمارا علمی تسلسل؛ دہلی کی درسگاہ ہمارے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہم نے پھر سہارنپور، نانوتہ اور دیوبند میں آ کر اپنے نئے کام کا آغاز کیا ہے۔ ہمارا دوسرا نقطۂ آغاز کہاں ہے؟ سہارنپور ہے، نانوتہ ہے، دیوبند ہے۔ مولانا مملوک علی نانوتویؒ ہماری بنیاد ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا مملوک علی نانوتویؒ ہماری بنیاد ہیں ۔ مولانا احمد علی سہارنپوریؒ۔ یہ تین بزرگ ہیں جن کی بنیاد پر دیوبندیت کی عمارت کھڑی ہے۔ مولانا احمد علی سہارنپوریؒ بھی حضرت نانوتویؒ کے استاذ ہیں۔ مولانا مملوک علی نانوتویؒ بھی حضرت نانوتویؒ کے استاذ ہیں۔ اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ حضرت مولانا نانوتویؒ کے کیا ہیں؟ پیر ہیں، شیخ ہیں۔ ہماری اصل دیوبندیت کی عمارت کس پہ کھڑی ہے؟ مولانا احمد علی سہارنپوریؒ پر، مولانا مملوک علی نانوتویؒ پر، اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ پر۔ ان کے حلقے نے آ کر پھر سہارنپور، دیوبند، نانوتہ، گنگوہ، یہ جو مراکز آباد کیے تو ہم نے شروع کیا۔ لیکن وہاں انہوں نے شروع کر دیا تھا۔ یہ ہمارا تفریق کا آغاز تھا۔
اب میاں نذیر حسین صاحبؒ کی تو مجبوری یہ تھی کہ چونکہ وہ نئی بات کر رہے تھے، ایک نیا حلقہ متعارف کروا رہے تھے، ایک نیا فکر دے رہے تھے لوگوں کو، صحیح غلط اپنی جگہ پر، لیکن نیا کام تھا ان کا، تو انہوں نے اپنے نئے کام کے آغاز کے لیے جارحیت کا؛ حنفیوں کے پاس کوئی حدیث نہیں ہے، حنفیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، یہ حدیث کے بغیر ہیں، جارحیت کے ساتھ انہوں نے کام شروع کیا۔ انہوں نے بھی، مولانا محمد حسین بٹالویؒ نے بھی، ایک لمبی یلغار شروع کر دی۔ اور جواباً پھر ہمیں اس دفاع میں آنا پڑا کہ نہیں بھئی یہ بات غلط ہے۔ اور ہمارے اس محاذ پر سب پہلے جن بزرگوں نے کام کیا ہے وہ تین بزرگ ہیں۔ جنہوں نے میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ اور مولانا محمد حسین بٹالویؒ، وہ جو یلغار ہوئی تھی نا۔ ان کی ضرورت تو تھی کہ انہوں نے اپنا تعارف کروانا تھا ، جگہ بنانی تھی، راستہ بنانا تھا انہوں نے۔ انہوں نے یلغار کی کہ کوئی دلیل نہیں ان کے پاس، کوئی حدیث نہیں ان کے پاس، یہ خوامخواہ فقہ پہ اڑے ہوئے ہیں۔ یہ یلغار کی انہوں نے اور اپنا حلقہ بنایا۔اور بنایا بھی، انہوں نے اپنا حلقہ بنایا۔
اس کے جواب میں پھر ہمارے بزرگ آئے ہیں جنہوں نے حدیث کو پھر اس نہج پہ پڑھانا شروع کیا ہے۔ حدیث کو اس نہج پہ سب سے پہلے مولانا محمد علی سہارنپوریؒ نے؛ حواشی آپ دیکھیں ان کے بخاری میں۔ بخاری کے حواشی ان کے لکھے ہوئے ہیں۔ پچیس پاروں کے اُن کے ہیں، اور آخری پانچ پاروں کے کس کے؟ کیوں جی؟ یہ بھی پڑھ لیا کرو یار۔ بخاری شریف کا جو آج کل متعارف حاشیہ ہے، سارا حنفیت کے دفاع پر مبنی ہے۔ اگر حدیث پڑھانے والا سمجھدار استاذ ہو نا، تو اسے مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کے حاشیہ کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ اتنا جامع اور اتنا مکمل حاشیہ ہے۔ اور کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں ہے۔ آج اگر کوئی بریلوی بخاری پڑھاتا ہے تو وہی بخاری اس کے سامنے ہے، کوئی اہلِ حدیث پڑھاتا ہے تو وہی بخاری اس کے سامنے ہے، ہم تو پڑھاتے ہی وہ دیکھ کر ہیں۔ یہ سب سے پہلا علمی کام، اُس کے جواب میں۔
وہ جو یلغار ہوئی نا، طاقتور حملے ہوئے، جناب ان کے پاس کوئی حدیث نہیں ہے، کوئی دلیل نہیں ہے، یہ فقہ پہ چڑھ گئے ہیں، حدیث چھوڑ دی ہے انہوں نے، فلاں۔ وہ یلغار تھی۔ اس کے جواب میں سب سے پہلا علمی کام کس نے کیا ہے؟ حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے۔ اور وہ آج بھی بخاری کا جو متداول نسخہ ہے، اس پہ پچیس پاروں کا حاشیہ ہے، کس کا؟ حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کا ۔ اور آخری پانچ پاروں کا کس کا ہے؟ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا۔ استاذ کے بعد شاگرد نے اسی لہجے میں، کوئی فرق نہیں آنے دیا، وہی سطح ہے، وہی لیول ہے، وہی انداز ہے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں یہ ترتیب نہیں تھی بخاری اور ترمذی کے پڑھانے کی۔ ہم ترمذی ساری اب بھی پڑھاتے ہیں اور ٹھیک کرتے ہیں ہم، میں اس کا انکار نہیں کر رہا ہوں، ہم ترمذی ساری حنفیت کے دفاع میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھاتے ہیں یا نہیں پڑھاتے؟ ضرورت ہے ہماری۔ لیکن سب سے پہلے یہ کس نے کیا ہے؟ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے۔ پھر علامہ انور شاہ کاشمیریؒ تو عروج پر لے گئے، وہ تو اس کو آسمان پر لے گئے سارے کام کو۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ نے تو کمال ہی کر دیا۔ لیکن میں آپ کو تاریخ بتا رہا ہوں کہ سب سے پہلے مولانا احمد علی سہارنپوریؒ، اس کے بعد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، پھر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، پھر علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ ہمارا تسلسل ہے حنفیت کے دفاع کا حدیث کی بنیاد پر۔
چونکہ ان کو سامنا تھا۔ امام طحاویؒ کو سامنا نہیں تھا، وہ اور پس منظر میں بات کر رہے تھے، انہوں نے اپنے لہجے میں بات کی ہے۔ ہمیں چونکہ اعتراضات کا سامنا تھا۔ اب بھی ہے یا نہیں ہے؟ ابھی تک وہی دور چل رہا ہے۔ ہمیں اعتراضات کا سامنا تھا، طعن کا سامنا تھا، ہمیں الزامات کا سامنا تھا کہ ان کے پاس حدیث نہیں ہے، ان کے پاس دلیل نہیں ہے، یہ جناب خوامخواہ جزئیات پہ اڑے ہوئے ہیں۔ تو اس لہجے میں بھی شدت ہے۔ جب بات جواب میں ہوتی ہے تو جواب میں بھی وہی شدت ہوتی ہے جو سوال میں ہوتی ہے، یہ فطری بات ہے۔ مجھ سے بعض دوست پوچھتے ہیں، یار اتنی شدت سے کیوں پڑھاتے ہو؟ میں نے کہا، جتنی شدت سے ہم پہ حملہ ہوا ہے نا، اتنی شدت میں پڑھانا ہے ہم نے۔ بات ذہن میں آئی ہے کہ نہیں آئی؟ دوسری دنیا کے لوگ جو ہیں ان کو اس سارے پس منظر کا علم نہیں۔ باہر کے جو اہلِ علم ہیں نا، وہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ ترمذی میں قدوری پڑھاتے ہو؟ اور پڑھاتے ہیں یا نہیں پڑھاتے؟ میں ان سے کہتا ہوں بھئی ہم جواباً پڑھاتے ہیں۔ حملہ جس شدت کا ہو، جواب بھی اسی شدت کا ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے؟ میں نے کہا، وہ ہماری مجبوری ہے۔ ان کی مجبوری تھی تعارف کروانا تھا، ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے دفاع کرنا ہے۔
لیکن تھوڑی سی تاریخ میں نے عرض کی ہے۔ اب تو خیر ایک لمبی فہرست ہے محدثین کی، لیکن متقدمین میں سے تین چار نام لیے ہیں جنہوں نے حنفیت کے دفاع پہ یہاں کام کیا۔ اور الحمد للہ الحمد للہ الحمد للہ کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے، دلائل کے اعتبار سے، جواب کے اعتبار سے، اپنے دفاع کے اعتبار سے، کوئی پہلو بھی حدیث کے حوالے سے تشنہ نہیں ہے، اور اب تو ایک وسیع میدان ہے۔
اس کے ساتھ میں ایک بات اور عرض کر کے بات کو سمیٹنا چاہوں گا۔ وہ یہ ہے کہ آپ الحمد للہ ایک دین کے اہم محاذ پہ کام کر رہے ہیں۔ یہ دین کی ضروریات میں سے ہے۔ اس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ دین کے جس شعبے میں جو کام کرتا ہے اس کو تسلی سے کام کرنا چاہیے، اطمینان سے کام کرنا چاہیے۔ کوئی دفاعِ صحابہؓ کے محاذ پہ کام کر رہا ہے، کوئی حجیتِ حدیث کے محاذ پہ کام کر رہا ہے، کوئی نفاذِ اسلام کے محاذ پہ کام کر رہا ہے، کوئی دفاعِ ختمِ نبوت کے محاذ پہ کام کر رہا ہے، کوئی دفاعِ حنفیت کے۔ یہ سارے ہمارے کام ہیں نا، کس کے کام ہیں یہ؟ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں یہ۔ ایک ہی دریا سے نکلنے والی نہریں ہیں۔ پیچھے دریا ایک ہی ہے، اہلِ سنت والجماعت اور حنفیت۔ تھوڑا معروف کر دیں تو حنفیت۔ لیکن ہمارا پیچھے منبع ایک ہے، آگے دریا نہریں مختلف ہیں۔ راستے الگ الگ ہیں۔ منزل ایک ہے، سب نے سمندر میں گرنا ہے جا کر۔ کوئی اس علاقے کو سیراب کرے گا، کوئی اُس علاقے کو سیراب کرے گا، لیکن آخر میں سب نے کہاں اکٹھے ہو جانا ہے؟ سمندر میں پھر اکٹھے ہو جانا ہے ساروں نے۔ منبع بھی ایک تھا، منزل بھی ایک ہے۔
لیکن یہ جو ہے نا مختلف شعبوں میں، مختلف محاذوں میں کام، اس کا ایک بڑا بنیادی تقاضا ہے۔ آپ تو خیر سنتے رہتے ہیں۔ کام وہ کریں جو آپ کے ذوق کا ہے، لیکن دین کے کسی بھی دوسرے شعبے کے کام کی نفی نہ کریں۔ اور یہ فرق ذہن میں رکھیں کہ جو آدمی ایک شعبے میں کام کر رہا ہے نا، یقیناً اس میں تھوڑی شدت آئے گی، اس کے بغیر کام کر نہیں سکتا وہ۔ تھوڑی تھوڑی شدت نہ ہو تو وہ کام کر نہیں سکتا۔ اپنے محاذ کی ضروریات کو وہ سمجھتا ہے کہ اس محاذ پہ مجھے کیا چاہیے۔ یہ جو ضروریات ہیں نا، یہ ٹکراتی ہیں آپس میں۔ یہ بھی جدوجہد کی نفسیات ہیں۔ ایک شعبے کے کام کرنے والے کی ترجیحات اپنی ہیں۔ دوسرے شعبے میں کام کرنے والے کی ترجیحات اپنی ہیں۔ تیسرے شعبے میں کام کرنے والے کی ترجیحات اپنی ہیں۔ یہ ترجیحات عام طور پر آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ترجیحات کے ٹکراؤ کو آپ اپنے ٹکراؤ کا ذریعہ نہ بنا لیں۔
ایک چھوٹی سی مثال دوں گا کہ سفیر اور جرنیل ایک ہی حکومت کا حصہ ہیں نا؟ دونوں کی تربیت ایک جیسی ہوتی ہے؟ دونوں کی گفتگو کا انداز ایک ہوتا ہے؟ دونوں کی بول چال ایک جیسی ہوتی ہے؟ جرنیل سفیر کی زبان بولے گا تو لڑائی ہار جائے گا۔ اور سفیر جرنیل کی زبان بولے گا تو مذاکرات ہار جائے گا۔ بات سمجھ آئی ہے کہ نہیں آئی؟ سفیر کی تربیت اور ماحول میں ہوتی ہے، اس کا لہجہ اور ہے، زبان اور ہے، اس کا اتار چڑھاؤ اور ہے، اس نے اور انداز سے بات کرنی ہے۔ اور جرنیل نے؟ دونوں ایک دوسرے کا لہجہ اختیار کریں گے تو دونوں ناکام ہو جائیں گے۔ لیکن دونوں ایک ہی [حکومت میں ہیں]، اُس کی اپنی جگہ ضرورت ہے، اِس کی اپنی جگہ ضرورت ہے۔
دعوت کا میدان اپنا ہے، جہاد کا میدان اپنا ہے۔ داعی اور مجاہد کی تربیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ جس نے دین کی دعوت دینی ہے نا غیر مسلموں کو، اس نے بڑا ڈھیلا ڈھالا ہونا ہے، وہ بہت سی باتیں برداشت کرے گا، طبیعت کے خلاف بھی برداشت کرے گا، اس نے محبت پیار کے لہجے میں بات کرنی ہے، دعوت جو دینی ہے۔ اور جس نے لڑنا ہے، اس کا منظر اور ہو گا، اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہو گی۔ کوئی دعوت دینے والا کلاشنکوف ہاتھ میں لے کر جائے گا تو دعوت دے لے گا؟ اور کوئی بزرگو دوستو کہہ کر میدانِ جہاد میں گھس جائے گا تو کیا کرے گا؟ نہیں بھئی، وہ بزرگو دوستو کا محاذ نہیں ہے اور یہ کلاشنکوف کا محاذ نہیں ہے۔ اُس کا ماحول الگ ہے، اِس کا ماحول الگ ہے، وہ بھی دین کی ضرورت ہے، یہ بھی دین کی ضرورت ہے۔
مناظرے کا محاذ اور ہے، مفاہمت کا محاذ اور ہے۔ مکالمے کا محاذ اور ہے، لڑائی کا محاذ اور ہے۔ میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ کریں، تسلی سے، اطمینان سے کریں۔ آپ نہیں، دوسروں سے، سب سے یہی کہتا ہوں۔ لیکن دین کے کسی دوسرے شعبے کے کام کی نفی نہ کریں۔ اور جہاں ترجیحات کا ٹکراؤ ہو تو برداشت کریں۔ جہاں ترجیحات کا ٹکراؤ ہو تو کیا کریں؟ برداشت کریں۔ ایک دوسرے کی باتیں برداشت کریں اور یہ دیکھیں کہ اس کی مجبوریاں کیا ہیں۔ اگر میری سمجھ میں کسی کی بات نہیں آ رہی اور میں یہ سوچوں یار اگر اُس جگہ میں ہوتا تو کیا کرتا؟ میرا تو ایک اصول ہے، کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آتی، اور بسا اوقات نہیں آتی، میں یہ دیکھتا ہوں یار اگر میں وہاں ہوتا تو میں کیا کرتا؟ بہت سی باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ دو منٹ یہ سوچوں کہ اگر میں وہاں ہوتا تو میں کیا کرتا؟ تو بہت سی باتیں خودبخود سمجھ میں آجاتی ہیں کہ میں بھی یہی کرتا جو وہ کر رہا ہے۔ ٹھیک ہے یا نہیں؟
تو میں آخری بات آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں آج کی گفتگو میں کہ کام اپنا کریں، تسلی سے کریں، اطمینان سے کریں، حوصلے سے کریں، پختگی سے کریں، لیکن دین کے کسی دوسرے شعبے کے کام کی نفی نہ کریں۔ بلکہ اس سے اگلی بات کر رہا ہوں، اگر کہیں ترجیحات میں ٹکراؤ نظر آئے نا کہ یار وہ کیا کر رہا ہے، تو یہ سمجھیں کہ اس کی مجبوری ہے، اس کے کام کی مجبوری ہے، اور یہ دیکھیں کہ میں ہوتا تو شاید میں بھی یہی کرتا۔ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ تعاون کر سکتے ہیں تو ایک دوسرے سے تعاون کریں، نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کریں۔ تب جا کے کام چلے گا۔ اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو، جو باتیں صحیح ہوئی ہیں ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، کوئی بات غلط ہو گئی ہے اللہ پاک اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ گزرتے ہوئے آپ سے ملاقات ہو گئی۔ مولانا الیاس صاحب کا شکرگزار ہوں، اور آپ حضرات کا بھی کہ آپ نے میری تلخ تلخ باتیں سنی ہیں اور حوصلے سے سن لی ہیں، اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(2) O+, O-