گزشتہ روز جمعرات کو رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کے سالانہ عالمی اجتماع کے دوسرے مرحلہ کے آغاز میں کچھ دیر کے لیے حاضری کا اتفاق ہوا۔ یہ میرا کم و بیش ہر سال کا معمول ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے حاضر ہوتا ہوں، ایک دو نمازوں میں شریک ہوتا ہوں اور ایک دو بزرگوں کے بیانات سن کر واپسی کر لیتا ہوں۔ جس سے اس خیر کے کام میں تھوڑی سی شرکت ہو جاتی ہے، کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے اور دعوت و اصلاح کا اجتماعی عمل دیکھ کر ایمان کو تازگی میسر آجاتی ہے۔
جمعرات کو ظہر کے بعد ملتان روڈ لاہور میں سکیم موڑ کے قریب مکی جامع مسجد میں سودی نظام کے خلاف مہم کے سلسلہ میں پروگرام تھا۔ مسجد کے خطیب مولانا محمد رمضان باذوق بزرگ ہیں، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے عقیدت مندوں میں سے ہیں اور اس نسبت سے مجھے بھی ان کی محبت و شفقت کا وافر حصہ ملتا رہتا ہے۔ اس موقع پر سودی نظام کی نحوست اور اس سے نجات کی جدوجہد کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کیں۔ مولانا محب النبی، مولانا مبشر احمد تھانوی اور مولانا عبد الماجد شہیدی آف منڈی بہاؤ الدین سمیت بہت سے سرکردہ علماء کرام موجود تھے۔ انہوں نے سودی نظام کے خلاف رائے عامہ کو آگاہ اور منظم کرنے کی اس مہم کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور دعاؤں سے نوازا۔
وہاں سے مولانا عبد الماجد شہیدی، مولانا محمد فراز اور حافظ محمد بلال کے ہمراہ رائے ونڈ روانگی ہوئی۔ مولانا محمد فراز دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں، لاہور کے ایک صنعتکار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک سال کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ انہوں نے جب مجھے بتایا کہ میرا سال ابھی چل رہا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ میں اسے فضلائے دینی مدارس کے لیے ’’ہاؤس جاب‘‘ کہا کرتا ہوں جس سے دینی جدوجہد کی کچھ پریکٹس ہو جاتی ہے، اپنے روز مرہ کے معمولات کی ترتیب بن جاتی ہے اور پبلک ڈیلنگ کا تھوڑا بہت تجربہ ہو جاتا ہے۔ ان کے پاس خواص اور علماء کے حلقہ میں جانے کے لیے پاس موجود تھا، انہوں نے کہا کہ وہاں چلتے ہیں، میں نے معذرت کر دی کہ پروٹوکول کے ماحول سے میری طبیعت مانوس نہیں ہوتی اس لیے تھوڑی دیر کسی عام حلقے میں ہی گزاریں گے۔ چنانچہ ہم منڈی بہاؤ الدین کی مرکزی جامع مسجد کے حلقہ میں بیٹھ گئے، حضرت مولانا نذر الرحمن بیان فرما رہے تھے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت و ضرورت پر ان کی گفتگو جاری تھی۔ ان کا ارشاد تھا کہ دنیا میں اگر جناب نبی اکرمؐ اور خلفاء راشدینؓ کی سنتوں کا احیا ہو جائے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسوہ کو اپنانے کا ماحول بن جائے تو آخرت بننے کے ساتھ ساتھ ہماری دنیا بھی سنور جائے گی۔ اس لیے سنتوں پر عمل کے ماحول کو زندہ کرنے کی اس محنت میں سب لوگوں کو شریک ہونا چاہیے۔
ہمارے ایک عزیز شاگرد حافظ خالد محمود جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں، جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد سے انہوں نے تخصص کیا ہے اور ان دنوں منگووال ضلع گجرات میں تدریس و خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا نکاح رائے ونڈ میں ہو اور نکاح خوانی کی سعادت مجھے ملے۔ میں نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ جمعرات کو مغرب کی نماز رائے ونڈ کے اجتماع میں ادا کر لیں تو ایسا ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے والد محترم اور خسر بزرگوار کے ساتھ آگئے اور نماز مغرب کے بعد ایک مختصر سی تقریب میں یہ فریضہ سر انجام پا گیا، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
اس کے بعد ہم حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب کا بیان سننے میں مصروف ہوگئے اور ساتھ ساتھ کام و دھن کی تواضع کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ مولانا موصوف کا بیان دنیا کی بے ثباتی اور اخروی زندگی کے دوام پر تھا اور وہ فرما رہے تھے کہ یہ دنیا رہنے کے لیے نہیں ہے بلکہ آخرت کی اصل اور دوامی زندگی کی تیاری کے لیے ہے۔ دنیا سے انکار نہیں ہے مگر وہ بقدرِ ضرورت ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے اس لیے ہماری سب سے بڑی فکر یہ ہونی چاہیے کہ جنت کا راستہ مل جائے اور جہنم سے بچ جائیں۔
میرا معمول عام طور پر تبلیغی اجتماع میں ہفتہ کے دن کا کچھ حصہ گزارنے کا ہے لیکن اس سال ہم نے پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام حسن ابدال کے ’’مرکز حافظ الحدیث درخواستیؒ ‘‘ میں ۱۴ نومبر کو ہفتہ کے روز ’’سیرت النبی ﷺ کانفرنس‘‘ کا اہتمام کر رکھا ہے جس کی صدارت امیر محترم مولانا فداء الرحمن درخواستی کریں گے اور مہمان خصوصی شیخ الحدیث حضرت مولانا زرولی خان ہوں گے۔ جبکہ مقررین میں مولانا محمد امجد خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد القیوم حقانی اور دیگر سرکردہ خطباء کرام شامل ہوں ہیں۔ سیرت کانفرنس ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوگی اور مغرب تک جاری رہے گی۔ اس سے قبل صبح دس بجے پاکستان شریعت کونسل کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوگا جس میں ملک کی موجودہ صورتحال اور دینی جدوجہد کے تقاضوں کے حوالہ سے غور و خوض ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پاکستان شریعت کونسل کے بارے میں یہ وضاحت ان کالموں میں کئی بار کی جا چکی ہے کہ اس کا زور تنظیم سازی پر نہیں بلکہ علمی و فکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں کے درمیان ربط و ضبط کے فروغ پر ہوتا ہے۔ اور وہ کسی عوامی تحریک کی بجائے ’’توجہ دلاؤ تحریک‘‘ کے دائرہ میں مصروف عمل رہتی ہے۔