گزشتہ روز ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی جو نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ مغربی معاشرہ بالخصوص امریکہ میں اسلامی تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی سرگرمیاں معروف ہیں اور اہل علم و دانش کے ہاں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ راقم الحروف کی ملاقات ان سے ایک بار پہلے بھی کم و بیش دس سال قبل شکاگو میں ہو چکی ہے مگر اس کے بعد ربط و ملاقات کا کوئی موقع نہ ملا۔ البتہ ان کی سرگرمیوں اور دینی تعلیم کے فروغ میں ان کی مساعی سے وقتاً فوقتاً آگاہی حاصل ہوتی رہی۔گزشتہ روز جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم برطانیہ میں تھا کہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عبید اللہ غازی قریبی شہر لیسٹر میں آج شام تشریف لا رہے ہیں تو ان سے ملاقات کے لیے جامعہ الہدیٰ کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی کے ہمراہ لیسٹر جانے کا پروگرام بنایا۔ دوسرے روز ڈاکٹر صاحب ہماری دعوت پر جامعہ الہدیٰ بھی تشریف لائے اور اس طرح ان سے دو تفصیلی نشستوں کا موقع مل گیا۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کے پردادا مولانا محمد عبید اللہؒ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے پہلے سربراہ تھے۔ وہ تعلیمی ذوق کے بزرگ تھے مگر ان کے فرزند اور ڈاکٹر عبید اللہ غازی صاحب کے دادا مولانا منصور انصاری کا شمار تحریک آزادی کے نامور رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے اور ان کی خاص جماعت کے رکن تھے۔ اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے قریبی ساتھیوں میں انہیں دست راست کی حیثیت حاصل تھی۔حضرت شیخ الہندؒ کے حکم پر کابل ہجرت کی اور مولانا سندھیؒ کے ساتھ مل کر نہ صرف ہندوستان کی تحریک آزادی کے لیے کام کیا بلکہ برطانوی استعمار کی عسکری یلغار کے خلاف افغانستان کے استقلال اور آزادی کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے کابل میں بیٹھ کر برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے لیے دنیا کی آزاد اقوام و ممالک کے ساتھ رابطے کر کے جو تانے بانے بنے ان میں مولانا منصور انصاری ان کے دست راست اور رفیق کار کی حیثیت سے متحرک کردار دا کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جب جرمنی، جاپان، ترکی کی خلافت عثمانیہ، اور افغانستان کے ساتھ رابطوں کے بعد برلن میں راجہ سندر پرتاپ اور مولانا برکت اللہ بھوپالی کی سربراہی میں آزاد ہند گورنمنٹ جلا وطن حکومت تشکیل دی گئی تو اس میں راجہ سندر پرتاپ کو صدر، مولانا برکت اللہ بھوپالی کو وزیر اعظم، اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو وزیر خارجہ چنا گیا۔ جبکہ مولانا منصور انصاری کو ان کے نائب کا منصب عطا کیا گیا۔
اسی جدوجہد کے ایک مرحلہ میں تحریک ریشمی رومال وجود میں آئی جس میں شیخ الہند مولانا محمود حسین دیوبندیؒ کی کمان میں متحدہ ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پروگرام بنایا گیا جبکہ باہر سے مذکورہ بالا حکومتوں نے سپورٹ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے اسی سلسلہ میں حجاز مقدس کا سفر کر کے وہاں خلافت عثمانیہ کے وزیر جنگ جمال پاشا سے ملاقات کی۔ لیکن ابھی اس جدوجہد کے حتمی مراحل طے ہو رہے تھے کہ مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف مکہ حسین بن علی نے انگریزوں کے ساتھ ساز باز کے بعد خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور حضرت شیخ الہند کو ان کے دیگر رفقاء سمیت گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ تحریک آغاز سے پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہوگئی۔
مولانا منصور انصاری کابل میں تھے، انہیں اس کے بعد کئی بار پیشکش ہوئی کہ اگر وہ آئندہ انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی یقین دہانی کرادیں تو انہیں وطن واپسی کی اجازت مل سکتی ہے۔ مگر وہ اس یقین دہانی کے لیے تیار نہ ہوئے اور وطن واپسی کی سہولت انہیں حاصل نہ ہو سکی۔ برطانوی حکومت کی طرف سے متحدہ ہندوستان کی آزادی کے اعلان کے بعد جب دہلی میں کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت تشکیل پائی تو ایک بار پھر مولانا منصور انصاری کو وطن واپس لانے کی تحریک ہوئی مگر اس سلسلہ میں ابھی تفصیلات طے پا رہی تھیں کہ ۱۹۴۶ء میں مولانا منصور انصاری کا جلال آباد افغانستا ن میں انتقال ہوگیا اور وہ وہیں مدفون ہیں۔ ان کے فرزند مولانا حامد الانصاری بھارت کے ممتاز علماء کرام میں شمار ہوتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی کے داماد تھے، اور ان کی تصنیف ’’اسلام کا نظام حکومت‘‘ علمی حلقوں میں کافی متعارف ہے۔
ڈاکٹر عبید اللہ غازی انہی مولانا حامد الانصاری کے فرزند ہیں، ایک عرصہ سے شکاگو میں مقیم ہیں، خالص تعلیمی ذوق کے حامل دانشور ہیں، اور سن ڈیگو کیلی فورنیا یونیورسٹی میں بھی تدریسی خدمات دیتے رہے ہیں۔ مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ اور تاریخ ان کے خصوصی مضامین ہیں اور مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیم کا ماحول فراہم کرنا ان کا خاص مشن اور میدان کار ہے۔ اقراء فاؤنڈیشن کے نام سے تعلیمی ادارہ کے سربراہ ہیں جس کا ہیڈ آفس شکاگو میں ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ساتھ یورپ میں بھی اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے متحرک ہیں اور اسی سلسلہ میں امکانات کا جائزہ لینے کی غرض سے برطانیہ آئے تھے، جبکہ اسلام آباد میں اقراء فاؤنڈیشن کا مرکز بنانے کا پروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔
ان سے گفتگو کے دوران جن امور پر بات چیت ہوئی ان میں دو امور بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ وہی دو نکات ہیں جن پر ہم کئی بار ان کالموں میں اظہار خیال کر چکے ہیں اور یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب موصوف بھی وہی خیالات رکھتے ہیں جن کی طرف ہم ایک عرصہ سے ارباب علم و دانش کی توجہ دلا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ علم و دانش سے تعلق رکھنے والا جو شخص بھی اپنی ذہنی سطح اور فکری دائرے تک معاملات کو محدود رکھنے کی بجائے زمینی حقائق، معروضی حالات اور درپیش مشکلات کے حوالہ سے ان کا جائزہ لے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔
ان میں سے ایک تو مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی دینی تعلیم اور انہیں اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ وابستہ رکھنے کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ اس کے لیے ہمارا روایتی طرق کار مؤثر نہیں ہوگا اور ہمیں نئی پود کی نفسیات، ذہنی سطح اور اس کے گرد و پیش کے ماحول کو سامنے رکھ کر ان کے لیے تعلیم و تربیت کا نصاب و نظام ترتیب دینا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹر صاحب نصاب کے حوالہ سے خاصا کام نمٹا چکے ہیں اور پرائمری، سیکنڈری اور کالج کی سطح کے لیے مختلف کورسز انہوں نے ترتیب دیے ہیں جو شائع ہو کر مختلف اداروں کے نصاب کا حصہ بن چکے ہیں اور دن بدن ان کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ آج کے عالمی ماحول اور ضروریات کے لیے علماء کرام اور اسکالرز تیار کرنے کا ہے جس کا ہمارے ہاں بہت بڑا خلاء ہے اور بدقسمتی سے اس خلاء کو پر کرنے یا کم کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جا رہی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو آج کے فکری چیلنجز اور معاصر افکار و نظریات کو سمجھتے ہوں، ان کا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، دنیا میں مروج مذاہب سے واقفیت رکھتے ہوں، انگلش و دیگر عالمی زبانوں میں گفتگو اور تحریر کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور ابلاغ عامہ کے جدید ترین ذرائع کے استعمال کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔
ڈاکٹر عبید اللہ غازی کا خیال ہے کہ مغرب میں ا سلام کی دعوت کا وسیع میدان موجود ہے اور بہت سے لوگ اسلام سمجھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسے دعوت کے تقاضوں کے مطابق حکمت اور موعظہ حسنہ کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ اور محاذ آرائی کا میدان دوسرا ہے، اس کی زبان مختلف ہے اور اس کے تقاضے بالکل الگ ہیں۔ ہمیں جنگ اور دعوت کے تقاضوں کو گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے اور ہر ایک کو اپنے اپنے دائرہ میں رکھتے ہوئے اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر غازی نے جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم کا تعلیمی کام دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور اس کے مختلف شعبوں کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے اداروں کی ضرورت ہے جو نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں اور اس کی عصری ضرورت کا لحاظ بھی رکھتے ہوں۔ کیونکہ دونوں ضروریات کو سامنے رکھ کر ہی ہم اپنے بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور یہی آج کی دنیا میں اسلام اور ملت کے مفادات کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔