(۱۰ مارچ ۱۹۹۹ء کو جامعہ اسلامیہ (کشمیر روڈ، راولپنڈی صدر) میں بخاری شریف کے سبق کے آغاز پر ایک باوقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے علمائے کرام اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ بہت سے دیگر شہریوں نے بھی شرکت کی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان مدظلہ نے بخاری شریف کی پہلی حدیث کا درس دے کر سبق کا آغاز فرمایا جبکہ ان کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد السلام، حضرت مولانا قاری سعید الرحمان، اور مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ مولانا راشدی کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علمائے کرام، محترم بزرگو، دوستو اور عزیز طلبہ! حضرت مولانا قاری سعید الرحمان صاحب نے مجھے اور آپ دونوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا حسن جان مدظلہ کے خطاب کے بعد اور شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدظلہ کے خطاب سے پہلے مجھے حکم دیا ہے کہ بخاری شریف کے سبق کے افتتاح کی اس تقریب میں آپ حضرات کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کروں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان دو بزرگوں کے درمیان مجھ جیسا طالب علم کیا بات کرے گا۔ البتہ ایک بات ذہن میں آئی ہے جس سے کچھ حوصلہ ہوا ہے، وہ یہ کہ فقہائے کرامؒ نے زکوٰۃ کے نصاب کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر وہ سال کے آغاز اور اختتام پر مکمل ہے تو درمیان میں کسی وقت اس میں کمی بھی ہو جائے تو اس کمی کا اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے یہ سوچ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا ہوں کہ گفتگو کا آغاز حضرت مولانا حسن جان صاحب نے کیا ہے اور اختتام اور دعا حضرت مولانا شیر علی شاہ صاحب فرمائیں گے، اگر درمیان میں مجھ جیسے طالب علم کی کمزور باتیں بھی ہو جائیں تو تقریب کا نصاب بہرحال متاثر نہیں ہوگا۔
حضراتِ محترم! امام بخاریؒ نے اپنی عظیم المرتبت کتاب کا آغاز ’’بدء الوحی‘‘ سے کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ اسی مناسبت سے حضرت مولانا حسن جان نے وحی کے حوالہ سے گفتگو فرمائی ہے اور میں بھی وحی کے بارے میں ہی کچھ طالب علمانہ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ اول یہ کہ وحی کی ضرورت کیا ہے؟ دوسری یہ کہ وحی کی ماہیت کیا ہے؟ اور تیسری یہ کہ بخاری شریف جس علم کی کتاب ہے یعنی حدیث نبویؐ، اس علم کا وحی کے ساتھ تعلق کیا ہے۔
وحی کی ضرورت کیا ہے؟
جہاں تک وحی کی ضرورت کا تعلق ہے اس کے بارے میں اتنی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا یعنی نسل انسانی کے ماں باپ کو زمین پر اتارا تھا تو اترنے کے حکم کے ساتھ ہی ایک ہدایت کی تھی کہ:
’’زمین پر اتر جاؤ! وہاں میری طرف سے ہدایات آتی رہیں گی، جس نے ان ہدایات کی پیروی کی وہ غم اور خوف سے نجات پائے گا اور جس نے انہیں جھٹلا دیا وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ (سورہ البقرہ)
زمین ہمارا آبائی وطن نہیں ہے، ہمارا آبائی وطن جنت ہے جہاں ماں اور باپ حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو پیدا کیا گیا۔ زمین میں ہم عارضی طور پر امتحان کے لیے آئے ہیں اور امتحانی عرصہ گزارنے کے بعد ہم نے اس زمین سے واپس چلے جانا ہے۔ البتہ واپس اصلی گھر یعنی جنت میں ان لوگوں کو جانا نصیب ہوگا جو زمین میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے امتحان میں کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ ان ہدایات سے انکار کر دیں گے اور امتحان میں ناکام ثابت ہوں گے وہ واپس اصلی گھر میں نہیں جائیں گے بلکہ دوسرے گھر یعنی دوزخ میں جانا ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے پہلے دو افراد کو زمین پر اتارتے ہی کہہ دیا تھا کہ انسانی آبادی زمین پر اپنی مرضی میں آزاد نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایات کی پابند ہوگی۔ یہ ہدایات حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوئیں۔ ان ہدایات کا نام وحی ہے اور یہ زمین پر نسل انسانی کے لیے خدائی دستور ہے۔
حضرت امام بخاریؒ نے وحی سے کتاب کا آغاز کیا ہے اور اس کے بعد ایمان، علم اور اعمال کے ابواب لائے ہیں۔ اس طرح انہوں نے یہ بتا دیا ہے کہ ہمارے ہاں ایمان و یقین اور علم و عمل سمیت ہر چیز کی بنیاد وحیٔ الٰہی ہے اور ہم ہر معاملہ میں وحیٔ الٰہی کی راہنمائی حاصل کرنے کے پابند ہیں۔ اور اگر آپ غور فرمائیں تو یہ آج کی انسانی سوسائٹی کا سب سے بڑا مسئلہ بھی ہے کہ آسمانی تعلیمات او روحیٔ الٰہی سے بغاوت کے بعد انسانی سوسائٹی نے جو کئی صدیاں گزاری ہیں اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کی ہے اس میں ناکامی کے بعد نسل انسانی کو آج پھر وحیٔ الٰہی کی طرف رجوع کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ انسانی سوسائٹی اپنی حکمران خود ہے اور اسے اپنے معاملات طے کرنے کے لیے باہر سے کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ آج دنیا بھر میں یہی گمراہی مسلط ہے مگر امام بخاریؒ نے ’’بدء الوحی‘‘ سے کتاب کا آغاز کر کے اس تصور کو رد کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ ہر معاملہ میں وحیٔ الٰہی کی راہنمائی کی ضرورت ہے اور آسمانی تعلیمات کی پیروی کے بغیر انسانی معاشرہ دنیا یا آخرت کسی جگہ میں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
وحی کی ماہیت کیا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ وحی کی ماہیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وحی انسان کی اپنی کسی تخلیقی صلاحیت کا ثمرہ ہے یا واقعتاً باہر سے اسے ہدایات ملتی ہیں؟ آج کل عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وحی کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ بعض انسانوں میں مخصوص قسم کی تخلیقی صلاحیت ہوتی ہے اور اس صلاحیت کی بنیاد پر وہ جو سوچتے اور کہتے ہیں اس کا نام وحی ہے۔ یہ بات سر سید احمد خان نے لکھی ہے اور آج کی فکری گمراہیوں کا سب سے بڑا سرچشمہ یہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وحی کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے بلکہ شعر و شاعری طرز کی تخلیقی صلاحیت حضرات انبیائے کرامؑ کو ودیعت ہوئی تھی، اس حوالہ سے ان پر خاص کیفیت وارد ہوتی تھی، اس کیفیت کا نام جبرئیلؑ ہے اور اس کیفیت میں ان کی زبان سے صادر ہونے والے کلام کا نام وحی ہے۔ اس طرح نہ حضرت جبریل علیہ السلام کا کوئی خارجی وجود ہے اور نہ ہی وحی کوئی باہر سے آنے والی ہدایت ہے۔
آج جب کوئی دانشور جناب رسول اکرمؐ کو خراج عقیدت پیش کرنے اور محبت کے اظہار کے ساتھ آپؐ کی ہدایات کی تعریف کرتا ہے اور پھر یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بہت اچھی تھیں مگر آج کے زمانہ کے لیے نہیں تھیں، اب زمانہ بدل گیا ہے اس لیے بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے، تو اس کے پس منظر میں یہی فکری کجی کارفرما ہوتی ہے کہ وحی خود جناب نبی اکرمؐ کی سوچ اور تخلیقی صلاحیت کا ثمرہ ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے اور اصل واقعہ یہ ہے کہ وحی باہر سے آنے والی ہدایات کا نام ہے جسے بھیجنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لانے والے حضرت جبرئیلؑ ہیں، اور وہ حضراتِ انبیائے کرامؑ پر نازل ہوئی ہے۔ اس لیے وحی داخلی کیفیات کا نام نہیں ہے بلکہ خارجی ہدایات کا ذریعہ ہے۔
کم و بیش یہی بات قادیانی کہتے ہیں مگر اور انداز سے۔ ان کا کہنا ہے کہ نبوت وہبی نہیں بلکہ کسبی چیز ہے، یعنی کوئی شخص خود بھی ترقی اور محنت کر کے نبوت کے منصب تک پہنچ سکتا ہے۔ مگر یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ نبوت خالصتاً وہبی منصب ہے جسے خود اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے عطا فرماتے ہیں اور وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایات کا نام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہو چکی ہیں اور آپؐ کے بعد نبوت اور وحی کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہو چکا ہے۔
وحی کا حدیث و سنت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
تیسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حدیث و سنت کا وحی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس پر بہت کچھ عرض کیا جا سکتا ہے مگر اس موقع پر مختصرًا صرف اتنی بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حدیث و سنت بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اور یہ قرآن کریم کا بیان اور اس کی شرح ہے جو جناب نبی اکرمؐ نے اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندہ کی حیثیت سے فرمائی ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی مستند اور ’’سرکاری‘‘ تشریح یہی ہے۔ اس پر تفصیلات میں جانے کی بجائے ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو خود امام بخاریؒ نے اس کتاب میں نقل کیا ہے کہ جناب نبی کریمؐ کے جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کوفہ کی جامع مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ ایک درس میں انہوں نے عورتوں کے بارے میں مسائل بیان کرتے ہوئے آنحضرتؐ کا یہ ارشاد نقل کر دیا کہ:
’’جسم پر نام گڈوانے والی، بال اکھاڑنے والی اور ریتی سے دانت رگڑ کر ان کو چھوٹا کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے‘‘۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق کوفہ کی ایک خاتون ام یعقوبؒ نے یہ بات سنی تو وہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس آئی اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے۔ اس پر خاتون نے سوال کیا کہ کیا یہ قرآن میں ہے؟ اس کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ جب لعنت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو اس کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیے، اس لیے اس نے یہ سوال کر دیا۔ حضرت عبد الہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ ہاں قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے۔ اس پر خاتون نے تعجب اور حیرت کے ساتھ پوچھا کہ قرآن کریم تو میں نے بھی پڑھا ہے اس میں کہیں یہ مسئلہ موجود نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں فرمایا ہے کہ ’’اللہ کے رسول تمہیں جس کام کے کرنے کا حکم دیں وہ کرو اور جس کام سے روکیں اس سے رک جاؤ‘‘۔ اور جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جسم پر نام گدوانے والی، بال اکھاڑنے والی اور دانت رگڑ کر چھوٹے کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دراصل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ظاہر بات ہے کہ جناب نبی اکرمؐ جب اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندہ ہیں تو اصول یہ ہے کہ نمائندہ کی کوئی بات اپنی نہیں ہوتی بلکہ وہ نمائندہ کی حیثیت سے جو کچھ بھی کہتا ہے وہ اسی کی طرف سے ہوتی ہے جس کا وہ نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرما دیا کہ میرا رسول جس کام کے کرنے کا حکم دے وہ کرو اور جس کام سے روکے اس سے رک جاؤ تو اس اصول کے تحت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی فرمایا ہے اور جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآنی تعلیمات کا ہی حصہ ہے اور اسے قرآن کریم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کم ہے اس لیے انہی گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔