بعد الحمد والصلوٰۃ! رمضان المبارک کا ایک عشرہ گزر گیا ہے، دو عشرے باقی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ ویسے تو سارے مہینے ہی رحمتوں اور برکتوں والے ہیں، اللہ تعالی کی رحمت کو کہیں رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اس مہینے میں عام مہینوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ توبہ استغفار، اللہ تعالیٰ سے مانگنے اور اس کے سامنے جھولی پھیلانے کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں ’’قل ما یعبؤا بکم ربی لو لا دعاؤکم‘‘ (الفرقان ۷۷) اے نبی! فرما دیجئے کہ اگر تمہارا ہاتھ اٹھانا نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ تمہاری ایک ہی ادا مجھے پسند ہے کہ میرے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہو۔ اگر تمہاری دعا اور پکار نہ ہو تو رب کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ رمضان المبارک دعا کا مہینہ ہے، اس لیے دعا کے حوالے سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا:
(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں عام طور پر یہ شکایت ہوتی ہے اور یہ جملہ عموماً ہماری زبان پر ہوتا ہے کہ ہم بہت دعائیں مانگتے ہیں لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس حوالے سے ایک بات تو یہ عرض کروں گا کہ کیا واقعی دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی مسلمان کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ کوئی مومن جب خلوصِ دل کے ساتھ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے رد نہیں کرتے اور دعا کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔ جناب نبی کریمؐ کا فرمان ہے ’’ان اللہ حی کریم یستحی اذا رفع الرجل الیہ یدیہ ان یردھما صفرا خائبتین‘‘۔ اللہ تعالیٰ زندہ و موجود اور کریم ہے، اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے۔ اس لیے جب کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی دعا قبول نہ ہو، البتہ قبولیتِ دعا کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی قبولیت کی چار شکلیں بیان فرمائی ہیں:
- پہلی صورت یہ ہے کہ جو مانگا ہے وہی مل جائے۔ اور ہمارے نزدیک دعا کی قبولیت اسے ہی سمجھا جاتا ہے کہ جو مانگا ہے وہ مل جائے۔ اگر وہی مل جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ دعا قبول ہو گئی، اور اگر نہ ملے تو ہم سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ جو تم نے اپنے لیے مانگا ہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے یا نہیں۔
- دوسری صورت یہ ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ وہ چیز نہیں دیتے بلکہ اس سے بہتر چیز یا اس کا متبادل دے دیتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ بچہ کوئی چیز مانگتا ہے اور ماں کو اندازہ ہے کہ بچہ یہ چیز خراب کر دے گا، یا یہ چیز بچے کو نقصان پہنچائے گی، تو ماں بچے کو وہ چیز نہیں دیتی، البتہ ماں بہلانے کے لیے کوئی اور چیز بچے کو دے دیتی ہے۔ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ جو ہم نے مانگا ہے وہ ہمارے حق میں بہتر ہے یا نہیں، اگر وہ بہتر نہ ہو تو اللہ تعالی وہ چیز نہیں دیتے بلکہ اس کے متبادل کوئی اور شے دے دیتے ہیں۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی قبولیت کی تیسری شکل یہ ذکر فرمائی کہ نہ تو اللہ تعالیٰ وہ دیتے ہیں جو مانگا گیا ہے، اور نہ اس کے متبادل کچھ اور دیتے ہیں، بلکہ دعا کی وجہ سے آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، ہمارے علم میں تو نہیں ہے کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ دعا کی وجہ سے آنے والی کوئی مصیبت ٹال دی جاتی ہے، یہ دعا کی قبولیت کی تیسری شکل ہے۔
- دعا کی قبولیت کی چوتھی شکل حضور نبی کریمؐ نے یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالی اس دعا کو آخرت کے ذخیرہ میں جمع کر دیتے ہیں۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کبھی یہ سمجھ کر دعا مانگنا چھوڑ مت دینا کہ دعا قبول نہیں ہو رہی۔ دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہاں میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ نے دعا کی قبولیت کی چوتھی صورت یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو آخرت کے اکاؤنٹ میں ریزرو کر لیتے ہیں، تو ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ یہاں نقد مل جانا بہتر ہے یا آخرت میں ملنا بہتر ہے؟ بہرحال حضورؐ نے یہ تلقین فرمائی ہے کہ کبھی مایوس ہو کر دعا کرنا چھوڑ مت دینا کہ دعا قبول نہیں ہوتی، ہر مومن کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
(۲) دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دعا کی قبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ ویسے تو اللہ تعالی سے مانگنا ہی مقبولیت کا سبب ہے، لیکن بعض چیزیں رفتار تیز کر دیتی ہیں۔ حدیث میں مختلف چیزوں کا ذکر ہے کہ فلاں کام کرنے سے دعا قبول ہوتی ہے، فلاں وقت میں دعا قبول ہوتی ہے، اس انداز سے مانگی جائے تو دعا قبول ہوتی ہے، وغیرہ۔ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سب سے بڑا سبب جس کی وجہ سے دعا قبول ہوتی ہے وہ حلال رزق ہے، اس پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ میں بہت بڑا نام ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ۔ آپؓ فاتحِ ایران، بہت بڑے جرنیل اور کوفہ کے بانی ہیں۔ ان کے بارے میں یہ شہرت ہو گئی تھی کہ ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ آپ ہاتھ اٹھاتے ہیں تو وہ خالی واپس نہیں آتا۔ اور جناب نبی کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم بھی ہے کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں کچھ بھی نہیں لگتے، ظاہری حالت یہ ہوتی ہے کہ کوئی دروازے پر کھڑا نہ ہونے دے، کوئی اس کی بات کا جواب نہ دے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مقام یہ ہوتا ہے ’’لو اقسم علی اللہ لابرہ‘‘ اگر وہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھ لیتے ہیں۔ اللہ کے ایسے بندے ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں شہرت ہو گئی اور لوگوں کو تجربہ ہوگیا کہ ان کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، چنانچہ لوگ کوشش کرتے کہ آپ کے منہ سے کوئی بات کہلوا لیں تاکہ ہمارا کام سنور جائے۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! ہمارا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ آپ کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، اس کی وجہ کیا ہے؟
آدمی کو کوئی مقام ملے تو اس کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے، کوئی محنت ہوتی ہے، یا اس کی کوئی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند آئی ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے جناب نبی کریمؐ نے پوچھا بلال! اللہ تعالی نے مجھے جنت کی سیر کرائی تو میں نے جنت میں قدموں کی چاپ سنی۔ میں نے سوال کیا کہ یہ کس کے قدموں کی آہٹ ہے؟ تو فرشتے نے بتایا کہ یہ بلالؓ ہے جو مدینے میں چل رہا ہے لیکن اس کے قدموں کی چاپ یہاں سنائی دے رہی ہے۔ اے بلال! تم کون سا ایسا عمل کرتے ہو کہ تمہیں یہ مرتبہ حاصل ہے؟ حضرت بلالؓ سوچنے لگ گئے۔ سوچ کر کہنے لگے کہ جو کام باقی مسلمان کرتے ہیں میں بھی وہی کچھ کرتا ہوں، کوئی زائد عمل تو نہیں ہے، البتہ ایک کام میں پابندی سے کرتا ہوں کہ جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت ضرور پڑھتا ہوں۔ تحیۃ الوضو کے دو نفل ضروری نہیں ہیں لیکن ان کا اجر بہت بڑا ہے۔ بتایا کہ میری یہ عادت ہے، میں نے کبھی اس کا ناغہ نہیں کیا۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہی عمل ہے کہ جس کی وجہ سے تمہیں یہ مقام ملا۔
بہرحال حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے کسی نے دعا کی قبولیت کا سبب پوچھا تو حضرت سعدؓ نے جواب دیا کہ اور تو میں کچھ نہیں کہتا، البتہ اتنی بات ہے کہ جب سے میں نے کلمہ پڑھا ہے اس وقت سے آج تک میرے حلق سے ایک لقمہ بھی ایسا نہیں اترا جس کے بارے میں مجھے تسلی نہ ہو کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہے۔ یہ درمیان میں تقریبا پچیس سال بنتے ہیں، جس کی آپؓ ضمانت دے رہے ہیں کہ اس عرصہ میں حرام کا ایک لقمہ بھی اس حلق سے نہیں اترا۔ یہ بات کہہ دینا آسان ہے، ہم تو دو دن کا حساب نہیں کر سکتے کہ جو کھایا ہے وہ کہاں سے آیا تھا، کیا پوزیشن تھی؟ تاہم حلال کھانا دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا سبب ہے اور حلال لقمہ دعا کی قبولیت کو قریب کرتا ہے۔ یہی بات حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمائی کہ میں حلال کھاتا ہوں، حلال کھانے کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ میری کوئی دعا رد نہیں کرتے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرما دیں، تو آنحضرتؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنا کھانا پاکیزہ اور حلال رکھو، تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔ جس بندے کی نشوونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو، تو جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔ جب کہ حرام کھانے کی وجہ سے دعا کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ حرام کی قباحت و شناعت کو اس انداز میں ذکر فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپؐ نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: ’’یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا‘‘ (المومنون ۵۱) اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ’’یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم‘‘ (البقرہ ۱۷۲) اے اہل ایمان! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے، اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ تو اس کی دعا کیوں کر قبول ہو سکتی ہے۔
(۳) اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کا قبول نہ ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ فرمایا، ایک وقت ایسا آئے گا جب اللہ تعالی میری امت سے ناراض ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی پہلی امتوں پر یہ ہوتی تھی کہ کسی کو غرق کر دیا، کسی کو الٹا دیا، کسی پر پتھر برسا دیے۔ نبی کریمؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جس میں چار درخواستیں کیں: پہلی یہ کہ اے اللہ! میری امت کو پہلی امتوں کی طرح اکٹھے برباد نہ کیجیے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، نہیں کروں گا۔ دوسری یہ کہ اے اللہ! میری امت اکٹھی غرق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ پھر آپؐ نے دعا کی کہ میری عام امت قحط سالی سے ہلاک نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول فرمائی۔ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے یہ تین باتیں قبول فرما لیں۔ چوتھی دعا میں نے یہ کی کہ یا اللہ! میری امت آپس میں نہ لڑے، ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی اور فرمایا کہ یہ آپس میں تو لڑیں گے، ایسے لڑیں لگے کہ دنیا تماشہ دیکھے گی۔ ہر چیز پر، ہر بات پر اور ہر طرح سے لڑیں گے، یہی تو اللہ کا عذاب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریمؐ کی چار میں سے تین دعائیں قبول فرما لیں اور چوتھی کے بارے میں فرمایا کہ یہ تو ہوگا۔
پھر آنحضرتؐ نے وضاحت فرمائی کہ میری امت پر جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہو گی تو اس کے عذاب کی تین صورتیں ہوں گی: پہلی صورت یہ ہو گی ’’کان الباس بینھم‘‘ امت منتشر ہوگی، آپس میں لڑے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی شکل ہوگی۔ دوسری یہ بات ارشاد فرمائی ’’سلط اللہ علیھم اشرارھم‘‘ اللہ تعالیٰ چن چن کرامت کے شریر لوگوں کو امت پر مسلط کر دیں گے۔ اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ قیادت اور سیادت شرفاء کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ یہ اللہ تعالی کے عذاب کی دوسری شکل ہے۔ اس امت پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی تیسری شکل جناب نبی کریمؐ نے یہ ذکر فرمائی جو سب سے زیادہ خوفناک ہے ’’یدعوا خیارھم فلا یستجاب لھم‘‘ نیک لوگ دعائیں کریں گے، ان کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
یہ باتیں ذکر کر کے میں عرض کروں گا کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ آج ہماری اجتماعی حالت کیا ہے؟ ہمیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سے راضی نہیں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوتے تو ہمارا یہ حشر نہ ہو رہا ہوتا جو ہو رہا ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہم مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا پتہ دے رہا ہے۔ اس لیے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اس کی نافرمانی سے، گناہوں سے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی سے توبہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھولی پھیلائیں، دعائیں مانگیں اور اس کے سامنے گڑگڑائیں، اور حلال کمانے اور حلال کھانے کی کوشش کریں تاکہ ہماری دعائیں قبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔