لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام کا خودساختہ اسلام!

   
۲۰ مارچ ۲۰۰۰ء

نوٹ: یہ مضمون مذکورہ خبر کے حوالہ سے لکھا گیا تھا مگر بدقسمتی سے وہ خبر درست ثابت نہیں ہوئی اس لیے یہ مضمون محض ایک اچھی تمنا اور دعا کے طور پر ریکارڈ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ (ابوعمار زاہد الراشدی ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۷ء)

امریکہ کی سیاہ فام کمیونٹی کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے بارے میں ہم ان کالموں میں کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں کہ لوئیس فرخان کی قیادت میں کام کرنے والے اس گروہ کو امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۳۰ء میں امریکہ کے شہر ڈیٹرائیٹ میں ’’فارد محمد‘‘ نامی ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ انہیں امریکہ کے سیاہ فاموں کی فلاح و بہبود کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہے۔ چونکہ امریکہ میں صدیوں سے بسنے والی سیاہ فام آبادی گوروں کے مظالم اور نسلی تعصب کا شکار چلی آرہی ہے اس لیے فارد محمد کو سیاہ فاموں کی توجہ مل گئی۔ اور پھر ایک سیاہ فام مسیحی پادری کے ’’ایلج پول‘‘ نامی بیٹے نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے خود کو اس کی تحریک کے لیے وقف کر دیا اور ’’ایلیج محمد‘‘ کا نام اختیار کر لیا۔

ایلیج محمد ایک متحرک کارکن اور شعلہ نوا مقرر تھا جس نے سیاہ فاموں پر گوروں کے مظالم کا مؤثر انداز میں ذکر کر کے اچھی خاصی جمعیت اپنے گرد اکٹھی کر لی اور ۱۹۳۴ء میں فارد محمد کے اچانک غائب ہو جانے پر اپنے پیروکاروں کو یہ عقیدہ دیا کہ فارد محمد اصل میں (نعوذ باللہ) خود خدا تھا جو انسانی شکل میں آیا تھا اور اب ایلیج محمد کو اپنا پیغمبر بنا کر واپس چلا گیا ہے۔

یہ تحریک دراصل سفید فام حکمرانوں کے خلاف سیاہ فاموں کے ردعمل کی تحریک تھی جس پر اسلام کا نقاب چڑھا دیا گیا اور اسلام بھی وہ جس کی بنیاد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے عقیدہ پر نہیں بلکہ ایلیج محمد کے دعوائے نبوت پر تھی۔ چنانچہ اس گروہ کے عقائد و عبادات اور روایات و اقدار دنیا بھر کے مسلمانوں سے مختلف ہیں لیکن وہ اپنے نئے مذہب کا پرچار قادیانیوں کی طرح اسلام کے نام پر ہی کرتے رہے۔ اس دوران ۱۹۶۴ء میں ایلیج محمد کے دست راست مالکم شہباز نے نئے مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ صحیح اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا مگر ۱۹۶۵ء میں اسے شہید کر دیا گیا۔ نیویارک میں اس کے پیروکار صحیح العقیدہ مسلمانوں کا گروہ اور ان کا مرکز ’’مالکم شہباز شہید مسجد‘‘ کے نام سے مصروف کار ہے۔

۱۹۷۰ء میں ایلیج محمد کی وفات ہوئی اور اس کے بعد اس کے بیٹے ویلس دین محمد نے باپ کے عقائد سے توبہ کرتے ہوئے اہل السنت والجماعت کے عقائد اختیار کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنی جماعت الگ بنا لی۔ جبکہ ایلیج محمد کے گروپ کی قیادت لوئیس فرخان نے سنبھال لی اور لوئیس فرخان نے انہی عقائد یعنی فارد محمد کو خدا اور ایلیج محمد کو نبی قرار دیتے ہوئے ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے نام سے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ چونکہ لوئیس فرخان امریکہ میں مسلمان کہلانے والے ایک بہت بڑے گروہ کا لیڈر تھا اس لیے مختلف مسلم حکومتوں مثلاً لیبیا، عراق اور ایران وغیرہ وقتاً فوقتاً اسے مسلمان امریکی لیڈر کی حیثیت سے تقریبات میں دعوت دیتی رہیں جس پر ہم نے ان کالموں میں احتجاج بھی کیا۔

اس حوالہ سے گزشتہ دنوں ایک خوشگوار خبر آئی ہے جو اگر صحیح ہے تو ہمارے نزدیک یہ مسلمانوں کے لیے اکیسویں صدی کی سب سے پہلی خوشخبری ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ ویلس دین محمد اور لوئیس فرخان کے درمیان مسلسل مذاکرات اور گفتگو کے نتیجے میں لوئیس فرخان نے ازسرنو کلمہ پڑھ کر اسلام کے صحیح عقائد کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ چنانچہ ایک قومی اخبار کے بدھوار ایڈیشن نے ۴ مارچ ۲۰۰۰ء کو واشنگٹن کی ڈیٹ لائن سے ریڈیو رپورٹ کے حوالہ سے یہ خبر ان الفاظ سے شائع کی۔

’’امریکہ کے نام نہاد مسلمان ’’نیشن آف اسلام‘‘ نامی فرقے کے لیڈر لوئیس فرخان نے اہل سنت مسلم امریکہ سوسائٹی کے لیڈر وارث دین محمد کے ساتھ نماز ادا کر کے اعلان کیا ہے کہ وہ اور ان کے ہزاروں پیروکار اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ہیں اور اب وہی کلمہ پڑھیں گے جو دنیا کے ایک ارب مسلمان پڑھتے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے نیشن آف اسلام اور اس کے لیڈر لوئیس فرخان کا ایمان تھا کہ خدا تنظیم کے بانی ماسٹر فارد محمد کے روپ میں اپنے شاگرد عالیجاہ محمد کے ساتھ آیا۔ لوئیس فرخان پیشہ ور گلوکار تھے ، وہ قرآن کریم نہایت خوش الحانی سے پڑھتے ہیں، انہوں نے دس لاکھ سیاہ فام مسلمانوں کا تاریخی اجتماع کیا تھا۔

ہم اکیسویں صدی کے آغاز پر ایک اچھی بلکہ بہت ہی اچھی خبر ملنے پر سب سے پہلے بارگاہ ایزدی کے حضور شکر گزار ہیں کہ انسانوں کے دلوں کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ایمان و ہدایت کے فیصلے وہی فرماتے ہیں۔ اس کے بعد جناب ویلس دین محمد کو ان کی مسلسل محنت اور کاوش کی کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ عالم اسباب میں لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام کی ہدایت کا ذریعہ وہ بنے ہیں۔ اور پھر جناب لوئیس فرخان اور ان کے ہزاروں بلکہ لاکھوں رفقاء کو قبول ہدایت پر مبارکباد دیتے ہوئے ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تازہ خون نہ صرف امریکہ کی مسلمان کمیونٹی بلکہ پورے عالم اسلام کی اجتماعیت کے لیے حیات نو کی نوید ثابت ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی ہم اپنے دلی جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد اور ان کے لاکھوں رفقاء سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا کیس بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور اپنے تمام تر نظم و نسق، صلاحیت، وسائل اور ذوق عمل کے باوجود ان کی تگ و دو کا فائدہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی بجائے اس کے مخالفین کو پہنچ رہا ہے۔ اس لیے اگر واقعتاً وہ اپنے دلوں میں اسلام کے لیے خلوص کا جذبہ محسوس کرتے ہیں تو دنیا کی موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی گروہی اور خاندانی ترجیحات کی قربانی دیتے ہوئے لوئیس فرخان اور نیشن آف اسلام کی طرح ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ کیا بعید کہ ملت اسلامیہ میں اس وقت نظر آنے والے قیادت کے خلاء کو پر کرنے اور عالم اسلام کے دینی حلقوں کو نیا خون فراہم کرنے کی سعادت کاتب تقدیر نے لوئیس فرخان نیشن آف اسلام، مرزا طاہر احمد اور جماعت احمدیہ کے حصہ میں ہی لکھ رکھی ہو۔ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے اور ہماری دعا اور خواہش ہے کہ ایسا ہو جائے تو ہم ان کا ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں نہ صرف خیرمقدم کریں گے بلکہ ایک کارکن کے طور پر ان کے ساتھ کام کرنے کو باعث سعادت و نجات سمجھیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter