خواب کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو قرار دیا ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ نبوت کے اجزاء یعنی وحی کی اقسام میں سے صرف ایک قسم باقی رہ گئی ہے جو اچھے خواب کی صورت میں ہے، اور جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بسا اوقات اپنے نیک بندوں کو آنے والے حالات و واقعات کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ مگر شرعی مسئلہ یہ ہے کہ حجت اور دلیل صرف پیغمبر کا خواب ہے، یا وہ خواب جو کسی مومن نے دیکھا اور رسول اللہؐ نے سن کر اس کی توثیق فرما دی۔ جیسے قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کیا تو بیداری میں اس خواب کو وحی الٰہی سمجھتے ہوئے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ یا جیسے دنیا بھر میں اسلام کا سب سے زیادہ اور ہر وقت گونجنے والا شعار اذان ہے جس کی بنیاد خواب پر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زیدؓ نے خواب میں ایک شخص کو اذان کے یہ کلمات بلند آواز سے پکارتے سنا اور انہوں نے جناب نبی اکرمؐ کو اپنے اس خواب سے آگاہ کیا جس پر رسول اللہؐ نے ہر نماز سے پہلے ان الفاظ کو اعلان کے طور پر بلند آواز سے پکارنے کا حکم دیا جو اذان کہلاتی ہے۔
جناب نبی اکرمؐ صحابہ کرامؓ کو اپنے خواب بتایا کرتے تھے اور ان کے خواب سن کر تعبیر سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں ’’کتاب التعبیر‘‘ کے نام سے مستقل باب قائم کیا ہے جس میں ساٹھ سے زیادہ روایات اس حوالہ سے نقل کی ہیں۔ لیکن پیغمبر کے خواب یا پیغمبر کے سامنے پیش کیے جانے والے خواب کے سوا اور کوئی خواب اس معنٰی میں شرعی حجت اور دلیل نہیں ہے کہ اس پر کسی فیصلے یا حکم کی بنیاد رکھی جائے خواہ وہ کسی بھی شخصیت کا خواب ہو۔ البتہ خوشخبری اور کسی معاملہ کی پیشگی اطلاع کے طور پر خواب کی اہمیت و افادیت آج بھی موجود ہے۔
اس پس منظر میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے ایک خواب کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے اپنی معروف کتاب ’’فیوض الحرمین‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے یہ خواب ۲۱ ذی قعدہ ۱۱۴۴ھ کو حرم پاک میں جمعہ کی شب کو دیکھا جس کے اہم امور یہ ہیں۔
شاہ صاحبؒ نے خواب میں دیکھا کہ مسلمانوں پر کافروں کا غلبہ ہوگیا ہے، کافروں نے اہل اسلام سے ان کے ممالک اور اموال چھین لیے ہیں، ان کی اولادوں کو غلام بنا لیا ہے، اور مسلمانوں کے شہروں میں اسلام کے شعائر مغلوب اور کفار کے شعائر غالب ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال پر اہل زمین اللہ تعالیٰ کے شدید غضب کا سامنا کر رہے ہیں اور شاہ صاحبؒ خواب کے دوران ملأ اعلیٰ میں غضب الٰہی کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ خود بھی غیظ و غضب سے بھر گئے ہیں اور ان کے گرد ایسے لوگوں کا جم غفیر جمع ہوگیا ہے جو غضب سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان میں مختلف ممالک کے لوگ ہیں، سوار بھی ہیں اور پیدل بھی ہیں۔
شاہ صاحبؒ اس خواب میں خود کو ’’قائم الزمان‘‘ کی صورت میں دیکھتے ہیں جس سے مراد وہ ہستی ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی نظام خیر کے نافذ کرنے کے لیے سبب کے طور پر ذریعہ بنا لیتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دنیا میں نظام خیر کے قیام کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ خواب میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے گرد غیظ و غضب سے بھرے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان جم غفیر کی صورت میں گھیرا ڈال کر ان سے سوال کرتے ہیں کہ آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کا حکم کیا ہے؟ حضرت شاہ صاحبؒ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’فک کل نظام‘‘ کہ تمام نظاموں کو توڑ پھوڑ دینا ہی اس وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کا حکم ہے تاکہ دنیا کے تمام مروجہ نظاموں کا خاتمہ ہو اور قرآن و سنت کا نظام ان نظاموں کی جگہ لے سکے۔
تحریک ولی اللّٰہی سے تعلق رکھنے والے مختلف ارباب علم و دانش نے مختلف اوقات میں اس خواب کی مختلف تعبیریں بیان کی ہیں جو اس وقت تک کے حالات کی روشنی میں ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اس خواب کی وہ عملی تعبیر اب ظاہر ہوئی ہے جو امارت اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت کی صورت میں ہے۔ ہماری اس گزارش کو سمجھنے کے لیے حضرت شاہ صاحبؒ کے دور سے لے کر اب تک پیش آنے والے حالات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ دنیا کے مختلف بلکہ بیشتر مسلم ممالک پر کفر کی طاقتوں کا غلبہ قائم ہوا اور کم و بیش دو صدیوں تک قائم رہا۔ اسلامی احکام و قوانین منسوخ کر کے کفر و ظلم کے نظام مسلط کر دیے گئے، مسلمانوں کے اموال اور وسائل کا استحصال کیا گیا جو اب تک جاری ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی عملی حالت غلاموں جیسی ہے، اور عالمی استعمار کے احکام اور فیصلوں کے سامنے وہ مکمل طور پر بے بس ہیں۔
کفر و استحصال کے اس غلبہ کے خلاف مختلف مسلم ممالک میں آزادی اور جہاد کی تحریکیں منظم ہوئیں جو عالمی کفر اور استعمار کے خلاف غیظ و غضب سے بھری ہوئی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی جماعت اور تحریک کو عالمی کفر کے خلاف بغاوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطور سبب اور آلہ کے اختیار فرمایا، چنانچہ اسی جماعت نے جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کو شکست دی، وسطی ایشیا اور افغانستان سے روسی استعمار کو پسپا کیا، اور آج امریکی استعمار کے خلاف سب سے مضبوط اور بے لچک تحریک کا پرچم بھی اسی جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں رفتہ رفتہ تحریک ولی اللّٰہی کے اس ماٹو کی طرف آرہی ہیں کہ ’’فک کل نظام‘‘ یعنی دنیا کے تمام مروجہ نظاموں کا مکمل خاتمہ کیے بغیر اسلام نافذ نہیں ہو سکتا اور دنیا کے کسی مروجہ نظام کے ساتھ اسلام کی ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکری تحریک کا سب سے بڑا علمبردار دارالعلوم دیوبند ہے جس نے ایک سو چالیس سال کی جدوجہد کے ذریعہ اسلامی تعلیمات و احکام اور تہذیب و ثقافت کی نہ صرف حفاظت کی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے لاکھوں مسلمانوں کو مختلف شعبوں میں اس کی حفاظت و ترویج اور نفاذ و غلبہ کے لیے تیار کیا ہے۔ اور اسی علمی و فکری تحریک کی ایک شاخ ’’طالبان‘‘ نے امارت اسلامی افغانستان میں ’’فک کل نظام‘‘ کا عملی مظاہرہ کر دکھایا ہے کہ اپنے ملک میں کفر کے ہر نظام کے اثرات کو مٹا ڈالا ہے اور ہر قسم کے مروجہ سسٹم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جس سے قرآن و سنت کے شرعی نظام کے عملی اور حقیقی نفاذ کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
طالبان کے طرز حکومت میں ہمارے بہت سے دوستوں کو شدت دکھائی دے رہی ہے اور وہ ان کے بعض اقدامات کو انتہاپسندانہ قرار دے رہے ہیں لیکن اگر وہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ماٹو ’’فک کل نظام‘‘ کی روشنی میں دیکھیں تو اس بات کا انہیں بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ دنیا کے مروجہ نظاموں کے مکمل خاتمہ کے بغیر قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا عملی نفاذ اور خلافت اسلامیہ کا احیاء ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا کے مروجہ نظاموں کا خاتمہ طالبان حکومت کے طرز عمل کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے اور جو تحریکات اور فکری حلقے موجودہ عالمی سسٹم اور مروجہ نظاموں کے اسٹرکچر کے اندر رہتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ اور مفاہمت کے ذریعہ نفاذ اسلام کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ غلط فہمی اور مغالطے کا شکار ہیں۔ ہمارے نزدیک امام ولی اللہ دہلویؒ کے اس تاریخی خواب کی عملی تعبیر اپنے آخری مراحل کی طرف بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کا دوبارہ نفاذ و غلبہ کی جدوجہد ’’فک کل نظام‘‘ کے الہامی ماٹو اور پرچم کے ساتھ کامیابی کی منزل تک پہنچے گی۔