کیتھولک مسیحیوں کے عالمی راہنما پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم نے ۱۲ ستمبر کو جرمنی کے دورہ کے موقع پر یونیورسٹی آف ریجنزبرگ میں کم و بیش ڈیڑھ ہزار طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو ریمارکس دیے، ان پر دنیائے اسلام میں ایک بار پھر احتجاج و اضطراب کی لہر اٹھی ہے اور ان ریمارکس کو توہین آمیز قرار دے کر پاپائے روم سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان گستاخانہ ریمارکس پر معافی مانگیں۔ پاپائے روم کے اس خطاب کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ مغرب نے مختلف سائنسی اور سماجی علوم کو بنیاد بنا کر خدا کی راہنمائی اور مذہب کو ایک طرف کر رکھا ہے جو درست نہیں ہے، کیونکہ مغرب جب خدا کو ایک طرف کر کے ثقافتوں کے مابین مکالمے کی بات کرتا ہے تو دنیا کی دوسری ثقافتوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے عقیدہ و ایمان کی نفی کی جا رہی ہے۔ اس لیے ایسی عقل جو خدا کی کی راہنمائی سے بے بہرہ ہو اور جو مذہب کو محدود ثقافتی دائرے میں محصور کر دیتی ہو، وہ ثقافتوں کے مابین مکالمہ شروع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پوپ بینی ڈکٹ نے قرآن کے تصور جہاد کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا اور چودھویں صدی کے ایک بازنطینی مسیحی حکمران عمانویل دوم پیلیو لوگس کے ایک مکالمہ کے حوالے سے ایسی باتیں کہہ دیں جو جہاد کے جذبہ و تصور کو غلط رنگ میں پیش کرنے کے مترادف ہیں۔ مذکورہ مکالمے میں مسیحی حکمران نے کہا تھا:
’’مجھے دکھاؤ کہ محمد نے نئی چیز کیا پیش کی ہے؟ تمھیں صرف ایسی چیزیں ملیں گی جو بری اور غیر انسانی ہیں، جیسا کہ محمد کا یہ حکم کہ جس مذہب کی انہوں نے تبلیغ کی ہے اسے تلوار کے ذریعے سے پھیلایا جائے۔‘‘
ان ریمارکس پر عالم اسلام کے سخت احتجاج کے جواب میں پاپائے روم نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ ان کی تقریر کے جن الفاظ سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے، وہ ان کے اپنے نہیں ہیں اور نہ ان کے ذاتی خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ یہ عمانویل دوم کے الفاظ ہیں جنہیں ان کے لیکچر میں محض ایک اقتباس کے طور پر نقل کیا گیا ہے، تاہم پوپ کا خطاب اس تاویل کو قبول نہیں کرتا۔ ان کے خطاب کا متعلقہ حصہ درج ذیل ہے:
’’اس لیکچر میں، میں صرف ایک نکتے پر، جو کہ بذات خود مکالمہ کے حوالے سے بنیادی اہمیت نہیں رکھتا، بحث کرنا چاہوں گا جسے ایمان اور عقل کے مسئلے کے تناظر میں، میں دلچسپ خیال کرتا ہوں اور جو موضوع سے متعلق میرے خیالات کے لیے نکتہ آغاز کا کام دے سکتا ہے۔
پروفیسر خوری کے مدون کردہ ساتویں مکالمے میں، بادشاہ جہاد کے موضوع کو چھیڑتا ہے۔ بادشاہ کو یقیناً سورہ ۲:۲۵۶ کے بارے میں معلوم ہوگا جو کہتی ہے کہ ’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘ یہ ابتدائی دور کی سورتوں میں سے ہے جب محمد ابھی طاقت سے محروم اور خطرے کی زد میں تھے۔ تاہم فطری طور پر بادشاہ کو وہ احکام بھی معلوم ہوں گے جو مقدس جنگ سے متعلق بعد کے حالات میں دیے گئے اور جو قرآن میں درج ہیں۔ اہل کتاب اور مشرکین کے بارے میں تجویز کیے گئے طرز عمل کے مابین امتیاز جیسی تفصیلات میں الجھے بغیر، وہ ذرا بے لحاظی سے مذہب اور تشدد کے مابین عمومی تعلق کا مرکزی سوال اپنے شریک مکالمہ کے سامنے ان الفاظ میں رکھ دیتا ہے: ’’مجھے دکھاؤ کہ محمد نے آخر نئی چیز کیا پیش کی؟ تمھیں بس ایسی چیزیں ملیں گی جو بری اور غیر انسانی ہیں، جیسا کہ اس کا یہ حکم کہ جس مذہب کی اس نے تبلیغ کی ہے، اسے تلوار کے ذریعے سے پھیلایا جائے۔‘‘
بادشاہ تفصیل کے ساتھ بدلائل اس بات کی وضاحت کو جاری رکھتا ہے کہ تشدد کے ذریعے سے ایمان کو پھیلانا کیوں ایک غیر معقول بات ہے۔ تشدد خدا کے مزاج اور روح کی فطرت سے لگا نہیں کھاتا۔ ’’خدا خون سے خوش نہیں ہوتا اور عقل کے مطابق عمل نہ کرنا خدا کی فطرت کے مخالف ہے۔ ایمان روح سے پیدا ہوتا ہے، نہ کہ جسم سے۔ جو شخص بھی کسی کو ایمان تک لے جانا چاہتا ہے، اسے کسی تشدد یا دھمکی کے بغیر، عمدہ طریقے سے بات کرنے اور درست طریقے سے استدلال کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، .... کسی عقل پسند روح کو قائل کرنے کے لیے کسی کو مضبوط بازو یا کسی قسم کے ہتھیاروں یا کسی شخص کو موت کے خوف میں مبتلا کرنے کے کسی دوسرے ذریعے کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس استدلال میں تشدد کے زور پر تبدیلی مذہب کے خلاف فیصلہ کن بیان یہ ہے کہ عقل کے مطابق عمل نہ کرنا خدا کی فطرت کے خلاف ہے۔ مکالمے کے تدوین کار تھیوڈور خوری نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ’’بادشاہ کے لیے، جو ایک بازنطینی تھا جس کی ذہنی تربیت یونانی فلسفے کے تحت ہوئی تھی، یہ بیان کسی استدلال کا محتاج نہیں۔ لیکن مسلم تعلیمات کی رو سے خدا (عقل واستدلال سے) مکمل طور پر ماورا ہے۔ اس کا ارادہ ہماری categories میں سے کسی کا پابند نہیں، حتیٰ کہ عقلی طرز عمل کا بھی نہیں۔ یہاں خوری نے معروف فرانسیسی ماہر اسلامیات R. Arnaldes کی تحریر کا حوالہ دیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ابن حزم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خدا خود اپنے کہے ہوئے الفاظ کا بھی پابند نہیں، اور کوئی چیز اس کو پابند نہیں کرتی کہ وہ حق کو ہم پر واضح کرے۔ اگر خدا کی مرضی ہوتی تو ہمیں بت پرستی کو بھی اختیار کرنا پڑتا۔‘‘
اس اقتباس سے واضح ہے کہ پوپ بینی ڈکٹ نے عمانویل دوم کے مکالمہ کا صرف اقتباس پیش نہیں کیا بلکہ سیاق اور سباق میں اپنے تبصرے کے ساتھ اس کی تائید بھی کی ہے، اس لیے یہ بات طے شدہ ہے کہ پوپ بینی ڈکٹ کے بیان کی جو وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں اور جن توجیہات کے ذریعے ان کے خطاب کے اس حصے کو گول کر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ محض لیپاپوتی ہے اور اصل بات وہی ہے کہ پاپائے روم نے اسلام کے تصور جہاد کو اپنے خطاب کا ہدف بنایا ہے اور وہی بات مذہب کے نام پر کی ہے جو مغرب کے سیاستدان اور حکمران لامذہبیت اور سیکولرازم کے نام پر کر رہے ہیں۔
جہاں تک پاپائے روم یا عمانویل دوم کی اس بات کا تعلق ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو تلوار کے ذریعے سے پھیلانے کا حکم دیا تھا تو یہ اسلامی تعلیمات اور تاریخی حقائق دونوں کے یکسر منافی ہے، اس لیے کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی کسی شخص کو زبردستی کلمہ پڑھانے کا حکم نہیں دیا۔ قرآن کریم نے تو صراحت کے ساتھ اس بات کا حکم دیا ہے کہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ دین کے قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں۔ ’’من شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر‘‘ جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر اختیار کرے۔ ایمان یا کفر میں سے کوئی راستہ اختیار کرنا خالصتاً کسی بھی شخص کا ذاتی اختیار ہے اور اس کے لیے جبر کی کوئی بھی صورت اختیار کرنے کو اسلام جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن کسی فرد کا اسلام قبول کرنا یا نہ کرنا اور بات ہے، اور انسانی سوسائٹی میں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور ظلم و جبر کے خلاف صف آرا ہونا اور عدل و انصاف کی آسمانی تعلیمات کے فروغ کے لیے جہاد کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے، اور اسی کو جہاد کہتے ہیں۔ اسلام کے نزدیک جہاد کا یہی تصور ہے اور یہ جہاد بنی اسرائیل میں بھی موجود رہا ہے۔ قرآن کریم نے بیت المقدس کی فتح کے لیے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی جنگ اور جالوت کے مقابلے میں طالوت اور حضرت داؤد علیہ السلام کی جس جنگ کا ذکر کیا ہے وہ جہاد ہی تھے، اور بائبل نے بھی ان جنگوں کے واقعات قدرے مختلف انداز میں بیان کیے ہیں۔ یہ جنگیں شریعت موسوی کی بالادستی اور اس دور کے ظالموں، جابروں اور غاصبوں کو زیر کرنے کے لیے تھیں۔
الغرض کیتھولک مسیحیوں کے عالمی راہنماز پوپ بینی ڈکٹ کے یہ ریمارکس خلاف حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور چند ماہ قبل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تسلسل کو باقی رکھنے کی ایک افسوسناک کوشش بھی ہے جس کی پاپائے روم کے منصب پر فائز کسی شخصیت سے قطعاً توقع نہیں تھی۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مزید مشتعل کرنے کی بات ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ پاپائے روم بین المذاہب مکالمہ اور ثقافتوں کے مابین مکالمہ کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی اشتعال انگیزی کے ذریعے اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہے ہیں۔ کیا پوپ بینی ڈکٹ خود بھی اپنے اس غیر منطقی اور غیر معقول طرز عمل پر نظرثانی اور اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟