تجرد کی زندگی اور اسلام

   
تاریخ : 
۹ اکتوبر ۱۹۹۶ء

برطانوی اخبارات میں ان دنوں سکاٹ لینڈ کے روڈرک رائٹ نامی ایک بشپ پر بحث جاری ہے جو گزشتہ دنوں ایک مطلقہ عورت کے ساتھ فرار ہوگئے اور بعد میں انہوں نے بشپ کے منصب سے استعفٰی بھجوا دیا۔ روڈرک رائٹ کیتھولک چرچ کے بشپ تھے جبکہ کیتھولک پادریوں پر پابندی ہے کہ وہ شادی نہیں کر سکتے اور ساری زندگی عورت سے دور رہنے پر پابند ہیں۔ لیکن روڈرک رائٹ کچھ عرصہ قبل چرچ سے غائب ہوگئے اور چند دنوں کے بعد پتہ چلا کہ ان صاحب نے ایک مطلقہ خاتون کے ساتھ شادی کا ارادہ کر لیا جس کے ساتھ ان کے تعلق پہلے سے قائم تھے۔

عیسائیت میں ’’تجرد‘‘ کی زندگی کو شروع ہی سے تقدس کا درجہ حاصل ہے اور چرچ کے ساتھ تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے شادی نہ کرنے اور جنسی تعلقات سے دور رہنے کی پابندی مذہبی قواعد کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’رہبانیت‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے رہبانیت کا طریقہ خود گھڑ لیا تھا مگر وہ اس کے حقوق ادا نہ کر سکے۔ چنانچہ پادری اور نن کی جنسی بے راہ روی کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی خود چرچ کی تاریخ ہے،اور ماضی کا ریکارڈ ایک طرف، اب بھی اخبارات میں پادری صاحبان کے بارے میں اس قسم کی خبریں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔

جبکہ اسلام نے زندگی کی حقیقتوں اور فطری تقاضوں سے فرار کے اس تصور کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا لا رھبانیۃ فی الاسلام کہ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ آپؐ نے نکاح کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت قرار دیا۔ اس سلسلہ میں ایک مشہور روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ کے تین صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورہ کیا کہ نیکی اور عبادت میں آگے بڑھنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے۔ چنانچہ تینوں نے آپس میں صلاح مشورہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت

  1. ایک صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی مسلسل روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا،
  2. دوسرے صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی رات کو نیند نہیں کروں گا اور پوری رات عبادت میں بسر کیا کروں گا،
  3. جبکہ تیسرے صاحب نے عہد کیا کہ میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ میں تم سب سے زیادہ تقویٰ اور خوف خدا رکھنے والا ہوں لیکن اس کے باوجود میں نے شادیاں بھی کی ہیں، رات کو سوتا بھی ہوں، روزہ کبھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا، اور زندگی کے معاملات میں شریک رہتا ہوں۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ

’’نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

نکاح کے بارے میں فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ ایک جوان مسلمان اگر نکاح کی اہلیت رکھتا ہے اور خاندانی اخراجات برداشت کر سکتا ہے تو نکاح کرنا اس کے لیے شرعاً ضروری ہے۔ اور ملت کے کسی بھی فرد کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ عبادت اور نیکی سمجھ کر نکاح سے گریز کرے، اس لیے کہ یہ فطرت کا تقاضہ ہے اور اسلام نے زندگی کے ہر معاملہ میں فطرت کی تعلیم دی ہے۔

مغرب کی اصل مشکل یہ ہے کہ اس کی مذہبی تعلیمات اور زندگی کے تقاضوں میں اس قدر بعد ہے کہ دونوں کو بیک وقت نباہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جبکہ اسلام نے دین فطرت کے طور پر مذہبی تعلیمات اور زندگی کے عملی تقاضوں کے درمیان حسین امتزاج اور توازن قائم کر دیا ہے کہ زندگی کا کوئی معاملہ بھی عبادت کے دائرہ سے باہر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ شادی کرنا، بیوی کے پاس جانا، بیوی بچوں پر خرچ کرنا، ان کے لیے کمانا، اور خاندانی زندگی اختیار کرنا اسلام کے نزدیک عبادت اور اجر و ثواب کا باعث ہے، بشرطیکہ اسے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق سر انجام دیا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter