پارلیمنٹ کے لیے اجتہاد کا اختیار

   
تاریخ : 
۲۳ مئی ۲۰۰۲ء

گزشتہ دنوں ملک کے معروف قانون دان جناب عابد حسن منٹو نے ایک قومی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اجتہاد کے لیے مولوی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج کے دور میں اجتہاد کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ جبکہ اس سے کچھ دن بعد تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے ان کا یہ ارشاد سامنے آیا ہے کہ اجتہاد کا کام کلیتاً پارلیمنٹ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ یوں یہ بحث ایک بار پھر قومی اخبارات میں شروع ہوتی نظر آرہی ہے کہ آج کے دور میں اجتہاد کا حق کس کو حاصل ہے؟ اس سے قبل بھی یہ بحث کئی بار قومی حلقوں میں مختلف مراحل میں ہو چکی ہے اور متعدد ارباب علم و دانش نے اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چونکہ اسلامائزیشن کے حوالے سے یہ ایک بنیادی مسئلہ اور فیصلہ طلب معاملہ ہے اس لیے جب تک بحث و تمحیص کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ جاتی اظہار خیال کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اجتہاد علمی

شرعی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ اہل علم کی اس علمی تگ و دو کو کہا جاتا ہے جو وہ قرآن و سنت کے کسی حکم کی تعبیر و تشریح اور کسی نئے پیش آمدہ مسئلہ کے شرعی حل کے لیے کرتے ہیں، اسے ’’اجتہاد علمی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اسے شرعی دلائل میں ایک مستقل دلیل کی حیثیت حاصل ہے۔ اجتہاد کے حوالے سے تمام امور تو اس مختصر مضمون میں زیر بحث نہیں آسکتے البتہ چند اہم پہلوؤں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے اسلامی قلمرو (ریاست) میں شامل ہونے کے بعد حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کے ایک حصے کا قاضی بنا کر بھیجا تو روانہ کرنے سے قبل ان سے ایک انٹرویو لیا۔ اس میں جناب رسول اکرمؐ نے سوال کیا کہ تمہارے سامنے کوئی معاملہ پیش ہوا تو فیصلہ کس بنیاد پر کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔ دوسرا سوال ہوا کہ اگر قرآن کریم میں تمہیں اس مسئلے کا کوئی حل نہ ملا تو پھر کیا کرو گے؟ جواب دیا کہ آپؐ یعنی جناب نبی اکرمؐ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضورؐ نے پھر سوال کیا کہ اگر میری سنت میں بھی اس معاملہ میں کوئی رہنمائی نہ ملی تو کیا کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور صحیح نتیجے تک پہنچنے میں اپنی طرف سے کوئی کوتاہی روا نہیں رکھوں گا۔ اس پر آنحضرتؐ نے ان کی تصویب فرمائی اور انہیں یمن کے لیے روانہ کر دیا۔

اس روایت کی روشنی میں یہ اصول قائم ہوا کہ کسی بھی مسئلے کا حل سب سے پہلے قرآن کریم میں تلاش کیا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ قرآن کریم میں نہ ملے تو سنت نبویؐ میں اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اور اگر قرآن و سنت دونوں میں مسئلے کا حل نہ ملے تو پھر اہل علم کو حق حاصل ہوگا کہ وہ قرآن و سنت کی اصولی رہنمائی کی روشنی میں اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔ اس عمل کو شرعی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرن اول میں اجتہاد کا یہی مفہوم تھا لیکن جب صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں بہت سے مسائل پر اجتماعی اجتہاد ہوا اور بعض امور پر صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق فیصلے فرمائے تو اس ترتیب میں ایک اور درجے کا اضافہ ہوگیا کہ اگر کسی اجتہادی مسئلہ پر صحابہ کرامؓ کے دور میں یا خیر القرون میں اہل علم نے اجتہاد کر کے ایک متفقہ موقف اختیار کر لیا ہے تو اس مسئلہ میں کوئی نیا اجتہاد کرنے کی بجائے اس متفقہ موقف کو ترجیح دی جائے گی۔ اسے ’’اجماع‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ شرعی دلائل کی ترتیب علمائے امت کے ہاں اس طرح قائم ہوئی کہ

  1. قرآن کریم: مسئلے کا حل سب سے پہلے قرآن کریم کی روشنی میں ہوگا،
  2. سنت نبویؐ: قرآن کریم میں وضاحت و صراحت نہ ملنے پر سنت نبویؐ سے رجوع کیا جائے گا،
  3. اجماع: سنت نبویؐ میں بھی مسئلے کا واضح حل موجود نہ ہونے کی صورت میں اس مسئلہ پر اگر علمائے کرام اور فقہائے عظام نے پہلے سے کوئی متفقہ یا اکثریتی موقف اختیار کر رکھا ہے تو اسے اختیار کیا جائے گا،
  4. اجتہاد: اور اگر اجماع کی صورت میں بھی مسئلے کا کوئی حل اس سے قبل سامنے نہیں آیا تو اہل علم و اجتہاد شرعی اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے کا حل نکالیں گے اور انہیں اجتہاد کا حق حاصل ہوگا۔

چنانچہ یہ چار دلائل امت کے اہل علم میں متعارف چلے آرہے ہیں۔

اجتہاد مطلق

ابتداء میں قرآن و سنت میں جس مسئلہ کی وضاحت نہ ملتی اس میں علماء کے رائے قائم کرنے کو اجتہاد کہا جاتا تھا۔ مگر بعد میں قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر و تشریح میں الگ الگ نقطۂ نظر کے اظہار اور ان میں سے کسی ایک کو علمی بنیاد پر اختیار کرنے کے عمل کو بھی اجتہاد کے زمرے میں شمار کیا جانے لگا جس سے اجتہاد کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ صحابہ کرامؓ کا دور گزر جانے کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے دور میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اجتہاد کا طریق کار اور اس کے کچھ اصول و ضوابط متعین کیے جائیں۔ چنانچہ حضرت حسن بصریؒ، سفیان ثوریؒ، امام اوزاعیؒ، ابراہیم نخعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام جعفر صادقؒ، امام زیدؒ، امام لیث، اور امام داؤد ظاہریؒ سمیت بیسیوں اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اجتہاد کے اصول وضع کیے اور ان کے مطابق عملی اجتہادات کیے مگر ان میں سے چند بزرگوں کی علمی کاوشوں کو امت میں پذیرائی حاصل ہوئی جس سے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، زیدی وغیرہ فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے جبکہ باقی علمی حلقے آہستہ آہستہ تاریخ کی نذر ہوگئے۔

اجتہاد کے اصول و ضوابط اور قوانین مدون کرنے کو ’’اجتہاد مطلق‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ’’مجتہد مطلق‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ اجتہاد کا ابتدائی دور تھا جب اصول و ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت تھی اور اس پر بیسیوں فقہاء نے کام کیا۔ ان میں سے چند فقہاء کو امت میں قبول عام حاصل ہونے کے بعد یہ ضرورت پوری ہوگئی اور ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا۔ اس معاملہ میں عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ علماء نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ حالانکہ ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ کسی نے بند کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ ایک ضرورت پوری ہوجانے کے بعد خودبخود بند ہوگیا کیونکہ اس کے بعد ازسرنو اجتہاد کے اصول و ضوابط مرتب و مدون کرنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی۔

ہر علم کا یہی معاملہ ہے کہ اس کی ترتیب و تدوین کے ابتدائی دور میں اس کے چند بنیادی قواعد و ضوابط مرتب ہوتے ہیں اور پھر انہی پر آئندہ چل کر اس علم کی مسلسل پیش رفت ہوتی ہے اور ان قواعد و ضوابط کو دوامی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ علم کی مسلسل پیش رفت اور ترقی کے باوجود ان بنیادی قواعد و ضوابط کو ہمیشہ حتمی سمجھا جاتا ہے اور انہیں ری اوپن کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی زبان کی گرامر کے بنیادی قواعد ہی کو لے لیجیے، وہ اب سے بہت پہلے اس دور میں طے ہوگئے تھے جب انہیں طے کرنے کی ضرورت تھی۔ اور جب وہ طے ہو کر گرامر کی بنیاد بن گئے تو انہیں دوامی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ کہہ کر اس زبان کی گرامر کے نئے قواعد مرتب کرنا چاہے گا کہ ہمیں اس کا حق کیوں حاصل نہیں ہے، تو اس کی اس بات کو ارباب علم و دانش میں کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ اسی طرح اصول و ضوابط کے تعین کی حد تک ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا کام خیر القرون میں مکمل ہوگیا تھا اور ضرورت مکمل ہوتے ہی اس کا دروازہ خودبخود بند ہوگیا تھا۔ مگر ان اصولوں کی روشنی میں ’’عملی اجتہاد‘‘ کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور اب بھی ہر فقہی مکتب فکر میں عملی اجتہاد مختلف سطحوں پر ہو رہا ہے۔

’’اجتہاد عملی‘‘ کے لیے اہلیت کا معیار

اجتہاد چونکہ دو قسم کی علمی کاوشوں کا کام ہے:

  1. قرآن و سنت کے احکام کی تعبیر و تشریح اور استنباط و استدلال،
  2. اور نئے پیش آمدہ مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل تلاش کرنا،

اس لیے فقہائے امت نے اس کی اہلیت کی شرائط بھی طے کر دی ہیں اور ہر کس و ناکس کو اس کا حق نہیں دیا کہ وہ اجتہاد کے نام پر دینی مسائل میں رائے دیتا پھرے اور پھر اس کو قبول کرنے پر اصرار بھی کرے۔ ان شرائط پر ایک نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

  1. سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ چونکہ قرآن و سنت اور ان کی تعبیرات و تشریحات کا بیشتر ذخیرہ عربی زبان میں ہے، اس لیے اجتہاد کرنے والے کو عربی زبان پر اس قدر عبور ضرور حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اس ذخیرے سے براہ راست استفادہ کر سکے،
  2. قرآن کریم کی متعلقہ آیات کے شان نزول اور پس منظر کے ساتھ اسے یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ کون سی آیت پہلے نازل ہوئی اور کون سی بعد میں، تاکہ وہ اس آیت کریمہ کا صحیح مصداق اور مفہوم سمجھ سکے،
  3. احادیث نبویہؐ کے ذخیرے تک اس کی علمی رسائی کے ساتھ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کسی حدیث کے صحیح، ضعیف، اور موضوع ہونے کا معیار کیا ہے۔ اور احادیث و واقعات میں تقدیم و تاخیر بھی اس کے علم میں ہو تاکہ وہ کسی بھی حدیث نبویؐ کی صحت و ضعف کے معیار اور اس کے مفہوم و مطلب کو سمجھ سکے،
  4. مختلف مسائل پر اب تک جو اجتہادات ہو چکے ہیں، وہ بھی اس کی نظر میں ہونے چاہئیں تاکہ وہ ان سے استفادہ کر سکے اور کسی مسئلے میں اجماع امت کے دائرے کو توڑنے کا مرتکب نہ ہو۔

یہ وہ چند شرائط ہیں جو منطقی طور پر ہر آدمی کی سمجھ میں آنے والی ہیں اور ان شرائط پر پورا اترے بغیر کسی شخص کو اجتہاد کا حق دینے کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ اسی وجہ سے چند سال قبل جب یہ تجویز سامنے آئی کہ پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق حاصل ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں جو فیصلہ کر دے اسے حتمی قرار دینا چاہیے، اس وقت بھی راقم الحروف نے عرض کیا تھا کہ ہمیں اس تجویز سے اختلاف نہیں ہے۔ آج کے دور میں جو مسائل اجتہاد طلب ہیں ان میں ہم پارلیمنٹ کو فائنل اتھارٹی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے ایک شرط ناگزیر ہے کہ الیکشن رولز میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اجتہاد کی اہلیت کو شرط قرار دے دیا جائے۔ اور اگر اجتہاد کی اہلیت کی شرائط کے بارے میں علمائے کرام کے موقف کو قبول کرنا مشکل ہو تو دو آئینی اداروں (١) وفاقی شرعی عدالت اور (٢) اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کر کے ان سے ان شرائط کا تعین کرا لیا جائے جو آج کے دور میں کسی بھی مسئلے میں شرعی اجتہاد کی اہلیت کے لیے ضروری ہیں۔ اور پھر الیکشن رولز میں ترمیم کر کے ان شرائط کو پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے لازم قرار دے دیا جائے۔

اجتہاد کی اہلیت کا معیار طے کیے بغیر اور اسے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے ضروری قرار دیے بغیر قرآن و سنت کو ترجمہ و تعبیر اور تشریح و اجتہاد کے لیے پارلیمنٹ کے حوالے کر دینا قرآن و سنت کو بازیچۂ اطفال بنانے کے مترادف ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کسی گاڑی کا بونٹ اٹھا کر اسے کسی دینی مدرسے کے طلبہ کے سپرد کر دیا جائے کہ انجن چیک کریں اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کر کے انہیں صحیح کریں۔ اس لیے جناب عابد حسن منٹو سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر وہ اپنی چند لاکھ کی گاڑی کو اس کی مشینری سے ناواقف لوگوں کے سپرد کرنے کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو قرآن اور سنت نبویؐ نے کیا قصور کیا ہے کہ وہ انہیں ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا نعرہ لگا رہے ہیں جو ان کی ابجد تک سے واقف نہیں ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter