اس دفعہ برطانیہ میں ۵ مئی سے ۲۳ مئی تک قیام رہا اور حسب معمول مختلف شہروں میں دینی اجتماعات سے خطاب کے علاوہ احباب سے ملاقاتیں کیں، تعلیمی اداروں کے مشاورتی اجلاسوں میں حاضری ہوئی اور ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی، جس میں آئندہ تین سال کے لیے فورم کے نئے عہدہ داروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ اس کے مطابق مجھے سیکریٹری جنرل کی بجائے سرپرست کی ذمہ داری سونپ دی گئی، جبکہ دوسرے سرپرست لکھنؤ کے مولانا سید سلمان حسینی ندوی اور ڈربن (جنوبی افریقہ) کے ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہیں۔ چیئرمین حسب سابق مولانا محمد عیسیٰ منصوری ہوں گے اور سیکریٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ کو منتخب کیا گیا ہے، جو ہمارے ابتدائی ساتھیوں میں سے ہیں، بھیونڈی (انڈیا) سے تعلق رکھتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور دینی اور فکری سرگرمیوں میں مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین ڈھاکہ سے مولانا سلمان ندوی، لندن سے مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری اور نوٹنگھم سے مولانا رضاء الحق سیاکھوی ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری جناب کامران رعد اور جناب شفیق احمد کو بنایا گیا ہے، رابطہ سیکریٹری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے جناب محمد جعفر ہیں، سیکریٹری اطلاعات مفتی محمد عبد المنتقم سلہٹی چنے گئے ہیں اور سیکریٹری مالیات مولانا عبد الحلیم لکھنوی منتخب ہوئے ہیں۔ ۲۱ مئی کو منتخب مجلس عاملہ کا اجلاس میری موجودگی میں ہوا، جس میں مندرجہ ذیل امور طے پائے:
- ماہانہ فکری نشست کے لندن میں انعقاد کو باقاعدگی کے ساتھ چلایا جائے گا۔
- ”ورلڈ اسلامک فورم“ کے نام سے ایک ویب سائٹ قائم کی جائے گی۔
- ویب سائٹ پر ماہانہ میگزین کا اجراء کیا جائے گا۔
لندن کے بعد میرا دوسرا بڑا پڑاؤ نوٹنگھم میں ہوتا ہے، جامعۃ الہدیٰ میری مشاورت سے قائم ہونے والا ادارہ ہے، جو بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اس سال کے آغاز میں جب وہاں حاضری ہوئی تو طالبات کی ایک کلاس کو انسانی حقوق کے مغربی تصور اور اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے لیکچر دیا تھا، اب مئی میں دوبارہ حاضری کے موقع پر ان کا اصرار تھا کہ انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کو سامنے رکھ کر ان کے سامنے اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کروں۔ چنانچہ میں نے دو طویل نشستوں میں انہیں انسانی حقوق کے مروجہ عالمی منشور اور اسلامی تعلیمات کے درمیان چند واضح فرق تفصیل کے ساتھ بتائے، جبکہ ایک نشست میں قرآن فہمی میں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ضرورت و اہمیت سے انہیں آگاہ کیا۔
یہ افسوسناک خبر مجھے پاکستان میں ہی مل چکی تھی کہ نوٹنگھم کی مدنی مسجد میں دو ہفتے قبل کچھ شرپسندوں نے آگ لگا دی تھی، جس سے مسجد کی بالائی منزل جل گئی تھی۔ مدنی مسجد ہی مدنی ٹرسٹ نوٹنگھم کا بیس کیمپ ہے، جو گلیڈ سٹون اسٹریٹ میں واقع ہے اور جامعہ اسلامیہ نیویارک، جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم اور جامعۃ الہدیٰ شیفیلڈ کی بنیادیں وہیں سے اٹھائی گئی ہیں۔ مدنی مسجد گزشتہ سال سے تعمیرِ نو کے مراحل میں تھی، میں نے جنوری میں اس کی نئی تعمیر کے کام کو دیکھا تھا اور دل بہت خوش ہوا تھا کہ مولانا رضاء الحق سیاکھوی بڑے ذوق اور محنت کے ساتھ مسجد کو نئی شکل دے رہے تھے۔ اپریل میں اوپر کی منزل کی تیاری اور تزئین کا کام مکمل ہو گیا تھا اور اس میں ایک جمعہ کی نماز بھی انہوں نے ادا کر لی تھی۔ ایک رات کو مسجد کی پچھلی جانب سے کچھ شرپسند کھڑکی توڑ کر اندر داخل ہوئے اور بالائی منزل میں رنگ کے لیے پڑے ہوئے ڈبوں کو وہیں اردگرد بکھیر کر آگ لگا دی۔ دھواں اٹھنے سے اردگرد کے لوگ جمع ہوئے، مگر اس وقت تک بالائی منزل کا بیشتر حصہ جل چکا تھا۔ میں نے اسے اس حالت میں دیکھا ہے کہ اب وہ دوبارہ تعمیر کے بغیر استعمال کے قابل نہیں رہی۔ مدنی مسجد کی یہ حالت دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔ اس کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ یہ حرکت کس نے کی ہے، لیکن عام لوگوں کی زبان پر یہ بات ہے کہ یہ نسل پرست گوروں کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
مانچسٹر کے قریب برنلی نامی قصبہ میں بھی ایک مسجد کے ساتھ کم و بیش اس طرح کی کارروائی حال ہی میں ہو چکی ہے۔ جامع مسجد فاروق اعظمؓ برنلی میں، جہاں میں اکثر ٹھہرا کرتا ہوں، کسی نے آگ تو نہیں لگائی مگر اس کی بھی کھڑکیاں توڑی گئی ہیں اور کچھ لوگ کھڑکیاں توڑ کر اندر داخل ہوئے ہیں، البتہ آگ لگانے کی بجائے انہوں نے مسجد کا گلہ توڑنے کی کوشش کی ہے، جو ان سے نہیں ٹوٹا، مگر پیسے ڈال کر فون کرنے والے ٹیلی فون کا ڈبہ توڑنے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں، جس کے بارے میں متعلقہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں سے اس شام کو پیسے نکالے جا چکے تھے، اس لیے ایک آدھ پونڈ کے سوا انہیں کچھ نہ ملا ہو گا۔
اس دفعہ کافی عرصہ کے بعد مجھے ایڈنبرا جانے کا بھی موقع ملا، جو برطانیہ کے ایک صوبے اسکاٹ لینڈ کا دارالحکومت ہے۔ ایڈنبرا میں پیر محل سے تعلق رکھنے والے ہمارے پرانے دوست حافظ عبد المجید صاحب ایک عرصہ سے دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ دفاعِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کا خصوصی مشن ہے، جس کے لیے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ان کے ادارے میں حاضری ہوئی اور ان کے ساتھ گلاسگو کے قریب ایک بستی ”مدردیل“ گیا، جہاں کی جامع مسجد میں ظہر کے بعد مختصر بیان ہوا۔
ایڈنبرا سے چالیس میل آگے ”ڈنز“ میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں میرے ایک بھانجے ڈاکٹر رضوان کی رہائش ہے۔ ڈنز کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ دوسری جنگ عظیم میں یہ برطانیہ کا فوجی کیمپ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہٹلر نے جب پولینڈ پر حملہ کیا تو ہزاروں پولش باشندے ترکِ وطن کر گئے، ان میں سے بہت سے لوگ ڈنز میں آئے اور اپنی خدمات برطانیہ کی فوج کے لیے پیش کر دیں۔ وہ جرمن فوجوں کے خلاف برطانیہ کے دفاع کے لیے لڑے۔ ان میں پائلٹ بھی تھے، جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب جرمن فضائیہ کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے برطانوی فضائیہ بے بس ہو گئی تو پولش پائلٹوں نے خود کش حملوں کے ذریعہ جرمن طیاروں کو روکا۔ وہ برطانوی طیارے اڑاتے اور لڑتے لڑتے جب ہتھیار ختم ہو جاتے تو طیارہ ہی دشمن کے طیارے سے ٹکرا دیتے۔ مقامی حضرات کی زبانوں پر یہ بات عام ہے کہ اگر پولش پائلٹ یہ قربانی نہ دیتے تو برطانوی فضائیہ جرمن فضائیہ کے سامنے بے بس نظر آ رہی تھی اور برطانیہ کا دفاع مشکل ہو چکا تھا۔
میں نے وہاں کے دوستوں سے کہا ہے کہ اگر عام روایت اور کہاوتوں سے آگے بڑھ کر وہ اس کے بارے میں کوئی مستند مواد فراہم کر سکیں تو ان کی عنایت ہو گی۔ ایک دو حضرات نے وعدہ کیا ہے، اگر ان کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی مستند چیز موصول ہوئی تو اپنے قارئین کو ان معلومات میں ضرور شریک کروں گا، ان شاء اللہ۔
برطانیہ میں قیام کے دوران ہی مولانا قاری محمد اختر آف پنجن کسانہ کی وفات کی خبر مل چکی تھی۔ قاری صاحب جمعیت علماء اسلام کے بہت پرانے اور مخلص کارکنوں میں سے تھے، ان کا قلبی تعلق حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت زیادہ تھا اور حضرت درخواستی رحمہ اللہ بھی ان سے بہت شفقت فرماتے تھے۔ جادہ (جہلم) سے تعلق تھا، پھر گجرات ضلع کے قصبہ پنجن کسانہ میں دینی مدرسہ بنایا، جو بچیوں کی تعلیم کے حوالہ سے پورے علاقہ کی مرکزی درسگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ بھرپور مسلکی اور تعلیمی ذوق سے بہرہ ور تھے، مدرسہ کی بہت سے دیہات میں شاخیں قائم کیں اور ہر وقت ان کے انتظام اور ترقی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ دل کے مریض تھے، لیکن بیماری کو انہوں نے اپنی جدوجہد اور سرگرمیوں پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ابھی چند دن ہوئے میرے سسرالی گاؤں گلیانہ کے قریب باغاں والا میں اپنے مدرسہ کی ایک شاخ میں انہوں نے عصری اسکول کا آغاز کیا، اختتامی تقریب میں مجھے بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور وہی ان سے میری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ میری واپسی اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہوئی، اس لیے گوجرانوالہ آتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے پنجن کسانہ میں رکا اور حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور رفقاء سے تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعا کی اور ان کے بعد ان کے قائم کردہ مدارس کے نظم و نسق کے حوالہ سے معلومات حاصل کیں۔
دورہ برطانیہ کے حوالہ سے بعض پہلوؤں پر گفتگو ابھی باقی ہے، امید ہے کہ اگلے ایک دو کالموں میں ان تاثرات و مشاہدات کو بیان کروں گا، ان شاء اللہ۔