جناب رسول کریمؐ کی دس نصیحتیں

   
نامعلوم

ایک دینی محفل میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دس نصائح کا قدرے تفصیل کے ساتھ تذکرہ ہوا جو آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو فرمائی تھیں۔ محفل میں شریک ایک دوست نے خواہش کا اظہار کیا کہ ان نصائح اور ان کے حوالہ سے کی گئی گزارشات کو ضبط تحریر میں بھی آنا چاہیے۔ چنانچہ اسی خیال سے انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے اور صاحب مشکٰوۃ نے بھی اسے نقل کیا ہے کہ حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی بطور خاص نصیحت فرمائی، جو یہ ہیں:

۱۔ اے معاذ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، اگرچہ تجھے جلا دیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔

شرک سب گناہوں سے بڑا گناہ اور سب نافرمانیوں سے بڑی نافرمانی ہے جو اللہ تعالٰی کو کسی حالت میں گوارا نہیں ہے۔ جناب نبی اکرمؐ اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا اولین نکتہ یہی رہا ہے کہ اللہ تعالٰی کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور افعال میں کسی اور کو شریک نہ مانا جائے، حتٰی کہ اگر کسی موقع پر ایک مسلمان کو شرک اور قتل میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو اس کے لیے عزیمت کا راستہ یہی ہے کہ وہ قتل ہونا قبول کر لے مگر اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کرے۔

۲۔ ماں باپ کی نافرمانی ہرگز نہ کرنا اگرچہ وہ تجھے گھربار چھوڑ دینے کا حکم دیں۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے متعدد مقامات پر اپنی توحید اور بندگی کے ساتھ ماں باپ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے جس کی وجہ مفسرین کرامؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس سب سے بڑی دولت اور نعمت اس کی زندگی ہے، اور زندگی دینے والا خدا ہے مگر انسان کے وجود اور زندگی کا ظاہری ذریعہ ماں باپ ہیں۔ اس لیے جس طرح اللہ تعالٰی کا شکر گزار رہنا ضروری ہے اسی طرح ماں باپ کی شکر گزاری بھی واجب ہے اور ماں باپ کا حق یہ ہے کہ جب تک وہ اللہ تعالٰی اور رسولؐ کے کسی واضح حکم کی خلاف ورزی کی بات نہ کریں ان کے حکم کو ماننا شرعاً ضروری ہے۔

۳۔ فرض نماز عمدًا ہرگز ترک نہ کرنا کیونکہ جس نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اللہ تعالٰی کا ذمہ اس سے اٹھ گیا۔

ہر مسلمان مرد اور عورت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں جن کو بلاعذر ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور اگر کوئی فرض نماز رہ گئی ہے تو جب تک اس کی قضا نہیں کرے گا اور توبہ استغفار نہیں کرے گا یہ گناہ معاف نہیں ہو گا۔ اس لیے ہر مسلمان کو نماز کی پابندی کرنی چاہیے۔ جو مسلمان نمازوں کی پابندی کرتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی خصوصی رحمت کی نگرانی اور حفاظت میں آ جاتا ہے اور جب کوئی شخص جان بوجھ کر فرض نماز ترک کرتا ہے تو یہ حفاظت اس سے اٹھ جاتی ہے۔

۴۔ شراب ہرگز نہ پینا اس لیے کہ یہ ہر برائی کی جڑ ہے۔

شراب کو قرآن کریم نے ’’گندگی‘‘ کہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے ’’ام الخبائث‘‘ قرار دیا ہے۔ شراب اسلام میں حرام ہے اور شراب کی طرح ہر وہ چیز حرام ہے جو نشہ دیتی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ نشہ دینے والی ہر چیز حرام ہے اور اس کا استعمال کبیرہ گناہ ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسی گندگی سے خود کو دور رکھے اور شراب سمیت نشہ والی کوئی چیز استعمال نہ کرے۔

۵۔ نافرمانی سے بچ کر رہنا اس لیے کہ نافرمانی اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔

یہاں نافرمانی سے مراد کسی انسان کا وہ عمومی رویہ ہے جو وہ احکام الٰہی کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ کسی فریضہ میں اچانک کوتاہی ہو گئی ہے یا کسی شرعی حکم پر عمل نہیں ہو سکا تو یہ گناہ کی بات ہے اور اس کی تلافی اور معافی کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن شرعی احکام کے بارے میں کسی کا عمومی طرزعمل ہی یہ ہو گیا ہے کہ نہ ماننے اور عمل نہ کرنے کا مزاج بن گیا تو ایسا شخص ’’نافرمان‘‘ کہلاتا ہے اور اللہ تعالٰی کی ناراضگی کا مستوجب قرار پاتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو اپنے عمومی طرزعمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ قرآن و سنت کے احکام اور ہدایات کے حوالہ سے ہمارا رویہ کیا ہے اور ایسے طرزعمل سے گریز کرنا چاہیے جس پر نافرمانی کا اطلاق ہو سکے۔

۶۔ میدان جنگ سے فرار اختیار نہ کرنا اگرچہ لوگ ہلاک ہو رہے ہوں۔

جہاد اور اس میں ثابت قدمی دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور میدان جہاد میں دشمن سے لڑتے ہوئے موت کے خوف سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے جس کی قرآن کریم نے مذمت کی ہے۔ اس لیے کہ موت اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے جو اپنے وقت پر ہر حالت میں آ کر رہے گی اور جہاد سے بھاگنا دراصل اللہ تعالٰی کے حکم سے بھاگنا ہے جو شدید ترین نافرمانی ہے۔ البتہ جنگی حکمت کے تحت جگہ بدلنا اور عسکری ضرورت کے تحت پیچھے ہٹنا اس میں شامل نہیں ہے۔

۷۔ جب کسی جگہ موت کی وبا ہو اور تم وہاں ہو تو ثابت قدم رہو۔

شرعی مسئلہ یہ ہے اور جناب نبی اکرمؐ کی ہدایت ہے کہ اگر کسی جگہ ایسی وبا پھیل جائے کہ عام موتیں ہو رہی ہوں مثلاً ہیضہ اور طاعون وغیرہ تو وہاں رہنے والوں میں سے کوئی باہر نہ جائے، اور نہ ہی باہر سے کوئی وہاں جائے۔ اس پس منظر میں نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر ایسی صورتحال پیش آ جائے تو اللہ تعالٰی کے حکم اور تقدیر پر صابر و شاکر رہتے ہوئے وہاں سے فرار اختیار نہ کیا جائے۔

۸۔ اہل و عیال پر اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔

گھر کے سربراہ پر اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری ہے اور بیوی بچوں اور زیر کفالت افراد کے اخراجات اس کا ذمہ ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہدایت یہ ہے کہ اس کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں، اگر وہ اپنی حیثیت اور وسعت سے کم خرچ کرتا ہے اور ضروریات فراہم نہیں کرتا تو وہ بیوی بچوں کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اور اگر بیوی بچے اس کی حیثیت اور طاقت سے زیادہ کا اس سے مطالبہ کرتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں حقیقت پسندی اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس سلسلہ میں کوتاہی ہوتی ہے جس سے خاندان اور معاشرت کے نظام میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اگر ہم سب اپنے اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق میانہ روی اور توازن اختیار کریں تو بے شمار مسائل سے خودبخود جان چھوٹ جائے۔

۹۔ گھر والوں سے اپنے ادب کا ڈنڈا نہ اٹھاؤ۔

یہ محاورہ کی زبان میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اس کا رعب گھر کے ماحول میں قائم رہنا چاہیے تاکہ گھر کا نظام صحیح طریقہ سے چلتا رہے اور کوئی خرابی نظر آئے تو وہ اس کی اصلاح کر سکے۔ ضروری نہیں کہ ڈنڈا ہاتھ میں لے کر گھر والوں پر برساتا ہی رہے، اصل مقصد گھر کے نظام کا کنٹرول اور اس کے ذریعے خرابیوں کی اصلاح اور نظام کو صحیح طور پر چلانا ہے، جو حکمت و دانش اور محبت و اعتماد کی فضا میں زیادہ مؤثر طریقہ سے قائم ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بھر کسی بیوی، بچے حتٰی کہ خادم پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا اور محبت و اعتماد کے ساتھ گھر کے نظام کو کنٹرول میں رکھا ہے۔ البتہ کبھی اشد مجبوری ہو اور اصلاح کے دیگر ذرائع ناکام ہو جائیں تو بقدر ضرورت ڈنڈے کے استعمال کی بھی گنجائش موجود ہے۔

۱۰۔ اور ان کو اللہ تعالٰی کے معاملات میں ڈراتے رہو۔

یعنی بیوی بچوں اور زیرکفالت افراد کے بارے میں گھر کے سربراہ کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان کو کھلائے پلائے اور ان کی ضروریات زندگی کی کفالت کرے۔ بلکہ یہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ ان کی دینی تعلیم و تربیت، اخلاق و عادات کی اصلاح اور ایمان و عقیدہ کی درستگی و پختگی کا خیال رکھے۔ کیونکہ اگر گھر کے سربراہ کی غفلت اور بے پرواہی کی وجہ سے گھر کے افراد دین سے دور رہیں گے، ان کے عقائد خراب ہوں گے، اعمال و عبادات میں کوتاہی ہو گی اور اخلاق و عادت میں بگاڑ ہو گا تو ان کے گناہ اور ذمہ داری میں وہ بھی شریک شمار ہو گا۔ اس لیے اس طرف بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter