سلمان ندوی کے نام سے تین بزرگ ہمارے حلقہ میں معروف ہیں اور میری تینوں سے نیاز مندی ہے۔ ان میں سب سے سینئر ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہیں، جو تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے فرزند گرامی ہیں، قدیم و جدید علوم دونوں پر دسترس رکھتے ہیں، ایک عرصہ تک جنوبی افریقہ کی ڈربن یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ رہے ہیں اور اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، پاکستان تشریف لاتے رہتے ہیں، ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرستوں میں سے ہیں، برطانیہ اور پاکستان میں فورم کی متعدد تقریبات میں شریک ہو چکے ہیں، گزشتہ سال جامعۃ الرشید کراچی میں کلیۃ الشریعۃ کے نصاب کے حوالے سے منعقد ہونے والے سیمینار میں شریک ہوئے اور وقیع خطاب فرمایا۔
ان کے ساتھ پہلی ملاقات لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر ہوئی جب وہ ورلڈ اسلامک فورم کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ سے تشریف لائے۔ ایئر پورٹ میں انہیں وصولی کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد تھی، مگر نہ میں نے انہیں اس سے قبل دیکھ رکھا تھا اور نہ ہی وہ مجھ سے متعارف تھے، ہم نے ایک دوسرے کے بارے میں دوستوں سے سن سنا کر اندازے قائم کر رکھے تھے۔ وہ اپنی فلائٹ سے اتر کر تھوڑی دیر لاؤنج میں گھومتے رہے، پھر مجھے دیکھ کر میری طرف تشریف لائے اور کہا کہ آپ شاید مجھے لینے کے لیے آئے ہیں، میں سلمان ندوی ہوں۔ میں نے ہاں کہا اور ہم دونوں گلے مل گئے۔ مجھے ان کے بارے میں اس قدر سادگی کا اندازہ نہیں تھا اور اس معاملے میں باہمی ہم آہنگی دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ایک موقع پر گوجرانوالہ بھی تشریف لا چکے ہیں اور الشریعہ اکادمی کے معائنہ کے ساتھ انہوں نے مرکزی جامع مسجد میں ایک اجتماع سے خطاب بھی کیا۔
دوسرے سلمان ندوی مولانا سید سلمان الحسینی ہیں جو لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے خاندان سے ہیں اور ان کے علمی وارث و جانشین بھی ہیں، عالم اسلام اور عرب دنیا میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے بعد اس حلقہ کی نمائندگی وہی کرتے ہیں، اردو اور عربی دونوں زبانوں کے قادر الکلام اور پرجوش خطیب ہیں۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی عربی زبان میں فصاحت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ وہ لندن تشریف لائے تو ان کا خطاب سننے کے لیے سعودی عرب کے ممتاز دانشور ڈاکٹر محمد المسعری بھی آئے جو سعودی عرب میں انسانی اور شرعی حقوق کی تحریک کے علمبردار ہیں اور لندن میں سیاسی پناہ گزین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے عرب مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے خطاب میں ان کی فصاحت سے لطف اندوز ہونے کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ مولانا سید سلمان الحسینی کی گفتگو میں بھی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی اس فصاحت کا رنگ جھلکتا ہے، یہ سلمان ندوی بھی ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرستوں میں شمار ہوتے ہیں، لندن اور برطانیہ کے متعدد شہروں میں فورم کے درجنوں اجتماعات سے خطاب کر چکے ہیں اور دو سال قبل ڈھاکہ کے ایک پروگرام میں بھی ہمارے ساتھ شریک تھے۔
ابھی عید الفطر کے بعد مجھے ایک ہفتہ کے لیے متحدہ عرب امارات جانے کا موقع ملا تو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مولانا سلمان الحسینی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے بیروت گئے ہوئے ہیں اور واپسی پر دو روز کے لیے دوبئی رکیں گے۔ حسن اتفاق سے ان میں ایک دن میرے متحدہ عرب امارات میں قیام کا آخری دن بھی تھا۔ میں نے وہ دن اپنے میزبانوں سے کہہ کر دیگر مصروفیات سے خالی کرا لیا کہ ایک روز ہم دوبئی میں اکٹھے گزاریں گے۔ ان کی دوبئی آمد کی اطلاع بھی اچانک اور اتفاقیہ طور پر ملی۔
دوبئی میں مرکز جمعہ الماجد کے نام سے ایک بڑا علمی مرکز ہے، الشیخ جمعہ الماجد متحدہ عرب امارات کے بڑے تاجروں میں سے ہیں اور علمی و ثقافتی ذوق سے بہرہ ور ہیں ، ان کے قائم کردہ اس علمی مرکز کی لائبریری قابلِ دید اور قابلِ داد ہے۔ اس میں چھ لاکھ کے لگ بھگ کتابوں کا ذخیرہ ہے اور ہزاروں قلمی مخطوطات کی حفاظت اور ان سے استفادہ کا نظام موجود ہے، پرانی اور نایاب کتابوں کو حاصل کر کے ان کے نسخوں کی نئی جلد بندی اور حفاظت کے دیگر انتظامات کے ساتھ انہیں کمپیوٹرائزڈ بھی کیا جا رہا ہے اور کتابوں کے تحفظ اور ان سے استفادہ کا دوہرا سسٹم قائم کیا گیا ہے۔ الشیخ جمعہ الماجد کے ذوق کے بارے میں احباب بتاتے ہیں کہ کسی بڑے عالم کی وفات پر ان کی ذاتی لائبریری کو ان کے ورثاء سے خرید کر اپنے مرکز میں لے آتے ہیں اور ان کے نام سے لائبریری کا ایک حصہ مخصوص کر دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ ہمارے شیخ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ کی لائبریری بھی مرکز جمعہ الماجد نے خرید لی ہے۔ مجھے جب بھی دوبئی جانے کا موقع ملتا ہے اس مرکز میں ضرور حاضری دیتا ہوں۔ اس بار یہ حاضری اس نیت سے تھی کہ استاذ محترم حضرت الشیخ ابو غدۃ کی ذاتی لائبریری کی کتابوں کی زیارت کروں گا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شیخ رحمہ اللہ کی حلب والی لائبریری جو ان کی اصل لائبریری ہے اور بہت بڑی ہے، وہ نہیں خریدی جا سکی، البتہ ریاض میں قیام کے دوران انہوں نے جو ذاتی لائبریری بنائی تھی وہ خرید لی گئی ہے اور مرکز جمعہ الماجد میں محفوظ کر لی گئی ہے۔ ان میں سے چند کتابوں کی زیارت ہوئی اور باقی کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ مرمت اور نئی جلد بندی کے لیے متعلقہ حضرات کے پاس ہیں۔
اس بار مرکز جمعہ الماجد میں ہمارا خیر مقدم کرنے والے نوجوان فاضل مولانا محمد ہاشم تھے، جو انڈیا کے ایک قصبہ بھٹکل سے تعلق رکھتے ہیں، ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم یافتہ ہیں اور مولانا سید سلمان الحسینی کے خصوصی شاگردوں میں سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سلمان صاحب بیروت گئے ہوئے ہیں اور واپسی پر دوبئی رکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چھ نومبر کا دن ہم نے تقریباً اکٹھے گزارا، دوپہر کو میرے میزبان محمد فاروق شیخ کے ہاں شارجہ میں کھانے میں شریک ہوئے، جبکہ شام کو مولانا محمد ہاشم نے دوبئی کی ایک مسجد میں چند خصوصی احباب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا، جس میں دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالے سے مولانا سید سلمان الحسینی اور راقم الحروف نے گفتگو کی۔ مولانا سید سلمان الحسینی الندوی سے بیروت کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی، وہ وہاں ایک کانفرنس میں شریک ہو کر واپس آئے تھے اور بہت سے عرب علماء اور دانشوروں سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ عرب ممالک کے دینی حلقوں میں لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل کی ہزیمت پر اطمینان اور خوشی کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن عراق کی فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں متوقع سنی شیعہ کشمکش، بلکہ خانہ جنگی کے خطرات نے انہیں سخت اضطراب سے دو چار کر رکھا ہے اور اس کے امکانات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس سال شعبان کے دوران مولانا سلمان الحسینی لندن میں میرا انتظار کرتے رہے، مگر میں نہ جا سکا اور دوبئی کی اس اچانک ملاقات نے اس محرومی کی کسی حد تک تلافی کر دی۔
تیسرے سلمان ندوی ڈھاکہ سے تعلق رکھتے ہیں، ڈھاکہ کے علاقہ میر پور میں دار الرشاد کے نام سے ایک معیاری دینی درس گاہ چلا رہے ہیں، جس کا نظام و نصاب باقی دینی مدارس سے مختلف ہے۔ وہ میٹرک پاس طلبہ کو پانچ سال میں درس نظامی کا ضروری نصاب پڑھا کر دورہ حدیث سے فارغ کر دیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے فضلاء فارغ ہونے کے بعد دینی مدارس کا رخ کرنے کی بجائے دیگر شعبوں میں جائیں، تاکہ قومی زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی دینی تعلیم سے بہرہ ور حضرات کھپ سکیں۔ یہ سلمان ندوی ہمارے ورلڈ اسلامک فورم کے نائب صدر ہیں اور فورم کی ورکنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے دارالرشاد کے ساتھ ”سید ابو الحسن علی ندوی ایجوکیشن سینٹر“ کے نام سے ایک نئے علمی مرکز کا آغاز کیا تھا، جس کی افتتاحی تقریب میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور ۔۔۔۔۔
لکھنؤ کے فضلاء کو دو سال کا خصوصی کورس کراتے ہیں اور کم و بیش وہی مضامین قدرے تفصیل کے ساتھ ان کے نصاب میں شامل ہیں جو ہمارے ہاں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں درس نظامی کے فضلاء کو ایک سالہ کورس میں پڑھائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک بڑے تعلیمی مرکز ”ادارہ علوم اسلامی“ کے سالانہ اجتماع میں حاضری ہوئی تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ڈھاکہ والے مولانا سلمان ندوی بھی ادارہ علوم اسلامی کے مہتمم مولانا فیض الرحمٰن عثمانی کی خصوصی دعوت پر تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اسی سال جون کے دوران لندن میں ان سے ملاقات ہوئی تھی، اب اس دوبارہ ملاقات پر بہت خوشی ہوئی۔
۲۴ نومبر کو میری گزارش پر گوجرانوالہ تشریف لائے، مرکزی جامع مسجد میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا، مغرب کے بعد الشریعہ اکادمی کی ایک خصوصی نشست میں علماء کرام اور اساتذہ کے ساتھ تعلیمی امور پر تفصیلی بات چیت کی اور احباب نے ان سے بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے نصاب و نظام اور طریق کار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ عشاء کے بعد انہوں نے جامعہ قاسمیہ میں درس دیا اور مولانا قاری گلزار احمد قاسمی کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں علماء کرام کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا اور ہفتہ کو صبح مدرسہ نصرۃ العلوم میں مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم سے ملاقات کے بعد لاہور روانہ ہو گئے۔
عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ یہ تینوں ”سلمان“ ندوی ہیں، تعلیمی اور فکری معاملات میں ہمارے ہم ذوق ہیں اور ہمیں تینوں سے وقتاً فوقتاً استفادہ کا موقع ملتا رہتا ہے۔