ان دنوں اسرائیلی حکومت اور یاسر عرفات کی سربراہی میں قائم نیم خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امریکہ کی کوششوں سے ہونے والے ’’میری لینڈ امن سمجھوتہ‘‘ پر عملدرآمد کے لیے پیشرفت ہو رہی ہے۔ جس کے تحت اسرائیل کو دریائے اردن کا مغربی کنارہ خالی کرنا ہے اور اس کے بعد فلسطینی حکومت کے باقاعدہ قیام کی بات آگے بڑھے گی۔ مگر اسرائیلی حکومت نے اس معاہدہ کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود اسے سبوتاژ کرنے کی کاروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔
چنانچہ ایک طرف اسرائیلی پارلیمنٹ نے اس سمجھوتہ کی منظوری دے دی ہے اور دوسری طرف اسرائیلی کابینہ نے یہودیوں سے کہا ہے کہ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جتنی زیادہ زمین پر قبضہ کر سکتے ہیں کر لیں۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیں اس علاقے سے مذکورہ معاہدے کے تحت واپس چلی جائیں تو بھی اس خطے پر زیادہ سے زیادہ یہودی آباد ہوں تاکہ فلسطینی حکومت کے قائم ہونے کے بعد اس کے لیے مشکلات بدستور قائم رہیں۔
یاسر عرفات نے ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے اس فیصلے کو سمجھوتے سے انحراف قرار دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے سمجھوتے پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا تو وہ آزاد فلسطینی حکومت کے یکطرفہ اعلان پر مجبور ہوں گے۔
جبکہ اس صورتحال کے بارے میں فلسطین کے دینی حلقوں اور جہادی تحریکات کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ’’ملی بھگت‘‘ ہے، جس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے نام پر ایک ایسا حل مسلط کیا جا رہا ہے جس میں اسرائیلی مفادات پوری طرح محفوظ رہیں گے، اور فلسطینی عوام کو ایک ’’لولی لنگڑی‘‘ حکومت دے کر بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی بساط کو لپیٹ دینے کی کوشش کی جائے گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک بیت المقدس کو یہودیوں کے تسلط سے آزاد کرانے، اور فلسطینی عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کے علاقے مکمل طور پر واپس کرنے کی کوئی واضح صورت سامنے نہیں آتی، اس قسم کے کسی سمجھوتے سے نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کا قیام ممکن ہے۔ اس لیے عرب ممالک اور مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ امریکہ سے جھوٹی توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اپنے اندر اتحاد پیدا کریں اور بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کے لیے باوقار اور جرأتمندانہ موقف طے کر لیں۔