’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں‘‘

محترمہ سرفراز اقبال صاحبہ کو اس بات پر بہت کوفت ہوئی ہے کہ وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے اپنے حالیہ متنازعہ انٹرویو کے بارے میں مولویوں کی بیان بازی سے متاثر ہو کر صفائی دینے کی طرز اختیار کی ہے۔ محترمہ کا خیال ہے کہ مولوی کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور حکمرانوں کو جو بات ان کی سمجھ میں آئے کر گزرنی چاہیے۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے، بلکہ ارشادات کا عنوان ہے کہ ’’اسلام کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘ اس لیے کسی کو اسلام کے غم میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جون ۲۰۰۰ء

خلافتِ عثمانیہ اور مولانا احمد رضا خانؒ

مجھے عباسی صاحب موصوف کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ سلطنت اور خلافت میں فرق کرتے تھے اور ترکی کے عثمانی حکمرانوں کو مسلم سلاطین کے طور پر تسلیم کرتے تھے مگر انہیں خلیفہ اور امیر المومنین نہیں سمجھتے تھے۔ اور مولانا احمد رضا خانؒ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرنے والے شریف مکہ حسین بن علی کی حمایت کی تھی۔ مگر عباسی صاحب کی اس بات سے مجھے اتفاق نہیں ہے کہ خود عثمانی حکمرانوں نے بھی خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جون ۲۰۰۰ء

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا سب سے بڑا امتیاز و اختصاص یہ تھا کہ وہ قومی صحافت کے اتنے بڑے نقار خانے میں اہل حق کی نمائندگی کرنے والی ایک مضبوط اور توانا آواز کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا یہی امتیاز مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جیسے عظیم محدث کے نزدیک انہیں ماموں کانجن سے اٹھا کر کراچی میں لا بٹھانے کا باعث بنا تھا۔ اور یہی امتیاز میرے جیسے کارکن کے لیے ان کے مرثیہ کا سب سے بڑا عنوان ہے۔ وہ آج کی صحافتی زبان کو سمجھتے تھے، اس کی کاٹ کو محسوس کرتے تھے، اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۲۰۰۰ء

عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق

(۱) عقائد: جن کی بنیاد وحی الٰہی اور نص قطعی پر ہے اور ان میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (۲) عقائد کی تعبیر و تشریح: جن کی بنیاد میسر معلومات اور دائرہ تحقیق پر ہے اور اس معاملہ میں اہل علم کی رائے آپس میں مختلف ہو سکتی ہے۔ (۳) افکار و نظریات: جن کی بنیاد انسان کی فکر و نظر پر ہے اور ان میں ہر وقت حرکت قائم رہتی ہے۔ کسی بھی شخص کی فکر یا نظریہ کبھی حرف آخر نہیں ہوتا اور شعور و آگہی کے دائرہ میں وسعت کے ساتھ افکار و نظریات میں ارتقاء کا سلسلہ بھی کسی تعطل کے بغیر جاری رہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ مئی ۲۰۰۰ء

غیرت کا جذبہ اور اس کی شرعی حدود

ان دنوں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کا خاص موضوع ہیں اور قتل کی ان وارداتوں کے حوالہ سے غیرت کا لفظ اور اس کا مفہوم بھی مسلسل زیر بحث ہے۔ ’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ اپریل ۲۰۰۰ء

قانون اور سیرتِ حضرت علیؓ

حضرت علیؓ کا یہ ارشاد ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جب ملعون ابن ملجم نے قاتلانہ حملہ میں انہیں زخمی کر دیا تو وہ موت و حیات کی کشمکش میں تھے۔ جبکہ ابن ملجم پکڑا جا چکا تھا۔ حضرت علیؓ نے اس حال میں بھی اپنے بیٹے حضرت حسنؓ کو تلقین کی کہ اسے کچھ کہنا نہیں اور نہ ہی کوئی اذیت دینی ہے اس لیے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ اگر میں زندہ رہا تو یہ فیصلہ میں خود کروں گا کہ اسے معاف کرنا ہے یا سزا دینی ہے۔ لیکن اگر میں ان زخموں میں شہید ہوگیا تو پھر تمہیں اس سے قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ اپریل ۲۰۱۶ء

امیر و غریب کا فرق اور اسلامی تعلیمات

اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ یہ دنیا ضروریات پوری کرنے کی حد تک ہے، خواہشات کا پورا کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ آج تک کسی انسان کی خواہشات اس دنیا میں پوری ہوئی ہیں اور نہ پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تمام انسان ضروریات کے دائرہ میں رہیں گے تو اس دنیا کے موجودہ وسائل سے سب کا گزارہ ہوتا رہے گا۔ لیکن جونہی کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ توڑ کر خواہشات کی تکمیل کے خیال سے وسائل ذخیرہ کرنا شروع کر دیں گے تو ان چند لوگوں کی یہ ادھوری خواہشات بہت سے لوگوں کی حقیقی ضروریات کا خون کر دیں گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اپریل ۲۰۰۰ء

خلافت راشدہ کا نظام اور ہماری موجودہ حالت

نعت خواں نے نظم پڑھی جس میں امیر المومنین حضرت عمرؓ کے مناقب ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی گئی کہ یا اللہ! حضرت عمرؓ کو ایک بار پھر ہم میں بھیج دے۔ میں نے اپنے خطاب میں نعت خواں سے کہا کہ بھئی ہم اس قابل نہیں ہیں، اس لیے کہ حضرت عمرؓ بالفرض ہم میں دوبارہ آ جائیں تو ہم میں سے کوئی ان کے نزدیک نہ مسلمان قرار پا سکے گا اور نہ ہی ان کے کوڑے سے بچے گا۔ اس لیے اتنا اونچا ہاتھ مت مارو۔ بس سلطان شمس الدین التمشؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ، اور سلطان محمد فاتحؒ جیسے حکمرانوں کے ساتھ گزارہ کر لو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۱۹۹۹ء

محترم راجہ انور کی چند غلط فہمیاں

جہاں تک اختلاف رائے کا تعلق ہے میں اس کا حق ہر صاحب الرائے کے لیے تسلیم کرتا ہوں، پھر وہی حق اپنے لیے کسی رو رعایت کے بغیر مانگتا ہوں اور اسے بے جھجھک استعمال بھی کرتا ہوں۔ راجہ صاحب محترم کو یہ غلط فہمی ہے کہ اہل دین کج بحث ہوتے ہیں اور کسی منطق اور استدلال کے بغیر محض تقدس اور احترام کے زور پر اپنی بات منوانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے ان کا واسطہ کبھی کسی کج بحث سے پڑ گیا ہو، ورنہ جہاں تک دین کے اصولوں کا تعلق ہے ان کی بنیاد ہمیشہ استدلال اور جائز حدود میں اختلاف رائے کے احترام پر رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم اپریل ۲۰۰۰ء

قائد اعظم محمد علی جناح اور مصطفٰی کمال اتاترک

مصطفی کمال اتاترک نے اسلامی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے لیے ناکام اور ناکافی قرار دیتے ہوئے ترکی میں شرعی قوانین اور شرعی عدالتوں کا خاتمہ کر دیا اور مغربی قوانین اور نظام مختلف شعبوں میں نافذ کیے۔ جبکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مغربی نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے اسلامی نظام کو پاکستان کی منزل قرار دیا اور اس کے لیے مسلمانوں کو منظم کیا۔ اور اس طرز فکر و نظریہ اور ہدف و مقصد کے لحاظ سے دونوں لیڈروں کا رخ ایک دوسرے سے بالکل الٹ دکھائی دے رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ نومبر ۱۹۹۹ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter