بلوچستان، ایک لمحہ فکریہ

   
۱۵ مارچ ۱۹۷۴ء

گورنر بلوچستان خان احمد یار خان نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ وزیراعظم بھٹو بے پناہ مصروفیات کے باعث وعدہ کے مطابق ۲۵ فروری کو بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں کسی فیصلہ کا اعلان نہیں کر سکے، اب وہ یکم اپریل تک یہ اعلان کر دیں گے۔ گورنر نے یہ بھی کہا ہے کہ نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) لیڈروں کے خلاف مقدمات سابق گورنر اکبر بگتی کی سفارش پر قائم کیے گئے تھے۔

ادھر ہفت روزہ ندائے بلوچستان کوئٹہ کے مطابق سابق گورنر اکبر بگتی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیپ لیڈروں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے تھے تاکہ ان کی نشستیں خالی قرار دے کر ان کی جگہ پیپلز پارٹی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی کے لیے ’’منتخب‘‘ کرایا جا سکے۔ بگتی صاحب نے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی دھاندلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان زبردست دھاندلیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں الیکشن کی بجائے سلیکشن کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔

بلوچستان کے سابق اور موجودہ گورنروں کے ان بیانات کے علاوہ صوبائی وزیرصحت میاں محمد حسن شاہ کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام گوجرانوالہ کے کارکنوں کی گفتگو کی اس رپورٹ کا ذکر بھی نامناسب نہ ہوگا جو ترجمان اسلام کے اسی شمارہ میں شائع ہو رہی ہے۔ یہ تینوں حضرات نیپ جمعیۃ حکومت کی برطرفی کے بعد بلوچستان کی سیاسی حکمت عملی میں بھٹو صاحب کے شریک کار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی آراء و تاثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خان احمد یار خان، اکبر خان بگتی اور میاں محمد حسن شاہ کی ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی سیاسی صورتحال کا جو نقشہ سامنے آتا ہے اسے ہم مختصرًا یوں بیان کر سکتے ہیں کہ:

  • بھٹو صاحب بلوچستان اسمبلی میں ’’نیپ جمعیۃ‘‘ پارلیمانی پارٹی کی اکثریت کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کا اعتراف مری مذاکرات میں خود بھٹو صاحب بھی کر چکے ہیں۔
  • مری، مینگل، بزنجو اور بگتی قبائل کی جمہوری جدوجہد کو طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود دبایا نہیں جا سکا اور صوبہ کی غیر آئینی حکومت کو سنگینوں کے سائے کے بغیر اپنا وجود تک موہوم دکھائی دے رہا ہے۔
  • ارکان اسمبلی کو لالچ کے ذریعہ ورغلانے میں مکمل ناکامی کے بعد ان پر جھوٹے مقدمات چلا کر ان کی نشستوں کو جبرًا خالی کیا جا رہا ہے۔ اکبر بگتی (جن کے دور میں یہ مقدمات قائم ہوئے تھے) کے اعترافِ حقیقت کے بعد ان مقدمات کے بے بنیاد ہونے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
  • جبرًا سیٹیں خالی کرانے کے بعد جو انتخابات کرائے جا رہے ہیں، زبردست دھاندلیوں کے باعث ان کی حیثیت سلیکشن سے زیادہ کچھ نہیں۔
  • بھٹو صاحب بلوچستان کے سیاسی حل کے بارے میں بار بار وعدوں کے باوجود فیصلہ کا اعلان کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اس فیصلہ کے لیے کسی ’’خاص وقت‘‘ کا انتظار ہے۔

بلوچستان کی اس صورتحال کا جب ہم ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کی حکمت عملی سے موازنہ کرتے ہیں تو ان دونوں میں امتیاز کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اور ان کی حیرت انگیز مماثلت سے جنم لینے والا یہ کربناک تاثر بار بار ذہن کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کہ ۱۹۷۱ء کا مشرقی پاکستان اور ۱۹۷۴ء کا بلوچستان کہیں کسی ایک ہی نازنین کی اٹھکیلیوں کا شکار تو نہیں؟ ذرا ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان کی تلخ یاد تھوڑی دیر کے لیے ذہن میں تازہ کیجئے:

  • ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ،
  • اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کا اعلان،
  • عوام کے انتخابی فیصلہ کو مسترد کر کے فوجی حل کا اقدام،
  • منتخب ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کر کے ضمنی انتخابات کے نام سے ریوڑیوں کی تقسیم،
  • سیاسی حل سے بار بار انکار اور فوجی طاقت کے اندھادھند استعمال پر اصرار،
  • اور سلامتی کونسل میں سیاسی حل کی بحث کے موقع پر بھٹو صاحب کو کسی ’’خاص وقت کا انتظار۔

کیا ۱۹۷۱ء کا مشرقی پاکستان انہیں تلخ یادوں سے عبارت نہیں؟ ان تلخ یادوں کے ساتھ اب بلوچستان میں بھٹو صاحب کی حکمت عملی پر ایک بار پھر نگاہ ڈال لیجئے اور سوچیئے کہ آخر بلوچستان کو ۱۹۷۱ء کے مشرقی پاکستان کے نقش قدم پر چلنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟

اس موقع پر ہم بھٹو صاحب سے کچھ عرض کرنا تو لاحاصل سمجھتے ہیں، البتہ ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں سے یہ ضرور گزارش کریں گے کہ وہ مسئلہ بلوچستان کی نزاکت کا احساس کریں اور اس کے جمہوری اور سیاسی حل کو قدم بہ قدم پیچھے دھکیلنے والے ہاتھ کو اس وقت سے پہلے پکڑ لیں جب یہ سیاسی حل بھی ہماری دسترس سے باہر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ وہ دن ہمیں نہ دکھائیں، آمین یا الہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter