اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات

حضرات طلبہ کرام! یہ تین دن کا جو پروگرام ہے، اس میں گفتگو کا عنوان آپ حضرات کے علم میں ہو گا: ’’اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات‘‘۔ آج دنیا میں انسانی حقوق کے اس اعلامیہ کے حوالہ سے بہت سے علمی، فکری، دینی مسائل چل رہے ہیں اور ایک غزوِ فکری، نظریاتی جنگ، جس کو ثقافتی جنگ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ سولائزیشن وار ہے۔ اس کو عقیدے کی جنگ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ تا ۲۱ فروری ۲۰۰۸ء

’’شرائع الٰہیہ اور انسانی تمدن کا باہمی تعلق: فکرِ شاہ ولی اللہؒ کی روشنی میں‘‘

حضرت شاہ صاحبؒ کے اس فکر و فلسفہ کو مختلف اوقات میں جن اکابر علماء کرام نے اپنے مطالعہ و تحقیق اور تدریس و اشاعت کا موضوع بنایا، ان میں ہمارے عمِ محترم استاذ گرامی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ بانئ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ بھی ہیں، جن سے ہزاروں علماء کرام نے استفادہ کیا اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم و افکار کی خدمت کے لیے خود کو پیش کیا، جن میں ان کے پوتے، مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی مہتمم جامعہ کے فرزند اور راقم الحروف کے نواسے حافظ محمد خزیمہ خان سواتی سلّمہ بھی شامل ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ دسمبر ۲۰۲۴ء

’’اسلام اور انسانی حقوق: اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے تناظر میں‘‘

جامعہ انوار القرآن کے شعبہ تخصص اور دارالافتاء کے سربراہ مولانا مفتی حماد اللہ وحید حفظہ اللہ تعالیٰ ایک با ذوق اور باہمت عالمِ دین ہیں۔ ان کی ہمیشہ خواہش بلکہ اصرار رہتا ہے کہ میں جب بھی انوار القرآن میں آؤں، تخصص کے طلبہ کے ساتھ نشست میں کسی نہ کسی موضوع پر ان سے ضرور بات کروں، اور میں بحمد اللہ تعالیٰ ان کے اس ارشاد کی حتی الوسع تعمیل بھی کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ اکتوبر ۲۰۱۱ء

دینی مدارس کا مقدمہ

آج اخبارات میں آپ نے خبر پڑھی ہو گی کہ حالیہ آئینی ترامیم کے دوران دینی مدارس کے بارے میں ایک قانونی بل قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کیا تھا، اس کا ملک بھر کے دینی حلقوں نے تمام مکاتب فکر نے خیر مقدم کیا لیکن صدر محترم آصف علی زرداری نے وہ بل اعتراض لگا کر واپس کر دیا ہے اور اس پر ملک میں ایک تحریک کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ آئینی ترامیم میں کیا ہوا؟ بل واپس کیوں ہوا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ دسمبر ۲۰۲۴ء

’’تخلیقِ عالم‘‘

حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے جن کی ساری زندگی دینی تعلیم و تدریس میں گزری اور انہوں نے اپنی اگلی نسل کو بھی دینی خدمات کے لیے تیار کیا اور ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو تاریخ میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار کا ایک مستقل عنوان رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۹ء

’’صاحبِ قرآن‘‘

آج کی دنیا میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت کے ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ بھٹکی ہوئی بلکہ مسلسل بھٹکتی ہوئی انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات اور فطرت سلیمہ کی طرف واپس لانے کے لیے قرآن کریم اور سنت نبوی کو عصر حاضر کی زبان و اسلوب اور نفسیات و ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پورے شعور و ادراک کے ساتھ پیش کیا جائے اور ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مئی ۲۰۱۳ء

’’اطراف‘‘

پروفیسر میاں انعام الرحمٰن ہمارے عزیز ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے۔ ان کے دادا محترم حضرت مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز علماء لدھیانہ کے معروف خانوادہ کے بزرگ تھے اور رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ قریبی تعلق داری بھی رکھتے تھے۔ مولانا عبد اللہ لدھیانویؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۲ء

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو ہمارے دیوبندی حلقوں میں سید الطائفۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی ہمارے پورے دیوبندی گروہ کے سب سے بڑے سردار۔ دیوبندیت کوئی مذہب نہیں ایک مکتبِ فکر ہے۔ ہم حنفی ہیں اور اہلِ سنت کے اجتماعی دھارے کا حصہ ہیں۔ لیکن دیوبندیت کے حوالے سے فکری اور علمی تحریک کے طور پر ہمارا تعارف ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اپریل ۲۰۱۳ء

سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد: پس منظر اور موجودہ صورتحال

پاکستان جب بنا تو بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام ازسرنو لایا جائے گا اور مسلمانوں کی ثقافت اور عقائد پر ایک اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی جائے۔ چنانچہ پاکستان بننے کے بعد جب مختلف شعبوں میں کام کا آغاز ہوا اور پاکستان کے ریاستی بینک ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے کیا تو اس موقع پر ان کی تقریر ریکارڈ پر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۵ء

غیر سودی بینکاری کی عالمی پیشرفت

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سود کے حوالے سے ملکی صورتحال تو یہ ہے کہ تفصیلی فیصلے موجود ہیں اور کوئی ابہام نہیں ہے لیکن عملدرآمد کے حوالے سے اب تک جو ہوا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ سودی نظام کی عالمی صورتحال بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے۔ اب تو عالمی سطح کے معاشی ماہرین بھی یہ کہتے ہیں کہ سودی نظام انسانی معاشرے کے لیے فائدے کی نہیں بلکہ نقصان کی چیز ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۲۰۱۵ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter