روزنامہ جنگ لندن ۲۱ نومبر ۱۹۹۲ء کے صفحہ آخر پر ایک چھوٹی سی خبر ہے کہ مجلسِ احرار کے رہنما اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے رفیق جانباز مرزا کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس مختصر خبر نے اضطراب اور بے چینی کی کئی لہریں دل و دماغ میں اٹھا دیں اور زندگی میں دوسری بار کسی جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کا افسوس زندگی بھر کے لیے حسرت بن گیا۔ پہلا موقع میری چھوٹی والدہ مرحومہ کی وفات کا تھا جس کی اطلاع مجھے شکاگو میں ملی اور میں تصور و خیال میں جنازے اور تدفین کا نقشہ کھینچنے کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ اور دوسرا موقع الحاج مرزا غلام نبی جانباز کی وفات کا ہے جس نے بُعدِ مسافت اور سفر کی کلفتوں کا صحیح معنوں میں احساس دلا دیا۔ پھر روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہونے والی اس خبر کے اختصار اور محل وقوع نے بھی اضطراب کی ان لہروں میں اضافہ کیا۔ خبر لگانے والے نیوز ایڈیٹر غریب کو کیا معلوم کہ جانباز مرزا کون تھا اور اس ملک و قوم کے لیے اس کی خدمات کیا تھیں؟ یہ خبر کسی آزادی و حریت کے قدر دان ملک کے اخبار میں چھپتی تو اس کا انداز یہ نہ ہوتا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی کی باگ ڈور جن طبقات کے ہاتھ میں آئی انہیں اس کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑا۔ آزادی کے لیے دو سو سال تک قربانیاں اور طبقوں نے دیں اور آزادی کے ثمرات سمیٹنے کے لیے دوسرے طبقات کو آگے بڑھا دیا گیا، اس لیے انہیں کیسے خبر ہو سکتی ہے کہ آزادی کیا ہے اور اس کے لیے قوم کو کیا قیمت ادا کرنی پڑی ہے؟
دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کا ایک واقعہ اس وقت میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ پاکستان سے جانے والے علماء کے قافلہ کے ساتھ مجھے سفر کی سعادت حاصل نہیں ہو سکی تھی، میں دو دن لیٹ پہنچا۔ یہ صد سالہ اجلاس کا آخری دن تھا اور مجھے اپنے پاسپورٹ کا پولیس اسٹیشن میں اندراج کرانا تھا۔ اس مقصد کے لیے پولیس نے جلسہ گاہ کے قریب ہی کیمپ آفس قائم کر رکھا تھا۔ جانباز مرزا بھی اجلاس میں شرکت کے لیے وہاں پہنچے ہوئے تھے، میں ان کی محبت و شفقت کی وجہ سے انہیں تایا کہا کرتا تھا۔ ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا تایا میرے ساتھ چلو پولیس میں پاسپورٹ کا اندراج کرانا ہے۔ وہ میرے سال چل پڑے، پولیس کے کیمپ میں ایک خوش شکل اور نوجوان ہندو پولیس انسپکٹر اس ڈیوٹی پر مامور تھے۔ پہلے تو جاتے ہی مرزا صاحب نے حسبِ عادت ایک ایسا فقرہ چست کیا کہ کیمپ آفس میں قہقہوں کا لاوا پھوٹ پڑا۔ پھر ہم نے حاضری کا مقصد بیان کیا اور میں نے ہندو انسپکٹر سے کہا کہ کیا آپ ان بزرگوں کو جانتے ہیں؟ انہوں نے آزادی کی خاطر چودہ سال جیل کاٹی ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ انسپکٹر نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور اپنے عملہ کو پکار کر کہا کہ سب لوگ کام چھوڑ کر یہاں آجاؤ، ہمارے ایک بزرگ اور محسن آئے ہیں۔ سب لوگوں نے کام چھوڑ دیا اور جانباز مرزا کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔ انسپکٹر نے عملہ کے افراد سے مرزا صاحب کا تعارف کرایا کہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے سوراج (آزادی) کی خاطر انگریز کی جیل میں چودہ سال گزارے ہیں۔ اس کے بعد اس مجلس کی جو کیفیت ہوئی اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا۔ مجھے یوں لگا جیسے ہم کسی مندر میں ہیں، جانباز مرزا ایک مقدس مورتی ہیں اور چاروں طرف پجاری گھیرا ڈالے اس مورتی کی پوجا کر رہے ہیں۔
کافی دیر تک یہ مجلس رہی، وہ لوگ مرزا صاحب سے تحریکِ آزادی اور جیل کے حالات پوچھتے رہے اور مرزا صاحب مختلف واقعات انہیں سناتے رہے۔ پھر میں نے مداخلت کی اور انسپکٹر سے کہا کہ آپ ہمیں جلد فارغ کریں تاکہ ہم اجلاس میں جا سکیں۔ اس وقت اندازہ ہوا کہ آزادی کی قدردان قوموں میں آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کے لیے عقیدت کے کیا جذبات ہوتے ہیں۔ جانباز مرزا نے ایک غریب سیاسی کارکن کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ساری عمر اسی وضعداری کو نبھایا۔ فرنگی کی جیلوں میں آزادی کی خاطر زندگی کے چودہ سال گزار دیے، پولیس کے ڈنڈے کھائے اور ہڈیاں تڑائیں جس کے نشانات آخر تک ان کے جسم پر نظر آتے تھے۔ قوم و ملک کی خدمت کی اور اس شان سے کی کہ جانباز مرزا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، ان کے دل و دماغ پر آزادی کی لگن حکمران ہے، اور گھر میں فقر و فاقہ کی عملداری ہے۔
جانباز مرزا نے شاعری اور خطابت دونوں میدانوں میں جوہر دکھائے۔ فن کا ترازو ہر وقت ہاتھ میں رکھنے والوں کو جانباز مرزا کی شاعری اور خطابت میں شاید بہت سی خامیاں نظر آئیں لیکن اہلِ وطن کے دلوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کرنے اور عشقِ رسولؐ کی حرارت سے انہیں گرمانے کے لیے یہ بامقصد شاعری اور خطابت کامیابی کے اعلیٰ درجات پر فائز دکھائی دیتی ہے۔ مرزا صاحب مرحوم آج کی معروف اصطلاح کے حوالہ سے ’’ان پڑھ‘‘ سمجھے جاتے تھے لیکن اس ان پڑھ نے ’’کاروانِ احرار‘‘ کے نام سے برصغیر کی تحریکِ آزادی کے بارے میں تاریخی معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ مرتب کر کے پیش کر دیا ہے کہ تحریکِ آزادی پر کام کرنے والا کوئی اسکالر اب اس سے بے نیاز رہ کر اپنے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔
جانباز مرزا کی عمر ۸۰ برس سے زائد تھی اور یہ ساری عمر محنت و مشقت میں گزری۔ بڑھاپے میں بھی وہ پیدل چلتے، لائبریریوں میں جاتے، حوالے تلاش کرتے، مواد اکٹھا کرتے، تحریر و کتابت کے مراحل سے گزرتے، پروف ریڈنگ اور چھپائی کی نگرانی کرتے، بسا اوقات اپنی کتابوں کے اشتہار بھی دیواروں پر خود چسپاں کرتے اور خود ہی شہر شہر گھوم کر کتاب کی فروخت کا اہتمام کرتے۔ بلاشبہ وہ محنت و ایثار کا ایک مجسم نمونہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مرزا غلام نبی جانباز مرحوم تحریک آزادی کے ان کارکنوں میں سے تھے جنہوں نے فرنگی استعمار کے تسلط کے خلاف جدوجہد آزادی کی شمع روشن کی۔ ان کا تعلق مجلسِ احرارِ اسلام سے تھا، وہ ایک انقلابی شاعر کے طور پر کاروانِ آزادی کے حدی خوان تھے اور انہوں نے ایثار و قربانی کے دیگر کٹھن مراحل کے علاوہ اپنی جوانی کے تقریباً چودہ برس آزادی کی خاطر جیلوں کی نذر کیے۔ عام حلقوں میں وہ جانباز مرزا کے نام سے متعارف تھے اور ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کے نام سے لاہور سے ایک رسالہ شائع کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ’’کاروانِ احرار‘‘ کے عنوان سے مجلسِ احرارِ اسلام کی عظیم جدوجہد کے بکھرے ہوئے اوراق کو مجتمع کر دینا ہے جو کئی ضخیم جلدوں میں ہے اور احرار کے علاوہ اس دور کی دیگر سیاسی تحریکات اور جماعتوں کی جدوجہد کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ مزاج میں ظرافت اور بے ساختہ پن تھا، پورے اعتماد اور بے باکی کے ساتھ ہر وہ بات کسی بھی مجلس میں کہہ جاتے تھے جو شاید دوسرا کوئی نہ کہہ پائے۔
صدر محمد ایوب خان مرحوم کے آخری دور میں جب سیاسی اور فکری تحریکوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، اس دور میں بھی جانباز مرزا مرحوم ایک متحرک کردار کے طور پر متعارف تھے۔ اس دور میں لاہور میں ایک عالم دین مولانا غلام نبی جانباز ہوا کرتے تھے جن کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے تھا اور ان کے بیانات بھی اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مرزا غلام نبی جانباز اور مولانا غلام نبی جانباز الگ الگ سیاسی کیمپوں میں تھے اس لیے اخبارات میں ان کے بیانات بسا اوقات دوستوں کے لیے الجھن کا باعث بن جایا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ جانباز مرزا مرحوم ایک روز خود مولانا موصوف کے پاس جا دھمکے اور کہا کہ ’’مولوی صاحب! یا آپ نام تبدیل کر لیں یا میں تبدیل کر لیتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپ کسی آزمائش میں پڑ جائیں یا آپ کی وجہ سے میں کسی جگہ دھر لیا جاؤں‘‘۔ مولانا موصوف نے اپنا نام تبدیل کیا یا نہیں مگر جانباز مرزا مرحوم کا یہ لطیفہ کافی دنوں تک دوستوں میں گردش کرتا رہا ۔