افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی: پس منظر، ثمرات اور توقعات

   
۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء

آج سے آٹھ سال قبل جب روس نے افغانستان کو اپنی مسلح فوجی یلغار کا نشانہ بنایا تو روس کی عظیم فوجی قوت، افغانستان میں کمیونسٹ لابی کے مؤثر اور مسلسل ورک، اور دینی حلقوں کے نمایاں خلفشار و انتشار کو دیکھتے ہوئے یہ بات عام طور پر زبانوں پر آگئی تھی کہ اب بخارا، تاشقند اور سمرقند کی طرح افغانستان کا یہ خطہ بھی روس کے زیر تسلط مسلم ریاستوں کے زمرے میں شامل ہو جائے گا۔ کیونکہ بظاہر افغانستان میں کوئی ایسی قوت دکھائی نہیں دے رہی تھی جو کمیونسٹ لابی کے تسلط اور روسی افواج کی مداخلت کا سامنا کر سکے۔ اور یہ تاثر اس قدر عام ہو چکا تھا کہ دریائے خیبر اور دریائے اٹک کے اس پار روسی ٹینکوں کے استقبال اور ان پر پھولوں کے ہار نچھاور کر کے اس خطہ کے مبینہ روایتی کردار کو دہرانے کی تیاری بھی شروع ہو گئی تھی۔

لیکن رفتہ رفتہ اس قسم کی خبریں سامنے آنے لگیں کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں روسی افواج کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ مزاحمت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ مزاحمت کی ان خبروں پر لوگوں کا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ افغان قوم روایتی طور پر ہتھیار بند ہے اور بعض جذباتی حلقے اپنے قومی مزاج اور روایات کے باعث روسی افواج کی مزاحمت کر رہے ہیں جو چند روز کی بات ہے اور روس جیسی سپر پاور کے لیے اس نوعیت کی مزاحمت کو کنٹرول کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ مگر یہ تمام تاثرات غلط ثابت ہوئے اور افغانستان کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کی ہجرت کے ساتھ ساتھ جہاد کے مقدس عنوان پر مزاحمت کی ان کارروائیوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہوتا چلا گیا کہ صرف آٹھ سال کے عرصہ میں نہ صرف روس کی قیادت کو اپنی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے عزم کا اظہار کرنا پڑا بلکہ کابل کے سرکاری حلقوں نے یہ تسلیم کیا کہ افغانستان کا اسی فیصد علاقہ افغان مجاہدین کے کنٹرول میں ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت افغانستان میں اسی ہزار مجاہدین روسی افواج کے تسلط کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور ان کی جنگ کا دائرہ نہ صرف یہ کہ افغانستان کے طول و عرض تک پھیلا ہوا ہے بلکہ ان کے پر جوش نعرہ ہائے تکبیر نے روس کے زیر تسلط مسلم علاقوں کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی ہے اور اب روس کے لیے افغانستان پر اپنے اثرات مستحکم کرنے سے زیادہ بخارا، تاشقند اور وسطی ایشیا کی دیگر مسلم ریاستوں میں اپنے نظریاتی تسلط کو برقرار رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔

افغانستان کی جنگ آزادی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ جنگ اسلامی احکام کے مطابق جہاد کے شرعی فتویٰ کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے اور اس کی قیادت میں علماء کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کی جو قیادت جہادِ افغانستان کے عنوان سے دنیا میں متعارف ہوئی ہے اس میں ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب مستند علماء کرام ہیں۔ اسی طرح محاذِ جنگ پر روسی افواج سے برسرِ پیکار مجاہدین میں بھی ایک بڑی تعداد علماء اور دینی مدارس کے طلباء کی ہے جس سے افغانستان کی جنگِ آزادی کا دینی اور نظریاتی تشخص بالکل واضح اور بے غبار ہو کر سامنے آیا ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ افغانستان کی جنگِ آزادی کا یہ دینی تشخص ہی اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان مسئلہ افغانستان پر متوقع مصالحت میں کباب کی ہڈی بن گیا ہے۔

روس افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کے عندیہ کا اظہار کر چکا ہے لیکن اسے خطرہ یہ ہے کہ اگر اس کی واپسی کے بعد افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہو گئی تو ’’مولویوں کی یہ حکومت‘‘ وسطی ایشیا کے مسلم علاقوں پر روس کے تسلط کے لیے واضح خطرہ ثابت ہوگی اور پھر بخارا اور تاشقند کے علاقوں میں بھی آزادی اور جہاد کے جذبات ابھرنے لگیں گے۔ اس کے برعکس امریکہ اگرچہ سیاسی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ افغان مجاہدین کو مادی امداد بھی عملاً فراہم کر رہا ہے لیکن افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کا قیام اس کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ کابل میں مولوی کی حکومت اور اس کے ذریعہ شرعی نظام کا عملی نفاذ دراصل نکتۂ آغاز ہوگا جنوبی ایشیا کی مسلم ریاستوں بالخصوص پاکستان اور خلیج کے ممالک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں عملی پیشرفت کا جسے روکنا ان ممالک میں سامراجی نظام کے روایتی محافظوں کے بس کی بات نہیں ہوگا۔ اور اس طرح امریکہ کے مفادات اس خطہ میں حفاظت و ضمانت کے سائے سے محروم ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کو روکنے میں امریکہ اور روس کے مفادات مشترک ہوگئے ہیں لیکن افغانستان کے اسی فیصد حصے پر مجاہدین کے عملی کنٹرول کی موجودگی میں ان کی مرضی کے بغیر کسی حکومت کا قیام ممکن ہی نہیں رہا اور جنیوا مذاکرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس اعتماد کی جھلک ہر افغان لیڈر کے چہرے پر بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔

گزشتہ ہفتے مجھے مولانا فداء الرحمان درخواستی امیر جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے ہمراہ پشاور میں بعض افغان لیڈروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ جمعیۃ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا میاں عصمت شاہ کاکاخیل اور حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اس موقع پر ہماری ملاقات حزب اسلامی کے امیر مولانا محمد یونس خالص، حرکت انقلاب اسلامی کے راہنما مولانا عبد الستار صدیقی، اور اتحاد اسلامی افغانستان کے شعبہ سیاسی امور کے سربراہ مولانا محمد یاسر خان سے ہوئی۔ مولوی محمد یونس خالص افغانستان کے بزرگ اور مجاہد عالم دین ہیں، محاذِ جنگ پر برسرِ پیکار مجاہدین کے ایک بڑے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ شہرہ آفاق کمانڈر مولانا جلال الدین حقانی کا تعلق بھی انہی کے گروپ سے ہے۔

مولوی محمد یونس خالص دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل ہیں اور دارالعلوم میں کچھ عرصہ مدرس بھی رہے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب مدظلہ کے مایۂ ناز شاگردوں میں سے ہیں۔ مولانا جلال الدین حقانی بھی دارالعلوم حقانیہ کے فضلاء میں سے ہیں۔ مولوی محمد یونس خالص کو اس سال افغان مجاہدین کی سات جماعتوں نے اپنے مشترکہ محاذ کا سربراہ چنا ہے اور اسی حیثیت سے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں بھی مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئے ہیں جس میں بھاری اکثریت کے ساتھ افغانستان سے روسی افواج کی غیر مشروط واپسی کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔ انہوں نے ملاقات کے دوران اس بات کا دبے لفظوں میں شکوہ کیا کہ پاکستان کے علماء اور دینی حلقے جہادِ افغانستان کا صحیح طور پر ادراک نہیں کر سکے حالانکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس خطہ میں امریکہ اور روس کے مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی ہم کسی کے مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہماری جنگ کا مقصد افغانستان سے روسی افواج کی واپسی اور مکمل شرعی نظام کا نفاذ ہے اور شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ تک ہماری جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کے علماء اور دینی حلقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جہاد افغانستان کی مقصدیت اور اہمیت کا ادراک کریں اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے ملت اسلامیہ میں جذبۂ جہاد کے احیا کے لیے مؤثر اور بھرپور جدوجہد کریں۔

مولانا عبد الستار صدیقی اور مولانا محمد یاسر خان نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا بلکہ مولانا محمد یاسر خان نے افغان مجاہدین اور پاکستان کے دینی حلقوں کے درمیان تعاون و ارتباط کے ایسے امکانات اور گوشوں کی نشاندہی کی کہ ان سے صرف نظر کرنا جہادِ افغانستان اور پاکستان کی دینی جدوجہد دونوں سے ناانصافی کے مترادف ہوگا۔ ان کے جذبات انتہائی قابل قدر اور لائق تقلید ہیں اور ان کی قلبی خواہش ہے کہ پاکستان کے علماء حق جہادِ افغانستان کے ساتھ عملی رابطہ قائم کر کے اس کی تقویت کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اس آٹھ سالہ جنگ کے تجربات و ثمرات سے بھرپور استفادہ کریں۔ انہوں نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ہمارا ہدف صرف افغانستان کی آزادی اور اس میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہے بلکہ اس پہلے ہدف کو حاصل کرنے کے بعد پوری دنیا میں باطل نظریات کا مقابلہ اور مسلم ممالک میں اسلام کی بالادستی ہمارا اصل مشن ہے جس کے لیے ہم ہر دینی قوت کا تعاون حاصل کریں گے اور اپنے تمام تجربات و وسائل کے ساتھ ہر دینی قوت کا دست و بازو بنیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter