اٹھائیس اگست کو اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی دعوت پر مبارک ثانی کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے نئے فیصلہ پر ایک اہم مشاورت میں شرکت کا موقع ملا جس کی انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، راقم الحروف نے اس نشست میں جو معروضات پیش کیں وہ اگلے مرحلے میں نذر قارئین کی جائیں گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (ابوعمار زاہد الراشدی)
’’توہینِ مذہب کے مسائل کو ان کی پیچیدہ نوعیت کے پیش نظر علیحدگی میں مؤثر طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ منقسم ردعمل نے نہ صرف اندرونی بحث و مباحثے کو کمزور کیا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ لہٰذا، ایک متحدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی طریقہ کار ضروری ہے جو جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو۔ اس کے لیے پائیدار قانونی اور علمی کوششوں کو ترجیح دینے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور اور عالمی سطح پر ایک فعال، سفارتی موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک مربوط اور عقل پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے ہی پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے اور اپنے مذہبی اصولوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ ’مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور مستقبل کا لائحہ عمل‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ محمد راغب حسین کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، ممتاز عالمِ دین علامہ زاہد الراشدی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر قانون ڈاکٹر عطاء اللہ محمود وٹو، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عمران شفیق ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سجاد حمید، اور شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد سے رفیق شنواری نے بھی خطاب کیا۔
عمران شفیق نے کیس کے فیصلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلے میں کچھ غلطیوں کو درست کیا ہے، لیکن کئی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں، جس کی وجہ سے تنازعہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نجی جگہوں پر مذہب کی تبلیغ کے حق سے متعلق ابہام بحث کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298سی میں سرکاری اور نجی شعبوں کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح 1973 کے آئین کے آرٹیکل 20 اور 22، جو مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں، نے ایسی کوئی تفریق برقرار نہیں رکھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل آزادی فراہم کرتے ہیں لیکن حدود کے ساتھ۔ سپریم کورٹ کے منتظر تفصیلی فیصلے میں غلطیوں کو دور کرنے کے لیے انہوں نے اپیل کے فیصلے کے پیراگراف 5 سے 10 اور 14، اور نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کرنے کی رائے دی۔ مذکورہ پیراگرافوں کو حذف کرنے نتیجے میں، نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 13، 15، 20، 21 اور 40 کو بھی حذف کرنے کی ضرورت ہوگی۔
سجاد حمید نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش سمیت متعدد ایسے متعلقہ مقدمات نمٹائے ہیں جہاں قادیانی برادری کے اقدامات کو آئینی فریم ورک بالخصوص آرٹیکل 20 اور 22 کے تحت چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ماضی کے ان مقدمات میں عدالتیں عقیدے کی نجی اور عوامی تبلیغ کے درمیان فرق کو واضح رکھتی ہیں۔
علامہ راغب حسین نے اس بات پر زور دیا کہ قادیانی مسئلہ کے حل کے لیے موجودہ نقطہ نظر بہت بکھرا ہوا ہے، جس میں علمائے کرام، وکلاء دانشور ایک اجتماعی نقطۂ نظر پیش کرنے کی بجائے الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ نتیجتاً یہ مقدمہ حد سے زیادہ سیاست زدہ اور مذہبی ہو گیا ہے۔ اس چیلنج کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے جذباتی رد عمل کی بجائے زیادہ علمی اور پائیدار طریقوں کی طرف تبدیلی ضروری ہے۔
رفیق شنواری نے نشاندہی کی کہ جب کہ سرکردہ اسلامی اسکالرز توہین رسالت کے معاملے پر متفق ہیں، پاکستانی قانون متعدد پہلوؤں پر غیر واضح ہے، جس میں گواہوں کی مطلوبہ تعداد اور قرآن اور دیگر پیغمبروں کے خلاف توہین کی سزا شامل ہیں۔ انہوں نے توہین رسالت پر جامع اور مستقل قانونی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس میں اس خلاء کو دور کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون شامل ہے۔
ڈاکٹر عطااللہ وٹو نے توہینِ مذہب کے سخت قوانین کے لیے تاریخی اور مذہبی حمایت کو اجاگر کرتے ہوئے سینٹ آگسٹین اور تھامس ایکویناس جیسی شخصیات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آرٹیکل 20 مذہب کی پیروی، اس کے اظہار اور تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے، لیکن خاص طور پر 1919 میں برطانوی حکومت کی جانب سے غیر مسلم قرار دی گئی جماعتوں اور 1935 کے بہاولپور کیس کے حوالے سے ابہام اور قانونی پیچیدگیاں برقرار ہیں۔ وٹو نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کس طرح پریشر گروپ ان ابہامات کا فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں، جس سے توہینِ مذہب کے قوانین کے نفاذ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
علامہ زاہد الراشدی اور دیگر مقررین نے اس مسئلے کے بین الاقوامی پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے باوجود اس کمیونٹی کو بین الاقوامی طور پر ہمدردی اور مظلومیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے اس کے لیے عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط بیانیہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ متحدہ اور اچھی طرح سے تیار شدہ موقف پیش کرنے میں ناکامی نے قادیانیوں کو بین الاقوامی فورمز پر قانونی نظیروں سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ مسئلہ مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا ہے اور اسے علیحدگی میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کے لیے دوسرے مسلم ممالک کے نقطہ نظر کو سمجھنا اور مقامی اور عالمی سیاق و سباق کے درمیان کم ہوتے ہوئے فرق کو پہچاننا ضروری ہے۔ رحمٰن نے ایسے جارحانہ طریقوں کے خلاف خبردار کیا جن کی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ان کی تعلیمات کو پھیلانے کے وسیع تر مقصد میں غلط تشریح کی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے قانون کی حکمرانی پر مبنی ایسی فعال حکمت عملی کی وکالت کی جس میں مقامی طور پر لوگوں کو تعلیم دینا، قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی موقف کو سفارتی طور پر پیش کرنا شامل ہے۔ شرکاء کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ آئی پی ایس اس طرح کے مشاورتی فورمز کا انعقاد جاری رکھے گا۔‘‘