دوبئی میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل

   
۷ فروری ۲۰۰۱ء

متحدہ عرب امارات میں مختلف شخصیات سے ملاقاتوں اور متعدد مقامات پر حاضری کا اتفاق ہوا جن میں سے چند ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حافظ بشیر احمد چیمہ، محمد فاروق شیخ اور رشید احمد چیمہ کے ہمراہ دوبئی سے الفجیرہ جاتے ہوئے راستہ میں سمندر کے کنارے ایک پہاڑی پر ساڑھے پانچ سو سالہ پرانی مسجد میں حاضری ہوئی جو ابھی تک اپنی اصل حیثیت میں موجود ہے اور غالباً اس علاقہ کی قدیم ترین مسجد ہے۔ وبا سے خوزمکان جاتے ہوئے البدینہ نامی بستی میں یہ مسجد ہے جو پتھر اور مٹی کی موٹی دیواروں پر چاروں گنبدوں کے ساتھ کھڑی ہے اور درمیان میں ایک بہت موٹا ستون ہے جس نے چھت کو اٹھانے میں دیواروں کو سہارا دے رکھا ہے۔ مسجد کے اندرونی ہال کی پیمائش اس طرح ہے کہ دس جائے نمازوں پر مشتمل ایک صف ہے اور ہال کی چوڑائی پانچ صفوں کی ہے۔ حکومت فجیرۃ کے ادارۃ التراث و الآثار نے آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے اور ماہرین کے تعاون سے اس مسجد کی تاریخ معلوم کرنے کی کوشش کی تو ان کی تحقیقات کے نتیجہ میں اس کی تعمیر ۱۴۴۶ عیسوی کے لگ بھگ قرار پائی ہے۔ مسجد کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پرانے مورچوں کے آثار بھی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جانب سے سمندر پر نگاہ رکھنے اور بحری نقل و حرکت کو واچ کرنے کے لیے کسی زمانہ میں یہاں عسکری مرکز رہا ہوگا اور یہاں رہنے والوں نے اپنی ضرورت کے لیے یہ مسجد تعمیر کرلی ہوگی۔ بہرحال مسجد اپنی اصل حالت میں ابھی تک موجود ہے جسے سرکاری طور پر آثار قدیمہ کے طور پر محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس علاقہ سے گزرنے والے سیاح یہاں رک کر مسجد کو دیکھتے ہیں اور اس کی تصاویر بھی لیتے ہیں۔

اس خطہ کے قدیم ترین آثار کی نمائندگی کرنے والی اس مسجد کے علاوہ مجھے میرے میزبان دوست دوبئی شہر کے اس علاقہ میں بھی لے گئے جہاں سمندر کے کنارے جدید ترین ثقافت اور کلچر اپنے نشانات ثبت کرنے میں مصروف ہیں۔ مہنگے ترین ہوٹلوں میں دی جانے والی آسائشوں اور عیاشیوں کے قصے سننے کے بعد اس علاقہ میں زیادہ دیر گھومنے کو جی نہیں چاہا اور اس ماحول پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ہم واپس آگئے۔

مجھے دوبئی کی ’’منڈی مویشیاں‘‘ جانے کا اتفاق ہوا، کسی دوست نے بتایا تھا کہ پاکستان سے جانوروں کی درآمد پر دوبئی میں پابندی ہےجس کی وجہ سے ملک کا خاصا تجارتی نقصان ہو رہا ہے لیکن ہمارے سفارتی اور تجارتی حلقوں میں اس حوالہ سے کوئی دلچسپی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ مولانا مفتی عبد الرحمان نے بتایا کہ وہ دودھ لینے کے لیے منڈی جا رہے ہیں تو میں بھی ان کے ہاتھ ہو لیا۔ منڈی کی ترتیب اور صفائی دیکھ کر خوشی ہوئی مگر وہاں ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب جو منڈی میں دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، ان سے یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ پاکستان سے جانوروں کی درآمد پر پابندی کی خبر درست ہے۔ ان صاحب نے بتایا کہ پہلے بھی پاکستان سے جانوروں کی درآمد پر پابندی تھی جو کئی سال جاری رہی، پھر یہ پابندی اٹھا لی گئی مگر کچھ عرصہ بعد پھر یہ پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پاکستان سے آنے والے جانوروں کے بارے میں یہ شکایت عام طور پر رہتی ہے کہ بیمار جانور دوبئی بھیجے جاتے ہیں اور اس معاملہ کو بھارت اور دیگر ممالک کی پاکستان مخالف تجارتی لابیاں نہ صرف ہوا دیتی ہیں بلکہ اس بہانے پاکستانی تجارت کے راستے مسدود کرنے کے لیے منظم محنت بھی کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی شکایت یہ سننے میں آتی ہے کہ پاکستان کے سفارتی عملہ اور پاکستان سے آنے والی سرکاری یا قومی شخصیات کی ایسے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس قسم کے مسائل کے حل کی طرف کوئی سنجیدہ پیش رفت ہوتی ہے۔

بعض دوستوں نے یہ افسوسناک واقعہ بھی سنایا کہ چند سال پہلے ۵ فروری کو کشمیریوں کے ساتھ پاکستانی عوام کے قومی یکجہتی کے دن کے موقع پر متحدہ عرب امارات میں پاکستانی اسکولوں نے صرف اس حد تک اس قومی یکجہتی میں شرکت کی تھی کہ اس روز چھٹی کر لی جس پر کم و بیش ڈیڑھ درجن سکولوں کے پرنسپل حضرات کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پاکستان سے ایک انتہائی مقتدر شخصیت اس مسئلہ پر متحدہ عرب امارات کے حکام سے بات چیت کرنے کے لیے دوبئی پہنچی اور وزیرتعلیم سے باقاعدہ ملاقات کا وقت لیا مگر جو وقت ملاقات کا طے ہوا اس وقت وہ صاحب وہاں نہ پہنچ سکے اور متحدہ عرب امارات کے وزیر تعلیم کچھ دیر انتظار کے بعد اپنے دیگر طے شدہ کاموں میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے اس مسئلہ پر وہاں کی حکومت سے باضابطہ بات نہ ہو سکی اور اسکولوں کے برطرف شدہ پرنسپلز کی دوبارہ بحالی کے امکانات معدوم ہوگئے۔

میں نے وہاں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی ’’پاکستان ایسوسی ایشن دوبئی‘‘ کے صدر جناب احسان الٰہی سے ملاقات کی اور ان سے گزارش کی کہ وہ مجھے متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کو درپیش مسائل و مشکلات کے بارے میں کچھ بریفنگ دیں۔ ان سے ملاقات کی پہلی نشست تو ایسوسی ایشن کی قیادت کے حوالہ سے دو دھڑوں کے درمیان کشمکش کے تذکرہ تک محدود رہی۔ البتہ دوسری نشست میں انہوں نے ایسوسی ایشن کی طرف سے پاکستانیوں کو ان کی مشکلات میں مہیا کیے جانے والے تعاون کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کیں اور ان پاکستانیوں کی ایک فہرست عطا فرمائی جنہیں مختلف اوقات میں ایسوسی ایشن کی طرف سے امداد کی گئی ہے۔ جناب احسان الٰہی چنیوٹی شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان کراچی میں آباد ہے۔ خود ایک عرصہ سے دوبئی میں ہیں اور ممتاز پاکستانی تاجروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ظہور حسین شجرہ صاحب نائب صدر، اعجاز احمد صاحب سیکرٹری جنرل، محمد نعیم صاحب مذہبی سیکرٹری، اور عبد الستار کمیونٹی ویلفیئر سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اگر متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کو انفرادی طور پر درپیش مشکلات و مسائل کے حل کے حوالہ سے دیکھا جائے تو یہ ایسوسی ایشن اچھی خدمات سرانجام دے رہی ہے اور اس کے عہدے داروں کی توجہات بھی قابل قدر ہیں۔ مگر مجھے پاکستان کے قومی مفادات اور اجتماعی ملی مسائل کے حل کے سلسلہ میں جس جدوجہد اور ورک کی تلاش تھی اس کے کسی طرف کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ایک کمپنی کے لیبر کیمپ میں جانے کا بھی موقع ملا جو دوبئی کے ایک عرب شیخ کی کمپنی ہے جس میں ہزاروں ملازمین کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد لیبر کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں ایک عام محنت کش پانچ سو سے سات سو درہم تک ماہانہ کماتا ہے جس میں سے ڈیڑھ دو سو درہم کے لگ بھگ اس کا ذاتی خرچہ انتہائی کفایت شعاری کی صورت میں بھی ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنے وطن میں گھر والوں کو بھجوانے کے لیے بمشکل ساڑھے تین سے پانچ سو درہم تک بچا پاتا ہے۔ درہم پاکستان کی کھلی مارکیٹ میں ساڑھے سولہ روپے کے قریب قیمت رکھتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وطن اور گھر بار سے مہینوں نہیں بلکہ برسوں دور رہنے کے باوجود ایک محنت کش کو محنت کا کتنا معاوضہ ملتا ہے۔

لیبر کیمپ میں ایک اور مسئلہ بھی سامنے آیا کہ پاکستانی محنت کش کام اور ہنر میں دوسرے ممالک کے محنت کشوں سے آگے ہیں، فرض شناس اور جفاکش بھی ہیں مگر وہ اپنے بارے میں یا ملک و قوم کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔ غلطی کسی کی بھی ہو منہ پر ٹوک دیتے ہیں اور بات کہنے میں بے باک ہوتے ہیں، کوئی مخالفانہ بات آسانی سے نہیں سن سکتے۔ اس لیے یہاں کے افسروں اور حکام کے ہاں انہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی اور وہ محنت و مشقت کے باوجود اپنے افسروں کا اعتماد حاصل نہیں کر پاتے۔

میرا جی چاہ رہا تھا کہ دوبئی میں پاکستانی قونصلیٹ جنرل کے دفتر میں بھی جاؤں اور سفارتی عملہ سے ملاقات کر کے ان کی زبان سے پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں متحدہ عرب امارات کے ارباب حل و عقد کے رجحانات و ترجیحات کے بابت کچھ معلومات حاصل کروں مگر ماضی کا ایک تلخ تجربہ یاد آگیا کہ چند برس قبل لندن جاتے ہوئے دو تین روز کے لیے قاہرہ رکا اور اس خیال سے پاکستانی سفارت خانہ میں جا دھمکا کہ ہمارے سفارتی اہلکار ایک پاکستانی مولوی اور سیاسی کارکن کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ مگر انہوں نے سرے سے گیٹ کھولنے سے ہی انکار کر دیا اس لیے دوبئی کے قونصل خانے میں جانے کا حوصلہ نہیں ہوا اور بہت سی خواہشیں اور حسرتیں دل میں لیے ۲۱ جنوری کی رات گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter