اشک آباد کے مذاکرات اور مولانا سمیع الحق کی پیشکش

   
۲۱ مارچ ۱۹۹۹ء

آج صبح دو اچھی خبریں پڑھنے کو ملیں اور ذہن کی اسکرین پر خوشی کی کرنیں جھلملانے لگیں۔ ایک خبر اشک آباد میں طالبان اور شمالی اتحاد کے مذاکرات کی کامیابی کی ہے جو کم و بیش سبھی اخبارات نے شائع کی ہے جبکہ دوسری خبر مولانا سمیع الحق کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد کی پیشکش ہے جو انہوں نے ’’اوصاف‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کی ہے۔

افغانستان کے بارے میں ایک مضمون میں راقم الحروف نے عرض کیا تھا کہ استعماری قوتوں کی دیرینہ خواہش ہے کہ افغانستان شمال اور جنوب میں تقسیم ہو جائے اور شمال میں ایک ایسی ریاست قائم ہو جو کابل کی نظریاتی اسلامی حکومت اور وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں کے درمیان ’’بفر اسٹیٹ‘‘ کا کام دے۔ اس تقسیم کو روکنے کے لیے ضروری تھا کہ یا تو طالبان شمالی اتحاد کے خلاف مکمل فتح حاصل کر کے پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شمالی اتحاد کو اعتماد میں لے کر عالمی مداخلت کے امکانات کو کم سے کم کرنے کی صورت اختیار کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے راستے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے پر طالبان نے دوسرا راستہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے جو عالمی حالات کے موجودہ تناظر میں آخری چارہ کار کے طور پر بہتر ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ مذاکرات مزید آگے بڑھے تو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کے قیام اور تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

اس لیے ہم اس مفاہمت کا خیر مقدم کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے ہمکنار کریں اور افغان قوم کے لیے بہتر مستقبل کا زینہ بنائیں، آمین۔ اس میں جہاں اطمینان کا ایک پہلو ہے کہ مذاکرات میں طالبان کا سامنا جنرل دوستم اور جنرل عبد المالک جیسے کمیونسٹ لیڈروں سے نہیں بلکہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود جیسے جہادی راہنماؤں سے ہے، جن سے تمام تر اختلاف کے باوجود روسی جارحیت کے خلاف دس سالہ جہاد افغانستان میں ان کے نمایاں کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باہمی اختلافات پر خوش اسلوبی سے قابو پایا لیا جائے تو وہ طالبان کے فطری اور نظریاتی حلیف ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر خدشے کا ایک پہلو بھی موجود ہے کہ کابل میں مشترکہ قومی حکومت کے قیام سے افغانستان کا رخ ایک خالص نظریاتی اور بے لچک اسلامی ریاست کی بجائے عالمی برادری کے لیے قابل قبول مسلم ریاست کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ اور ہمارے خیال میں ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد عالمی اداروں کی جدوجہد اسی ہدف کے لیے وقف ہو جائے گی کہ دیگر بہت سے مسلم ممالک کی طرح افغانستان بھی اسلام کا پرچم تھامے ہوئے دنیا کے موجودہ عالمی کلچر اور بین الاقوامی سسٹم کا ایک قابل قبول یا کم از کم گوارا حصہ بن جائے اور عالم اسلام کی دینی تحریکات کا وہ خواب پورا نہ ہونے پائے جو وہ دنیا کے نقشے پر ایک خالص نظریاتی اور مثالی اسلامی ریاست کے ابھرنے کے حوالہ سے ایک عرصہ سے دیکھ رہی ہیں۔

بہرحال یہ طالبان کی قیادت کا امتحان ہے اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ خلافت راشدہ کی طرز پر خالص اور اصلی اسلام کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ اگر قائم رہی تو انہیں اسلامی تحریکات کے نظریاتی کارکنوں کی حمایت، دعائیں اور تعاون بدستور حاصل رہے گا۔

مولانا سمیع الحق کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کو اتحاد کی پیشکش کے حوالہ سے عرض ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ایم آر ڈی کی شکل میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کا مسئلہ اختلاف کا باعث بنا تھا۔ حضرت مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور ان کے رفقاء پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم آر ڈی میں شریک کار بننے کے خلاف تھے جبکہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جماعتی راہنماؤں کا ایک بڑا گروہ ایم آر ڈی میں شامل ہوگیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی، ایک حصہ درخواستی گروپ اور دوسرا فضل الرحمان گروپ کہلایا۔ راقم الحروف اس کشمکش میں حضرت درخواستیؒ کے ساتھ تھا اور ان کے گروپ کا ایک سرگرم کردار تھا۔

ایم آر ڈی ختم ہوئی تو وجۂ اختلاف ختم ہوجانے کی وجہ سے بہت سے جماعتی حلقوں کی طرف سے تحریک ہوئی کہ اب جمعیۃ کو پھر سے متحد ہوجانا چاہیے کیونکہ پالیسی کا کوئی نمایاں اختلاف باقی نہیں رہا تھا۔ راقم الحروف بھی اتحاد کی اس کوشش میں پیش پیش رہا اور اب بھی ہے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان اتحاد طے پا گیا اور جمعیۃ علماء اسلام کے متحد ہونے کا اعلان کر دیا گیا مگر حضرت درخواستیؒ کی جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق اور ان کے رفقاء نے اس اتحاد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ’’مولانا سمیع الحق گروپ‘‘ کے نام سے الگ گروپ بنا لیا جو ابھی تک قائم ہے۔ اسی وجہ سے جمعیۃ علماء اسلام اب بھی دو دھڑوں میں منقسم نظر آتی ہے اور اس کے اتحاد کی کوئی کوشش کارگر نہیں ہو رہی۔

اس صورتحال میں سرحد اور بلوچستان میں دونوں دھڑوں کے اختلافات اور قومی انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابلہ کی وجہ سے جمعیۃ علماء اسلام کی پالیمانی قوت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اور ملک بھر میں نفاذ اسلام، عالمی استعمار کے عزائم کی روک تھام اور قومی مسائل میں ایک مضبوط آواز کے طور پر جدوجہد کا وہ مقام اور کردار جمعیۃ علماء اسلام کو حاصل نہیں رہا جو بیس سال قبل اسے حاصل تھا۔ اور جمعیۃ علماء اسلام کے نظریاتی کارکنوں اور اس کے بہی خواہ علماء کرام کی یہ خواہش حسرت میں بدلتی جا رہی ہے کہ اے کاش! جمعیۃ علماء اسلام ایک بار پھر متحد ہو کر قومی سیاست میں اپنا جائز مقام بحال کر لے۔

اس پس منظر میں مولانا سمیع الحق کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی اور مولانا فضل الرحمان کی خدمت میں دو گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ انہیں یاد ہوگا کہ ۱۹۹۵ء کے عام انتخابات سے پہلے مولانا عبد الحفیظ مکی اور راقم الحروف ان دونوں حضرات اور ان کے علاوہ مولانا اعظم طارق کے پاس حاضر ہوئے تھے اور گزارش کی تھی کہ

  1. جمعیۃ علماء اسلام کو متحد کر کے حسب سابق ایک جماعت کی شکل دے دی جائے۔
  2. یہ قابل عمل نہ ہو تو جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑے او رسپاہ صحابہؓ انتخابی اتحاد بنا کر اکٹھے الیکشن لڑیں۔
  3. یہ بھی مشکل ہو تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ جن سیٹوں پر باہمی مقابلہ ہوتا ہے اور آپس کے مقابلہ کی وجہ سے سیٹیں ضائع ہو جاتی ہیں ان پر باہمی انڈراسٹینڈنگ کر کے باہمی مقابلہ سے گریز کیا جائے تاکہ انتخابی حلقے محفوظ رہیں۔

اس وقت ہماری یہ گزارشات قبول نہیں ہوئی تھیں، لیکن یہ تجاویز ہماری طرف سے آج بھی موجود ہیں اور ایک بار پھر گزارش ہے کہ دونوں راہنما ان کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔

دوسری گزارش ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد، امریکی استعمار کے عزائم کے مقابلہ اور دینی مدارس و مراکز کے تحفظ جیسے اہم اہداف کی خاطر دیوبندی مکتب فکر کی اکثر و بیشتر دینی و سیاسی جماعتوں کا ایک متحدہ محاذ ’’مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے نام سے گزشتہ سال قائم ہوا تھا جس میں جمعیۃ علماء اسلام کے دونوں دھڑے اور سپاہ صحابہؓ بھی شامل ہیں۔ مگر کچھ ذہنی تحفظات کی وجہ سے دونوں جماعتوں کی قیادت خود اس میں آگے آنے سے گریز کر رہی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ متحدہ محاذ ایک اچھا فورم ہے اور اگر مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق خود آگے بڑھ کر اس کی قیادت کریں تو علماء دیوبند کی منتشر قوت کو ایک بار پھر متحد کیا جا سکتا ہے۔ اور دونوں لیڈروں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ دیوبندیوں کی قوت اگر کسی بھی حوالہ سے متحد ہوگی تو اس کا سیاسی فائدہ انہی دو قائدین کو ہوگا، اس لیے حوصلہ کر کے آگے بڑھیں اور علماء اور کارکنوں کی دعائیں لیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter