اراکان اور کشمیر میں مماثلت

   
۱۲ ستمبر ۲۰۱۷ء

میانمار (برما) کی حکمران پارٹی کی سربراہ آنگ سان سوچی نے بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور میانمار کو ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے کہ روہنگیا (اراکان) اور کشمیر کے تنازعات ملتے جلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح بھارت کو کشمیر میں دہشت گردی کا سامنا ہے اسی طرح ہمیں بھی روہنگیا میں مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردی کا معاملہ درپیش ہے۔

آنگ سان سوچی نے تو یہ بات بھارتی حکمرانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کی ہے جو ایک مفروضہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن کشمیری اور روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ ایک جیسا ہونے کی بات ایک اور حوالہ سے ہم بھی اس کالم میں متعدد بار کر چکے ہیں۔ وہ اس طور پر کہ اراکان کم و بیش ساڑھے تین سو سال ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود رہا ہے۔ برطانوی استعمار نے برصغیر پر تسلط کے دوران برما کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کی اس ریاست پر بھی قبضہ کر لیا تھا لیکن جب اس نے برما کو آزادی دی تو اس سے قبل اراکان کو تقسیم کر دیا اور اس کے بڑے شہر چٹاگانگ کو بنگال میں شامل کر کے باقی ماندہ ریاست کو برما کے بدھ حکمرانوں کے حوالہ کر دیا ۔ اس باقی ماندہ علاقے کے شہری اس وقت سے بدھ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر و تشدد کا بھی مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی پس منظر میں قیام پاکستان کے وقت اراکان کے بعض مسلمان راہ نماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ چٹاگانگ کی طرح باقی ماندہ اراکان ریاست کو بھی پاکستان میں شامل کیا جائے۔ ان کی اس معصوم خواہش نے بدھ حکومت اور دہشت گردوں کے غیظ و غضب کو تب سے دوچند کر رکھا ہے اور یہ غریب عوام پون صدی سے اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔

اس بنیاد پر ہم نے ایک موقع پر عرض کیا تھا کہ متحدہ پاکستان کے دور میں اراکان مشرقی پاکستان کے کشمیر کی حیثیت رکھتا تھا لیکن کشمیر کی طرح کی توجہ اراکان کو حاصل نہیں ہو سکی۔ آنگ سان سوچی اگر اراکان اور کشمیر کے مسائل کو ایک جیسا کہہ رہی ہیں تو اس کا اصل پہلو یہ ہے جو سب کے سامنے رہنا چاہیے تاکہ اس مسئلہ کو اس کے صحیح تناظر میں حل کرنے کی کوشش منظم کی جا سکے۔ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور اس پر عالم اسلام کے ردعمل کے بارے میں بات چیت چلتی رہے گی تاہم اس سلسلہ میں معروضی صورتحال پر دو رپورٹیں پیش خدمت ہیں جو ملت اسلامیہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک رپورٹ ترکی کی خاتون اول محترمہ امینہ اردوان کے دورۂ بنگلہ دیش کے بارے میں ہے جو محترم مسعود ابدالی کے شکریہ کے ساتھ شامل اشاعت کی جا رہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

’’ترک خاتون اول امینہ اردوان اپنے بیٹے بلال اردوان، سماجی امور کی وزیر فاطمہ بتول، ترک ہلال احمر کے سربراہ ابراہیم آلتن اور کئی ترک این جی اوز کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچیں۔ شاہ جلال ایئرپورٹ پر بنگلہ دیش کے وزیرمملکت برائے خارجہ امور شہریار عالم نے ان کا استقبال کیا۔ جب انہیں استقبالی مشروبات پیش کیے گئے تو امینہ صاحبہ نے شکریے کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں برمی بچوں کے ساتھ کیمپ میں ہی پانی پیوں گی۔ یہ کہہ کر وہ سیدھا کاکسس بازار روہنگیا مہاجرین کے کیمپ روانہ ہوگئیں جہاں ترک وزیرخارجہ مولت چاوش اوغلو پہلے ہی موجود تھے۔ کیمپ میں بڑا جذباتی منظر تھا، چھوٹی سی جگہ میں پچاس ہزار افراد ٹھنسے ہوئے تھے، کئی نوجوانوں کے جسموں سے خون بہہ رہا تھا، زخمی نوجوانوں اور عصمت دری کا شکار بچیوں کو دیکھ کر امینہ اردوان زار و قطار رو پڑیں لیکن فورًا ہی خیال آیا کہ وہ تو حوصلہ بڑھانے آئی ہیں، چنانچہ چہرے پر ماں کی شفیق مسکراہٹ سجا کر پوچھا، بچو! پڑھائی کر رہے ہو؟ بچے خاموش رہے۔ جواب میں مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بولیں، بہت بری بات ہے، کل سے سب بچے پڑھیں گے اور پہلا سبق میں پڑھاؤں گی۔

ترکی نے امدادی سامان کی پہلی کھیپ میں کتابیں، بلیک بورڈ اور کلاس کا سامان بھیجا ہے۔ چند ترک ٹیچر بھی ساتھ آئے ہیں۔ ترک خاتون نے ایک ایک عورت کو گلے لگایا، ماتھا اور گال چوما۔ گرم و مرطوب موسم میں کئی دن کے سفر سے ان خواتین کے جسموں سے پسینے کی ناگوار بو کے بھبکے اڑ رہے تھے۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون اسی بنا پر ان کے قریب آنے سے ہچکچائی تو ترک خاتون اول نے اسے گھسیٹ کر اپنے قریب کیا اور گلے لگاتے ہوئے بولیں ’’مسلم اخوت مشک و عنبر سے زیادہ معطر ہے‘‘۔ اسے اپنی بانہوں میں لیے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے اور کہا ’’اے ہمارے رب! قیامت کے دن اپنے سایۂ رحمت میں ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ نصیب فرمائیے‘‘۔ انہوں نے برمی مہاجرین کو یقین دلایا کہ ترکی انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ترک ہلال احمر کے عملے نے تمام کیمپوں میں اپنے دفاتر قائم کر لیے ہیں جبکہ مختلف ترک این جی اوز نے بحالی کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس خوف و دہشت کے اثرات کو زائل کرنا ہے جو ان مہاجرین پر طاری ہے۔ اس مقصد کے لیے ترک ماہرین نفسیات کیمپوں میں تعینات کیے گئے ہیں، بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔

شام کو امینہ اردوان نے ڈھاکہ میں وزیراعظم حسینہ واجد سے ملاقات کی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی پر ترک حکومت کے سخت ردعمل کی بنا پر بنگلہ دیش اور ترکی کے درمیان سفارتی کشیدگی ابھی تک موجود ہے۔ ملاقات میں ترک خاتون اول نے حسینہ واجد کو یقین دلایا کہ برمی پناہ گزین بنگلہ دیش کی معیشت پر بوجھ نہیں بنیں گے اور ان کی کفالت کے جملہ اخراجات ترکی برداشت کرے گا۔ ‘‘

جبکہ دوسری رپورٹ گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی ہے جس کی پریس ریلیز درج ذیل ہے۔

’’مرکزی جمعیۃ اہل حدیث گوجرانوالہ کی طرف سے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین تشدد کے خلاف اہلیان گوجرانوالہ کے جذبات کی ترجمانی کے لیے امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث گوجرانوالہ علامہ پروفیسر محمد سعید کلیروی کی زیرصدارت آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اے پی سی میں علامہ محمد صادق عتیق، علامہ زاہد الراشدی، علامہ خالد حسن مجددی، علامہ کاظم ترابی، قاری جواد قاسمی، چوہدری بابر رضوان باجوہ، مولانا نصیر احمد اویسی، مظہر اقبال رندھاوا، سید واجد علی گیلانی، میاں فضل الرحمان چغتائی اور دیگر نے شرکت کی۔ ناظم اعلیٰ صاحبزادہ حافظ عمران عریف نے اے پی سی کے اختتام پر اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج کی اے پی سی نے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین ظلم و تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مالدیپ کی طرح پاکستان بھی میانمار حکومت سے سفارتی تعلقات منقطع کرے اور سفیر کو ملک بدر کرے۔

اے پی سی کی ایک قرارداد میں مالدیپ اور ترکی کو روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے خلاف جرأت مندانہ موقف پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ نیز اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کی میزبانی میں آئندہ جمعہ کو ’’آل پارٹیز بیداریٔ ملت و عزم تحفظ امت ریلی‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا جس کے لیے حافظ محمد عمران عریف کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں جمعیۃ علماء اسلام، جمعیۃ علماء پاکستان، جماعت اسلامی، تاجر برادری کے نمائندگان شامل ہوں گے۔

اے پی سی کے اعلامیہ میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے قائم مقام امیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ علی محمد ابو تراب کے کوئٹہ میں دن دہاڑے اغوا کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ جبکہ جماعت اسلامی کی اسلام آباد میں برما کے سفارت خانے کی طرف ریلی پر تشدد کی بھی مذمت کی گئی۔ اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اجلاس علامہ سعید کلیروی نے مطالبہ کیا کہ آنگ سان سوچی سے امن کا نوبل انعام واپس لیا جائے۔ علامہ زاہد الراشدی نے کہا کہ برما میں مسلمانوں کا قتل عام بدترین دہشت گردی ہے۔ علامہ خالد حسن مجددی نے کہا کہ مسلم امہ متحد ہو کر برماوی مسلمانوں کا تحفظ کرے۔ علامہ کاظم ترابی نے کہا کہ امت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ورنہ ایک ایک کر کے سب مرتے جائیں گے۔ جمعیۃ علماء پاکستان کے راہنما مولانا نصیر احمد اویسی نے کہا کہ دنیا کا سب سے پر امن مذہب رکھنے کے دعوے داروں نے ظلم و ستم میں خود کو بدترین انسان ثابت کیا ہے۔ چیئرمین سیاسی کمیٹی مرکزی جمعیۃ اہل حدیث مولانا میاں محمد سلیم شاہد نے کہا کہ انڈونیشیا میں مشرقی تیمور اور سوڈان میں دارفور کا مسئلہ محض عیسائی آبادی ہونے کی وجہ سے حل کیا جا سکتا ہے تو برما میں روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ کیوں حل نہیں کیا جا سکتا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے چوہدری بابر رضوان باجوہ نے کہا کہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں متحد ہوجانا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے مظہر اقبال رندھاوا نے کہا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ اے پی سی میں تاجر برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے میاں فضل الرحمان چغتائی نے کہا کہ تاجر برادری روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہر لحاظ سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔ اے پی سی میں مولانا محمد عارف اثری، مولانا محمد ابرار ظہیر، حافظ مقصود احمد، عبد الرحمان عظیم، مولانا امیر حمزہ طور، مولانا عباس راشد، قاری محمد شفیق بٹ، مولانا عبد الغفار قمر اور دیگر نے شرکت کی۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter