گزشتہ دنوں امریکی ریاست ورماؤنٹ کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی کہ وہاں کی عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ میں ہم جنس پرست جوڑے کو قانونی طور پر میاں بیوی کی حیثیت دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر اکٹھے رہنے والے افراد کے لیے ان حقوق اور تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنائے جو قانونی طور پر میاں بیوی کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے چند ہفتے قبل ایک برطانوی عدالت کا یہ فیصلہ بھی منظر عام پر آچکا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑے کے ایک فرد کے انتقال کے بعد دوسرے شخص کو قانونی طور پر اپنے ساتھی کا وارث تسلیم کیا جائے اور اسے وراثت کا حقدار قرار دیا جائے۔ ایک شخص نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا تھا کہ وہ اور اس کا ایک ساتھی ہم جنس پرست جوڑے کے طور پر اکٹھے رہتے تھے، اب اس کے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے اسے قانونی طور پر اس کا وارث تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ برطانوی عدالت نے اس کا موقف تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیا ہے۔
مغربی معاشرہ کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے نزدیک قانون و سیاست کے فیصلے تو رہے ایک طرف، اخلاق اور مذہب کی روایات و اقدار کے تعین کا دارومدار بھی سوسائٹی کی اجتماعی عقل پر ہوتا ہے۔ معاشرہ کی ۵۱ فیصد آبادی جس بات کو قبول کر لے اسے قانون، سیاست، مذہب اور اخلاق ہر لحاظ سے مسلمہ حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ چند سال قبل مذہب کے حوالہ سے بھی اسی نوعیت کا ایک فیصلہ سامنے آیا تھا جب برطانوی معاشرے میں بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے مردوں اور عورتوں کا تناسب پچاس فیصد سے بڑھ گیا تو برطانیہ کے سب سے بڑے مذہبی ادارے چرچ آف انگلینڈ نے ماتحت شاخوں کو یہ سرکلر جاری کیا کہ آئندہ کسی مرد اور عورت کے بغیر شادی کے اکٹھا رہنے کے عمل کو ’’گناہ‘‘ نہ کہا جائے۔ ورنہ جہاں تک مذہب اور انسانی اخلاق کا تعلق ہے تو بغیر شادی کے مرد اور عورت کے اکٹھا رہنے یا ہم جنس پرستی کو کسی مذہب اور کسی فلسفہ اخلاق میں کبھی روا نہیں سمجھا گیا، اور ہر مذہب اور نظام اخلاق نے ایسے اعمال کی مذمت اور ممانعت کی ہے۔
قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی تباہی اور اس پر خدائی عذاب کی سب سے بڑی وجہ کفر و شرک کے بعد یہی ’’عمل بد‘‘ تھا جسے ہم جنس پرستی کے عنوان سے جدید کلچر میں ایک معاشرتی حق کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حق کے حصول اور تحفظ کے لیے نہ صرف اجتماعات، مظاہرے، مطالبات اور قراردادیں ہوتی ہیں بلکہ بہت سے مغربی ممالک نے اس عمل بد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قوانین بھی بنا رکھے ہیں اور عدالتیں اسے مسلسل تحفظ مہیا کرتی جا رہی ہیں۔ جبکہ نہ صرف قرآن کریم بلکہ بائبل میں بھی اس عمل بد کو گناہ اور غضب الٰہی کا باعث قرار دیا گیا ہے اور اس پر سزائے موت تجویز کی گئی ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی وہ بستیاں جو سدوم، عمورہ، ادمہ، صبیان اور صغر کے نام سے آباد تھیں اسی وجہ سے عذاب الٰہی کا شکار ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں کہ ان بستیوں کے باشندے حضرت لوط علیہ السلام کی تبلیغ و نصیحت کے باوجود اس بدکاری اور بدفعلی سے باز آنے اور وحی الٰہی کے احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ بحیرۂ مردار کے کنارے آج بھی ان تباہ شدہ بستیوں کے آثارِ عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔
زنا کے بارے میں قرآن کریم کے ارشادات واضح ہیں کہ اس قبیح فعل کے ارتکاب پر سنگسار کرنے اور کوڑوں جیسی سخت سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ جبکہ ہم جنس پرستی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا کرنے والے دو مرد ہوں یا دو عورتیں وہ سب خدا تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ہیں۔ ابوداؤد شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب رسول اللہؐ کا ارشاد ہے کہ ہم جنس پرستی کے مرتکب دونوں افراد کو قتل کر دو۔ امام بیہقیؒ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے دور کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ اس جرم کے مرتکب ایک شخص کو حضرت خالد بن ولیدؓ نے گرفتار کیا اور حضرت صدیق اکبرؓ سے دریافت کیا کہ اس کو کیا سزا دی جائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا تو حضرت علیؓ نے رائے دی کہ اسے موت کی سزا اس طرح دی جائے کہ آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کے حکم پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسے آگ کی نذر کر دیا۔ اسی طرح جناب جناب رسول اکرمؐ نے عورتوں کی ہم جنس پرستی کا بھی ’’سحاق‘‘ کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کی مرتکب عورتوں کو ملعون قرار دیا ہے۔
مگر آج کا مغربی معاشرہ ثقافت اور حقوق کے نام سے ان تمام ملعون اقدار کو فروغ دے رہا ہے جن کو مٹانے کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے تھے اور جن اقدار کو جناب رسول اللہؐ نے جاہلی اقدار قرار دے کر ان سے انسانی سوسائٹی کو پاک کرنے کو اپنا سب سے بڑا مشن قرار دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اقدار کو جاہلیت قرار دے کر انسانی معاشرہ سے ختم کیا تھا ان پر ایک نظر ڈال لیجئے اور آج کے جدید کلچر کی اقدار سے ان کا تقابل کر لیجئے آپ کو ان میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔
- سود،
- جوا،
- ناچ گانا،
- شراب نوشی،
- زنا،
- ہم جنس پرستی،
- حلال و حرام کے فرق کے بغیر معیشت،
- نسل، علاقہ اور قبیلہ کی بنیاد پر عصبیت،
- کہانت یعنی ستاروں کی چالوں کی بنیاد پر پیش گوئیاں،
- بے پردگی،
- جادو،
- معاشی تنگی کے خوف سے اولاد کا قتل،
- باہمی قتل و قتال،
- بدکاری بطور پیشہ
جیسی بری خصلتیں آج بھی انسانی سوسائٹی میں رائج الوقت اقدار کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور ان میں سے بہت سے امور کو جدید کلچر کی علامت قرار دیا جانا بھی شاید خلاف واقعہ نہ ہو۔ حالانکہ یہی وہ اقدار و روایات ہیں جنہیں نہ صرف جناب نبی اکرمؐ بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہر سچے پیغمبر نے جاہلیت کی علامت قرار دیا تھا اور ان کی مذمت کی تھی، ان سے بیزاری کا اظہار کیا تھا اور انسانوں کو ان سے روکا ہے۔ مگر اسی ’’جاہلی کلچر‘‘ پر حقوق اور آزادی کا خوبصورت لیبل چسپاں کر کے آج پھر انسانی سوسائٹی کو ان کا خوگر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔