بدقسمتی سے ہماری سیاست اس وقت مکمل طور پر غیر ملکی حصار میں جکڑی ہوئی ہے۔ بڑے سیاسی راہنما غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ان کے اشارہ ابرو پر چلنے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔ اس تگ و دو میں وہ دینی مسلمات اور صریح احکامات تک کو ہدف تنقید بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ لادین سیاسی نظریات کی حامل تنظیمیں تو ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات اور قوانین و ضوابط کی تضحیک کو اپنا بہترین مشغلہ بنائے ہوئے ہیں مگر افسوس تو ان دینی عناصر پر ہے جو اپنی سیاست کو دین کے تابع قرار دیتے ہیں مگر تضحیک آمیز رویوں اور دین دشمن مشاغل و سرگرمیوں میں کھلم کھلا ملوث تنظیموں کی ہمدرد اور رفیق بنے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن مسز بے نظیر زرداری نے حال ہی میں ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ اور وحشیانہ قرار دیا ہے۔ مسز زرداری تو خیر کبھی اسلامی تعلیمات سے وابستہ ہی نہیں رہیں، ان سے اس کے علاوہ توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟ مگر مسز زرداری کا تسلسل سے یہ رویہ ان علماء اور دینی کارکنوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو خود کو انبیاءؑ کا وارث قرار دیتے ہیں اور مسجد و محراب و منبر کے امین اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے نقیب ہیں، انہیں اپنے اس دین بیزار رویہ کو ترک کرتے ہوئے اور مسز زرداری سمیت تمام لادین اور سیکولر سیاستدانوں اور سیاسی تنظیموں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ان کے خلاف مشترکہ محاذ بنانا چاہیے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کو تیز تر کر دینا چاہیے۔ دینی طبقہ پہلے ہی کافی بدنام ہو چکا ہے، اب اسے سیکولر اور لادین سیاستدانوں کے دامن میں پناہ لینے کی بجائے باہمی اتحاد کی راہ کو اختیار کرنا چاہیے۔
افغان جارحیت اور جنیوا معاہدہ
افغان طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کو تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے مگر پشاور کے قریب اس نے جس طرح شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کی ہے وہ تمام بین الاقوامی قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ افغان انتظامیہ کی اس دہشت گردی کے نتیجہ میں ایک پاکستانی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ افغان طیاروں نے یہ سب کچھ اس وقت کیا ہے جب مجاہدین نے پورے افغانستان میں ان کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ اپنی اس اندرونی کشمکش اور پسپائی سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے سلسلہ میں شدت پیدا کر دی ہے۔ افغان طیاروں کی یہ کاروائی جنیوا معاہدہ کی صریح خلاف ورزی ہے اور پاکستانی حکمرانوں اور قوموں کے علاوہ جنیوا معاہدے کے دونوں ضامنوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ افغان انتظامیہ کی اس متشددانہ دہشت گردی کی بین الاقوامی سطح پر جو مذمت ہوگی وہ اپنی جگہ ہے مگر حکومت پاکستان کو بھی اس معاملہ میں ڈھیلی ڈھالی پالیسی کی بجائے دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔