افغان عوام کا جہادِ حریت سیاسی اور فوجی دونوں محاذوں پر فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ جہادِ آزادی جو آج سے آٹھ نو برس پہلے چند سو سرفروشوں کے نعرۂ مستانہ کے ساتھ شروع ہوا تھا، قربانی، ایثار اور جہد و استقلال کے کٹھن مراحل سے گزرتا ہوا آج اس مرحلہ تک پہنچ چکا ہے کہ افغانستان کے اسی فیصد علاقہ پر مجاہدین کا کنٹرول عملاً قائم ہو گیا ہے۔ روس جیسی استعماری قوت اور عالمی طاقت کو افغان مجاہدین کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ اب واپسی کے ارادہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے بعد قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں تحفظات کی تلاش میں ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو تئیس ممالک کی حمایت سے منظور ہونے والی قرارداد کے ذریعے عالمی رائے عامہ نے افغان مجاہدین کی جدوجہد اور موقف کی مکمل حمایت کر دی ہے اور وہ افغان زعماء جن کی جرأت قلندرانہ کو آج سے نو سال قبل عقل و دانش سے عاری اور خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا تھا، اب انہیں افغانستان کے مستقبل کے حکمران کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ افغانستان کے غیور علماء اور دیندار عوام کے اس جذبہ و حوصلہ اور عزیمت و استقامت کا صلہ ہے جس کا اظہار انہوں نے روسی استعمار کے تسلط کے خلاف پورے جوش و خروش کے ساتھ کیا ہے اور نصف کروڑ کے لگ بھگ افراد کی جلاوطنی اور ڈیڑھ ملین کے قریب نفوس کی شہادت کے باوجود غیر ملکی استعمار کے تسلط کو قبول نہ کر کے انہوں نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ حق، خلوص اور جہد و استقلال کی طاقت آج بھی اس دنیا میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جسے اس زمین و آسمان کے خالق و مالک کی پشت پناہی حاصل ہے، یہ طاقت ناقابل شکست ہے، ناقابل انکار ہے اور اس کے ناقابل عبور ہونے پر غیور و جسور افغان عوام نے اپنے خون کے ساتھ ایک بار پھر مہر ثبت کر دی ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت افغان عوام کے جہادِ حریت کو اس کے منطقی نتیجہ تک پہنچائیں اور افغان مہاجرین و مجاہدین کو ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی افغانستان کی تعمیر نو کے ساتھ دنیائے اسلام کی راہنمائی کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔