روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۲ جنوری ۲۰۰۳ء کی خبر کے مطابق صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے سرکاری سکولوں میں میٹرک تک تعلیم مفت دی جائے گی۔ اجلاس میں دیگر کئی اہم فیصلوں کے علاوہ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ صوبہ میں اردو سرکاری زبان ہوگی اور صوبائی سطح پر تمام پیشہ وارانہ اور مقابلے کے دیگر امتحانات اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہوا کریں گے۔
صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے یہ دونوں فیصلے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور اگر ان پر صحیح طور پر عمل ہوگیا تو نہ صرف صوبہ سرحد میں بلکہ پورے ملک میں اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے لیکن ہمیں ایک بات بری طرح کھٹکتی ہے کہ اب سے تیس برس قبل ۱۹۷۲ء میں جب جمعیۃ علماء اسلام کے قائد حضرت مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تھے تو انہوں نے بھی صوبہ سرحد میں اسی طرح شراب پر پابندی اور اردو کو سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا تھا اور ان کے دور میں ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہوا تھا لیکن اس کے تین عشرے بعد جب مفتی صاحبؒ کی جماعت ہی کے ایک اور راہنما اکرم خان درانی نے وزارت اعلیٰ کا چارج لیا ہے تو انہیں تیس سال قبل کے ان اعلانات کو پھر سے دہرانے اور انہی فیصلوں کو دوبارہ نافذ کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے، اس پہلو پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جو طبقہ محکموں اور دفاتر میں بیٹھا ملک کا نظام چلا رہا ہے اور جن کے ہاتھوں میں ملک کی انتظامی مشینری کی باگ ڈور ہے، ان کی تعلیم و تربیت ہی اس ماحول میں ہوئی ہے کہ وہ انگریزی، شراب اور ان کے دیگر لوازمات کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اور اگر کبھی عوام اور دینی قوتوں کے دباؤ کے باعث انہیں انگریزی اور شراب سے تھوڑی دیر کے لیے پیچھے ہٹنا پڑے تو وہ دباؤ کم ہوتے ہی خودبخود سابقہ پوزیشن پر واپس چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اصل ضرورت افسر شاہی اور بیورو کریسی کی ذہنی تطہیر اور تعلیم و تربیت کی ہے کہ جب تک ان کے ذہنوں میں اسلامی احکام اور قومی روایات کی اہمیت کو مناسب جگہ حاصل نہیں ہوگی، اس وقت تک اصلاح احوال کی ہر کوشش اسی طرح ناکام ہوتی رہے گی۔
چنانچہ ہم اکرم خان درانی اور ان کے رفقاء کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بیماریوں کی اصل جڑ کی طرف بھی توجہ دیں کہ جب تک ملک کا نظام عملی طور پر چلانے والوں کے ذہنوں سے انگریزی اور شراب کا کیڑا نہیں نکلے گا اس وقت تک نظام و قانون کی تبدیلی کا کوئی عمل بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکے گا۔