۲۲ اپریل کو جب عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کے ہمراہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے سیمینار میں شرکت کے لیے عصر سے قبل فیصل مسجد اسلام آباد پہنچا سیمینار کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کی آخری نشست مغرب کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ہو رہی ہے اس لیے اب وہاں جانا ہوگا۔ البتہ فیصل مسجد کی ایک دیوار پر بینر دیکھنے میں آیا جس کے مطابق اس سے اگلے روز یعنی ۲۳ اپریل کو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کی طرف سے اسی مقام پر قرآن کریم کے نادر نسخوں کی نمائش کا آغاز ہو رہا تھا اور اس کا افتتاح صدر جنرل پرویز مشرف نے کرنا تھا۔
ادارہ تحقیقات اسلامی کا سیمینار ’’برصغیر میں مطالعہ حدیث‘‘ کے عنوان پر تھا جو دو روز سے جاری تھا اور اس کی آخری نشست میں ’’احادیث پر موجودہ کام اور مستقبل کی ضرورتوں کا جائزہ‘‘ کے عنوان پر میرا مقالہ تھا اس لیے ہم وہاں چلے گئے جہاں مغرب کے بعد یہ نشست ہوئی۔ اس نشست میں بین الاقوامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حسن محمود الشافعی، پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی، پروفیسر ڈاکٹر احمد الغزالی، پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر، پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن اور پروفیسر ڈاکٹر باقر خاکوانی نے حدیث نبویؐ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے حال اور مستقبل کی ضروریات پر اظہار کیا اور راقم الحروف نے بھی اپنا مضمون پڑھا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید الطاف حسین اس نشست کے صدر تھے جبکہ مہمان خصوصی کی مسند عزت افزائی کے لیے مجھے سونپ دی گئی تھی۔
ہم نے دوسرے روز بعض ضروری کاموں کے حوالہ سے اسلام آباد میں رکنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور خیال تھا کہ اسی دوران فیصل مسجد بھی جائیں گے اور قرآن کریم کے نادر نسخوں کی نمائش پر ایک نظر ڈالتے چلیں گے بلکہ دعوۃ اکیڈمی کے بعض دوستوں نے باقاعدہ وہاں آنے اور علماء کی ایک تربیتی نشست میں گفتگو کی دعوت بھی دے دی۔ مگر بعد میں مشاورت میں یہ بات سامنے آئی کہ ۲۳ اپریل کو صدر جنرل پرویز مشرف نے وہاں آنا ہے اور نمائش کا افتتاح کرنا ہے اس موقع پر سکیورٹی کے کئی مسائل ہوں گے اور آمد و رفت میں کئی تحفظات سامنے آئیں گے اس لیے اس روز وہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ چنانچہ نمائش پر ایک نظر ڈالنے کی حسرت دل میں لیے ہم گوجرانوالہ واپس آگئے۔ لیکن واپس پہنچتے ہی سب سے پہلے یہ پتہ چلا کہ قرآن کریم کے نادر نسخوں کی اس نمائش کی افتتاحی نشست میں شرکت کا باضابطہ دعوت نامہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کی طرف سے ٹی سی ایس کے ذریعے گھر پہنچا ہوا ہے۔ مگر اب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ اس نشست کے لیے یا ویسے بھی نمائش کے لیے دوبارہ سفر کی طے شدہ مصروفیات میں گنجائش نہیں تھی اس لیے اس نمائش کے حوالہ سے اخباری رپورٹوں پر ہی گزارہ کرنا پڑا جن میں بطور خاص دلچسپی کی چیز صدر جنرل پرویز مشرف کا وہ خطاب ہے جو انہوں نے افتتاحی تقریب میں کیا اور جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
اخباری رپورٹوں سے پتہ چلا کہ اس نمائش میں قرآن کریم کے نادر نسخوں کے علاوہ اس موقع پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض تبرکات کی زیارت کا بھی اہتمام تھا جس سے دل کی حسرت کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے ایک نادر اور تاریخی نسخے کی زیارت کے لیے ۱۹۸۵ء میں کراچی سے لندن جاتے ہوئے حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹی اور راقم الحروف ایک روز کے لیے استنبول رکے تھے۔ یہ نسخہ استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں ہے اور یہ وہ نسخہ ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا تھا اور اس پر حضرت عثمانؓ کے خون کے دھبے بھی موجود ہیں۔ مگر ہم اس کی زیارت نہ کر سکے کہ ان دنوں میوزیم مرمت کے لیے بند تھا، البتہ استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک پر حاضری اور دعا کی سعادت حاصل ہو گئی۔
قرآن کریم کا ایک اور نادر نسخہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں ہے جو متعدد عثمانی، صفوی اور مغل حکمرانوں کے پاس رہا ہے اور اس پر ان بادشاہوں کی مہریں بھی ثبت ہیں جن کے پاس یہ قرآن کریم مختلف اوقات میں تھا۔ اس کے آخر میں لکھا ہے کہ ’’کتبہ عثمان بن عفان‘‘ کہ قرآن کرم کا یہ نسخہ حضرت عثمانؓ کا تحریر کردہ ہے۔ مجھے اس نسخے کی زیارت کا موقع ملا ہے اور میں اس کے دیدار سے بحمد اللہ تعالیٰ شاد کام ہوا ہوں۔
قرآن کریم کے ایک نادر نسخہ کا قصہ مولانا منظور احمد چنیوٹی سناتے ہیں۔ وہ جب پہلی بار ایم پی اے بنے تو اخبارات میں خبر آئی کہ یمن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ کا تحریر کردہ قرآن کریم دریافت ہوا ہے جس پر مغربی ماہرین کی ٹیمیں تحقیقی کام کر رہی ہیں۔ مولانا چنیوٹی خود صنعا گئے اور اس نسخے کی زیارت کی۔ اس کے بارے میں جرمن ماہرین کی ٹیم نے ایک سال کی ریسرچ کے بعد رپورٹ دی ہے کہ فی الواقع یہ حضرت علیؓ کے دور کا نسخہ ہے اور ان کے ہاتھ کا تحریر کردہ ہے۔ راقم الحروف ان دنوں ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کا مدیر تھا، مولانا چنیوٹی اس قرآن کریم کے بعض اوراق کا عکس بھی لائے جن کی فوٹو ہم نے ترجمان اسلام میں شائع کی۔ حضرت علیؓ کے تحریر کردہ اس قرآن کریم کے بارے میں مولانا چنیوٹی نے بطور خاص جس بات کو چیک کیا وہ یہ تھی کہ اس کے مندرجات اور حضرت عثمانؓ کے مصاحف کے مندرجات میں کوئی فرق تو نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے جہاں جہاں شبہ ہو سکتا تھا ان مقامات کو چیک کیا ہے اور کوئی فرق نہیں پایا۔
فیصل مسجد میں قرآن کریم کے نادر نسخوں کی نمائش کی افتتاحی تقریب سے صدر جنرل پرویز مشرف نے جو خطاب کیا اس میں انہوں نے بہت سی فکر انگیز باتیں کی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً انہوں نے دینی مدارس کی تعلیمی اور رفاہی خدمات کا ایک بار پھر یہ کہہ کر ذکر کیا ہے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں جن کے تحت لاکھوں طلبہ اور طالبات کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور انہیں تعلیم دی جاتی ہے، البتہ ان میں جدید علوم کی تعلیم کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ان کالموں میں ہمیشہ اس بات کی حمایت کی ہے کہ ہم دینی مدارس کے نصاب میں ضروری عصری علوم کو شامل کرنے کے حق میں ہیں مگر اس حد تک کہ اس سے خود دینی تعلیم کا نصاب متاثر نہ ہو، اور جدید علوم کا اونٹ دینی مدارس کے خیمے میں داخل کرتے کرتے خود دینی علوم کے نصاب کو ہی خیمہ بدر نہ کر دیا جائے، جیسا کہ اس سے قبل جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں عملی طور پر ہو چکا ہے۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر اسلامی تعلیمات کو جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی جو بات کی ہے وہ تھوڑی سی تجزیہ طلب ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب اگر یہ ہے کہ دینی مدارس اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے جدید اسلوب، مختلف زبانوں، عصری علوم اور سائنٹیفک طریق کار سے استفادہ کریں تو اس کی افادیت و اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے، اور خود ہم بھی دینی مدارس کے ارباب حل و عقد سے بار بار یہ عرض کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ خود اسلامی علوم کو ہی جدید تقاضوں اور جدید علوم کے مطابق ڈھالا جائے تو یہ بات بہرحال محل نظر ہے۔ اس حوالہ سے بھی کہ جدید علوم جو کچھ بھی ہوں انسانی ذہن کی پیداوار ہیں جبکہ اسلامی علوم کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے اور یہ بات ہمارے ایمان سے تعلق رکھتی ہے کہ انسانی ذہن کی تخلیقات کو وحی الٰہی پر بالادستی دینے کا تصور تک نہیں کر سکتے، یہ ایمانیات کا مسئلہ ہے اور اسے ایمانیات ہی کے حوالہ سے دیکھنا ہوگا۔ علاوہ ازیں یہ بات اس حوالہ سے بھی محل نظر ہے کہ جدید علوم اور سائنسی تحقیقات کسی ایک مقام پر رکنے والی چیز نہیں ہے، اس کے نتائج آج سے ایک صدی قبل اور تھے، نصف صدی قبل اس سے مختلف ہو گئے تھے، آج ان سے بھی مختلف ہیں، اور آج سے نصف صدی بعد ان میں اور زیادہ فرق نمودار ہو چکا ہوگا۔ جبکہ وحی اپنے ایمانی حقائق اور بنیادی اخلاقیات کے حوالہ سے جس موقف پر دو ہزار سال قبل قائم تھی آج بھی اسی پر قائم ہے اور اب سے دو ہزار سال بعد بھی اس کا موقف وہی ہوگا۔ اس لیے اسے دن بدن نئے رخ اور مختلف نتائج سے روشناس ہونے والے جدید علوم کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کشمکش میں تو جدید علوم کو ہی بالآخر وحی الٰہی کی بالادستی کے سامنے جھکنا ہوگا کہ دونوں کا فطری مقام یہی ہے۔