برما جسے اب سرکاری طور پر میانمار کہا جاتا ہے، بدھ اکثریت کا ملک ہے جو بنگلہ دیش کے پڑوس میں واقع ہے اور طویل عرصہ تک متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔ برطانوی استعمار نے اسے ایک الگ ملک کی حیثیت دی تھی، جبکہ اراکان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جو صدیوں تک ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر اس خطے کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کا ساحلی شہر چٹاگانگ بھی ایک زمانے میں اراکان میں شامل تھا مگر نوآبادیاتی دور میں برطانوی استعمار نے چٹاگانگ کو بنگال میں اور اراکان کو برما میں شامل کر دیا جس سے اراکان کا یہ علاقہ جو مسلم اکثریت کا خطہ ہے، بودھ اکثریت کے ملک برما کا حصہ بن گیا۔ تب سے اس علاقہ کے مسلمان بودھ اکثریت کے متعصبانہ رویے کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کا شکار بھی چلے آ رہے ہیں اور بہت سے مسلمان گروپ مسلم اکثریتی علاقہ ختم ہونے کے بعد اراکان کی آزادی جدوجہد میں بھی مصروف چلے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور ماضی میں ایک آزاد ریاست رہا ہے، اس لیے آزادی اس کا حق ہے، لیکن عالمی سطح پر ان کے اس موقف اور مطالبہ کو توجہ حاصل نہیں ہو رہی، بلکہ ان پر ریاستی جبر اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مختلف مراحل میں اس قسم کے جبر اور مظالم سے تنگ آ کر وہ اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ لے چکے ہیں اور پاکستان میں بھی برمی مہاجرین کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموشی کے ساتھ اس سارے منظر کو دیکھ رہے ہیں اور مسلم ممالک بھی ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ انہیں برما میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے بھی وہ رسمی اور ظاہری حمایت حاصل نہیں ہے جس کی وہ ان سے توقع رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے اراکان کی صورت حال مقبوضہ کشمیر سے ملتی جلتی ہے۔ البتہ دو باتوں کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو کسی نہ کسی درجے میں ووٹ دینے اور اقتدار میں برائے نام شرکت کا حق ہے، مگر اراکان کے مسلمانوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے اور دوسری یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو پڑوسی مسلمان ملک پاکستان کی حمایت اور سرپرستی میسر ہے، جبکہ اراکان کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش اراکانی مہاجرین کو پناہ دینے اور پناہ گزین کے طور پر ان کی امداد کرنے سے زیادہ اس سلسلے میں کسی مزید پیشرفت کے موڈ میں نہیں ہے جس سے اراکانی مسلمانوں کی بے بسی دوچند ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اراکانی مسلمانوں کا یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے، مسلم حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کریں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو احساس دلایا جائے کہ اراکان کے مسلمانوں کا ’’ماگ‘‘ جیسی دہشت گرد فورسز کے مظالم کا شکار ہونا بھی انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے اور ان مظلوموں کو اس جبر و تشدد سے بچانا بھی انسانی حقوق کے تحفظ کا تقاضا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ عالمی سیکولر حلقوں کی امداد سے چلنے والی این جی اوز کو تو اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتیں بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟