حضرت مولانا حافظ نذیر احمدؒ

   
۱۵ اپریل ۲۰۰۷ء

شیخ الحدیث مولانا حافظ نذیر احمدؒ ہمارے بزرگوں میں سے تھے، ملک کے معروف مدرسہ جامعہ ربانیہ اڈہ پھلور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے بعد گزشتہ دنوں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آنکھوں سے نابینا تھے لیکن ان کے دل کی بینائی نے پورے علاقے کو حق کی راہ پر لگا دیا تھا۔ کم و بیش پچاسی برس عمر پائی اور ساری زندگی پڑھنے پڑھانے اور مخلوقِ خدا کی راہنمائی میں بسر کر دی۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے شاگرد اور والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے دورۂ حدیث کے ساتھی تھے۔

کم و بیش ربع صدی قبل کی بات ہے کہ میں جامعہ ربانیہ کے سالانہ جلسہ میں حاضر ہوا تو مجھے بطور خاص ملاقات کے لیے بلایا اور فرمایا کہ تم میرے بھتیجے لگتے ہو۔ میں نے اس شفقت پر مسرت کا اظہار کیا کہ حضرت مدنی رحمہ اللہ کے سارے شاگرد میرے چچا لگتے ہیں۔ لیکن فرمانے لگے کہ میں تمہارے والد صاحب کے ساتھ دورۂ حدیث میں شریک تھا۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ پھر فرمایا کہ دوپہر کا کھانا تم نے میرے ساتھ کھانا ہے۔ میرے لیے یہ سعادت کی بات تھی، کھانے میں شریک ہوا، سادہ سا کھانا تھا لیکن اس کی لذت و برکات ابھی تک دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ اس کے بعد متعدد بار حاضری ہوئی، ہر بار شفقت و محبت کا نیا انداز ہوتا تھا، ہمیشہ دعا گو رہتے۔ جامعہ ربانیہ میں شیخ الحدیث تھے اور آخر عمر تک بخاری شریف پڑھاتے رہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ والد محترم کے دورۂ حدیث کے جن ساتھیوں سے بھی ملاقات ہوئی ہے وہ یا تو شیخ الحدیث ہیں یا اسی کے لگ بھگ علمی سطح پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے شیخ الحدیث مولانا حافظ نذیر احمدؒ مجھے ختم بخاری شریف پر حاضری کا ضرور حکم دیتے تھے اور میں اسے اپنے لیے باعث سعادت سمجھ کر حاضر ہوتا۔ گزشتہ سال بھی حاضری دی، معذوری کی وجہ سے بیٹھنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور اسٹیج پر لیٹے لیٹے جلسہ کی کارروائی میں شریک رہے۔ میں جامعہ ربانیہ میں حاضری دیتا تو میرے مقاصد میں سب سے بڑا مقصد حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری اور ان کی دعاؤں سے استفادہ ہوتا۔ مگر چند روز قبل تعزیتی جلسہ میں شریک ہوا تو اس نعمت کو نہ پا کر دل سے ہوک سی اٹھی اور یہ معلوم کر کے صدمہ اور زیادہ گہرا ہوگیا کہ حضرت شیخؒ کے پرانے رفیق اور جامعہ ربانیہ کے مہتمم حاجی شاہ محمد صاحبؒ بھی گزشتہ ماہ انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جامعہ کے ناظم اعلیٰ حضرت صوفی حسن محمدؒ اس سے قبل وفات پا چکے ہیں اس طرح یہ تکون جس نے اس بیابان میں علم کی شمع روشن کی اور پورے علاقے کو قرآن و سنت کے علوم سے سیراب کیا اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی مغفرت فرمائیں اور پسماندگان کو ان کی حسنات جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter