بھٹو مرحوم ۔ مخالفین کا خراجِ عقیدت

   
۷ جنوری ۲۰۰۶ء

گزشتہ روز ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سالگرہ منائی گئی اور قوم کے مختلف طبقات اور جماعتوں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان کی قومی خدمات کو سراہنے والوں میں ان کے سیاسی کارکن اور ساتھی بھی تھے اور ان حضرات نے بھی اس سلسلے میں بخل سے کام نہیں لیا جو ان کی زندگی میں ان کے مخالف سیاسی کیمپ میں رہے ہیں بلکہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ بھٹو مرحوم کے دنیا سے چلے جانے کے ربع صدی سے بھی زیادہ عرصے کے بعد انہیں اس انداز سے یاد کیا جانا جہاں پاکستان کی قومی سیاست میں ان کے انمٹ کردار کا اعتراف ہے وہاں یہ قوم کی ان سیاسی محرومیوں کا مرثیہ بھی ہے جو بھٹو مرحوم کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد پاکستانی قوم کا نصیب بن گئی ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مجھے ایک سیاسی کارکن کے طور پر جس دور میں قومی سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کا موقع ملا وہ وہی دور ہے جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے سیاسی سفر کے آغاز اور پھر عروج اور اس کے بعد اقتدار کی سیاست میں ان کے زوال کا دور رہا ہے۔ میں نے اقتدار کی سیاست میں ان کے زوال کی بات جان بوجھ کر کی ہے اس لیے کہ قومی سیاست میں ان کی یاد ابھی تک باقی ہے کہ ان کے نام کے ووٹ بینک میں دراڑیں ڈالنے کی بہت سی کوششوں کو ہم نے دم توڑتے دیکھا ہے۔

بھٹو مرحوم نے جب ایوب خان مرحوم کی وزارت خارجہ سے الگ ہو کر اور بعد ازاں ایک نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے ساتھ قومی سیاست میں قدم رکھا تو میں جمعیۃ علماء اسلام کے نوجوان کارکنوں کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔ بھٹو مرحوم کی زبان پر غریب اور کسان کا نام تھا اور وہ سرمایہ داری اور جاگیرداری کو بلند آہنگی کے ساتھ لتاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام کے شعوری کارکنوں کو استعمار دشمنی کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت بھی ورثے میں ملی، اس لیے جمعیۃ کا جو کارکن شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی جدوجہد سے واقف ہے، کسی بھی استعمار کے ساتھ اس کی دوستی دائرہ امکان سے خارج ہے اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کے لیے اس کے دل میں کبھی کوئی نرم گوشہ نہیں ہو سکتا۔ البتہ ایسے لوگ اب کم رہ گئے ہیں اور جو کسی کونے میں باقی ہیں انہیں ’’معروضی سیاست‘‘ کی جکڑبندیوں نے کسی کام کا نہیں رہنے دیا۔

ایک ’’اپ ٹو ڈیٹ لیڈر‘‘ کی زبان پر غریب، کسان، مزدور اور محنت کش کے حقوق کا نعرہ میرے جیسے کارکنوں کو بہت اچھا لگا اس لیے ہم نے مرحوم سے ابتدا میں بہت سی توقعات وابستہ کر لیں اور کچھ عرصے تک ان کے ساتھ اس نعرے میں ہماری ہم آہنگی بھی رہی۔ مگر سیاست میں ہم زیادہ دیر تک ہم قدم نہ رہ سکے اور جمعیۃ علماء اسلام بھٹو مرحوم کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کی ایسی اپوزیشن بنی کہ بھٹو مرحوم کی زندگی میں ان دونوں جماعتوں کی باہمی محاذ آرائی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ بھٹو حکومت کے خاتمے کا باعث بننے والی تحریک نظام مصطفٰی کی قیادت بھی جمعیۃ علماء اسلام کے قائد مولانا مفتی محمودؒ نے کی۔ اس دوران ایک مرحلہ ایسا آیا جب ان دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے امکانات نظر آنے لگے جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں، پاکستان پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علماء اسلام کے درمیان سہ فریقی معاہدہ ہوا جس کے تحت تینوں جماعتوں نے قومی سیاست میں مشترکہ کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ میرے جیسے کارکنوں کے لیے بہت خوشی کا باعث بنا اس لیے کہ اس وقت میرا احساس یہ تھا، جس میں اب تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمودؒ اور خان عبد الولی خان کے اشتراک سے وجود میں آنے والی اجتماعی لیڈر شپ سے بہتر کوئی سیاسی ٹیم بن ہی نہیں سکتی۔ لیکن تینوں جماعتوں کا یہ ’’ہنی مون‘‘ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ قومی سیاست میں یہ جماعتیں ایک بار پھر آمنے سامنے آگئیں اور بھٹو صاحب کی زندگی میں آمنے سامنے ہی رہیں۔

یہ ساری باتیں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں جب تک سیاسی زندگی میں ایک کارکن کے طور پر متحرک رہا، بھٹو صاحب مرحوم کے مخالف کیمپ میں ہی رہا اور بھٹو حکومت کے ہاتھوں کئی بار جیل یاترا بھی کی۔ مگر سچی بات ہے کہ اب جب بھٹو مرحوم کی یاد آتی ہے تو کئی حوالوں سے ان کی قومی خدمات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتا۔ مجھے محترم مجیب الرحمان شامی کے اس ارشاد سے سو فیصد اتفاق ہے کہ بھٹو مرحوم نے ۱۹۷۳ء کے دستور اور ایٹم بم کے حوالے سے پاکستان کو دو گارنٹیاں فراہم کی ہیں اور یہ دونوں گارنٹیاں آج پاکستان کی حفاظت کا سب سے مضبوط حصار بن چکی ہیں۔ ایٹم بم کے بارے میں بھٹو مرحوم کی سوچ صرف پاکستان تک محدود نہیں تھی جسے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی خان نے اپنی یادداشتوں میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ

’’جناب بھٹو ایک دردمندانہ انداز میں یہ بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ جب یہودیوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور بدھ متوں کے پاس ایٹم بم ہیں تو پھر مسلمانوں کے پاس کیوں نہیں؟ جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں ملک اور فلاں قوم کے پاس ایٹم بم ہے تو پھر میرے دل میں بھی یہ تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس بھی ایٹم بم ہو اور یوں ہم بھی ان اقوام کی ہمسری کرنے کے قابل ہوں اور ہمارا سر بھی فخر سے بلند ہو۔‘‘

پاکستان کو ایٹم بم کی تیاری کی راہ پر ڈالنے والے اور اس کے لیے اسباب و وسائل فراہم کرنے والے پہلے لیڈر بھٹو مرحوم تھے۔ اس لیے آج جبکہ پاکستان کے لیے ایٹم بم رکھنے کا جواز عالمی سطح پر ایک سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے اور ہماری قومی سیاست کے بعض حلقے اس سوال کو مزید گہرا رنگ دینے کی فکر میں ہیں، بھٹو مرحوم کے اس پیغام کو اور زیادہ نمایاں کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ایٹم بم صرف پاکستان کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے پورے عالم اسلام کا منظر ان کے ذہن میں موجود تھا۔

مجھے محترم جناب محمد رفیق تارڑ کے اس ارشاد سے بھی اتفاق ہے کہ بھٹو کی نجات کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلہ اگرچہ قومی اسمبلی کا تھا لیکن اس کے لیے قائد ایوان کے طور پر بھٹو مرحوم کے کردار کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ تارڑ صاحب کا یہ ارشاد پڑھ کر مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا، بھٹو مرحوم کو پھانسی لگے تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ساہیوال میں اپنے ایک دوست عبد المتین چودھری ایڈووکیٹ کی شادی پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں شادیوں پر بھانڈ حضرات جو شو پیش کرتے ہیں ان میں بعض بہت معنی خیز باتیں ہوتی ہیں۔ اس شادی میں بھی دو بھانڈ آگئے اور اپنے مکالمے میں دیگر بعض سیاسی لیڈروں کے ساتھ بھٹو مرحوم کا بھی تذکرہ کیا۔ ایک بھانڈ نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جنت کی سیر کر کے آیا ہوں وہاں میں نے بھٹو صاحب کو ادھر ادھر گھومتے دیکھا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان سے سوال کر دیا کہ بھٹو صاحب آپ جنت میں کیسے آگئے؟ بھٹو صاحب نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا کہ تم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس لیے میں نے تمہیں معاف کیا، جاؤ جنت میں چلے جاؤ۔ ان بھانڈوں کی زبان سے یہ مکالمہ سنتے ہوئے میرا احساس یہ تھا کہ زبان خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے اور یہ بھانڈ خلق خدا کے جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں اس لیے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھٹو مرحوم کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہو۔

پھر بھٹو مرحوم کا اپنا احساس بھی تو یہی تھا۔ پھانسی سے قبل جیل میں ان کی اسپیشل سکیورٹی کے نگران کرنل رفیع الدین نے ’’بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن‘‘ کے عنوان سے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ

’’احمدیہ مسئلہ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک بار کہنے لگے، رفیع! یہ لوگ چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے، یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ایک دن اچانک انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوا ہوں۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی! اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کر دیں۔‘‘

کرنل رفیع کا کہنا ہے کہ میں بھٹو صاحب کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید ان کو گناہ وغیرہ کا کوئی احساس نہیں ہے لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter