مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی، چنیوٹ کے رہنے والے تھے اور دینی تعلیم کے حصول کے بعد چنیوٹ ہی ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ وہ بیک وقت دینی جدوجہد، سماجی خدمت اور سیاسی تگ ودو کے میدان کے آدمی تھے اور تینوں شعبوں میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیوں کا تعاقب تھا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے چنیوٹ میں دینی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ یہ وہ دور تھا جب تقسیم ہند کے بعد قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے قادیان سے ترک سکونت کر کے چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے کنارے پنجاب کے انگریز گورنر سے وسیع قطعہ اراضی لیز پر حاصل کر کے ربوہ کے نام سے نیا مرکز آباد کر لیا تھا۔
دریائے چناب کے ایک کنارے پر قادیانی مرکز ربوہ کے نام سے آباد ہو رہا تھا اور دوسرے کنارے پر چنیوٹ تھا۔ اس لیے چنیوٹ کے علماء نے محسوس کیا کہ پڑوسی ہونے کے ناتے قادیانیوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا او رمسلمانوں کو ان کا شکار ہونے سے بچانا سب سے پہلے ان کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو سب سے زیادہ مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی نے محسوس کیا اور قادیانیوں کے تعاقب میں ایسے مگن ہوئے کہ زندگی کے آخری لمحات تک وہ ان کا سب سے بڑا مشن رہا۔ قادیانی عقائد کی تردید اور عقیدۂ ختم نبوت سمیت مسلمانوں کے اجماعی عقائد کے تحفظ کے لیے ان کا جوش وجذبہ ہمیشہ قابل رشک رہا۔ جوانی کے دور میں وہ پبلک اجتماعات میں پورے جوش وخروش کے ساتھ تین تین چار چار گھنٹے بولتے چلے جاتے۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو جہاں مولانا چنیوٹی نہ پہنچے ہوں اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنے پرجوش خطابات سے نہ گرمایا ہو۔ پاکستان ہی نہیں، درجنوں دوسرے ممالک بھی ان کی اس خطابت کی جولان گاہ رہے ہیں۔ وہ بھارت، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، برطانیہ، امریکہ وکینیڈا، جنوبی افریقہ، سیرا لیون، ایران، ترکی اور دیگر بہت سے ممالک تک پہنچے۔
انہوں نے چنیوٹ میں علمائے کرام اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے تربیتی مرکز قائم کر رکھا تھا جہاں وہ ہر سال عقیدہ ختم نبوت اور دیگر متعلقہ عقائد ومباحث پر مناظرہ وگفتگو کی تربیت دیتے اور علمائے کرام کی ذہن سازی کر کے انہیں قادیانیوں کے مقابلے کے لیے تیار کرتے۔ ملک کے بڑے بڑے مدارس میں انہیں اس مقصد کے لیے بطور خاص دعوت دی جاتی تھی اور وہ علمائے کرام کی بڑی بڑی کلاسوں کو تربیت دیتے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی میں کئی بار انہیں اس قسم کے کورس کرانے کا موقع ملا۔ چند سال قبل دار العلوم دیوبند میں بھی انہیں اس مقصد کے لیے دعوت دی گئی اور انہوں نے دار العلوم دیوبند کے اساتذہ وطلبہ کو کئی ہفتے تربیت دی۔ اس کورس میں دیے گئے ان کے لیکچر کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔
وہ گزشتہ نصف صدی کے دوران قادیانی امت کے سربراہوں مرزا بشیر الدین محمود، مرزا ناصر احمد اور مرزا طاہر احمد کو مباہلے کے لیے مسلسل للکارتے رہے لیکن ان میں سے کسی نے یہ دعوت مباہلہ قبول نہیں کی۔ مرزا طاہر احمد نے ایک موقع پر دنیا بھر کے علمائے کرام کو مباہلے کا چیلنج دیا تو مولانا چنیوٹی نے لندن کے اخبارات میں اشتہارات دے کر یہ چیلنج قبول کیا اور اپنے ساتھیوں سمیت ہائیڈ پارک کارنر میں مقررہ وقت پر کافی دیر تک مرزا طاہر احمد کا انتظار کرتے رہے۔ ربوہ کے نام کی تبدیلی کے لیے انہوں نے طویل جنگ لڑی اور بالآخر پنجاب اسمبلی کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ قادیانیوں نے اپنے نئے مرکز کا نام ربوہ جان بوجھ کر اس لیے رکھا ہے کہ قرآن کریم میں ربوہ کا لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے حوالے سے استعمال ہوا ہے اور چونکہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ (نعوذ باللہ) عیسیٰ بن مریم ہیں، اس لیے اس دعوے کے ساتھ ربوہ کا قرآنی لفظ جوڑ کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے ان کا یہ موقف تسلیم کر لیا اور ربو ہ کا نام بدل کر چناب نگر رکھ دیا گیا۔
قادیانی امت کے سابق سربراہ مرزا طاہر احمد اپنی تقریروں میں مولانا چنیوٹی کو اپنی جماعت کا دشمن اول کہا کرتے تھے اور مولانا چنیوٹی اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے اس کا فخر کے ساتھ ذکر کرتے تھے۔ سیاسی طو رپر وہ جمعیۃ علمائے اسلام سے وابستہ تھے اور آخر دم تک انہوں نے اس ساتھ کو نبھایا۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے ایک مدت تک صوبائی عہدہ دار رہے۔ وہ چنیوٹ سے تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی میں ان کی گفتگو اور جدوجہد کا مرکزی نکتہ اسلامی قوانین کا نفاذ اور عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ رہا۔ ایک مرحلے پر انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو اسمبلی میں لانے کے لیے بھرپور محنت کی اور انہی کی جدوجہد کے نتیجے میں صوبائی معاملات سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات تک صوبائی اسمبلی کے ارکان کی رسائی بھی ہو گئی، مگر اسٹیبلشمنٹ کی ’’ریڈ لائن’’ کو عبور نہ کیا جا سکا۔میاں منظور احمد وٹو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے تو چونکہ ان کے والد معروف قادیانی تھے، اس لیے مولانا چنیوٹی نے پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ کھڑ اکر دیا اور میاں منظور احمد وٹو کو تحریری طور پر وضاحت کرناپڑی کہ ان کے والد ضرور قادیانی تھے مگر وہ خود قادیانی نہیں ہیں بلکہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان ہیں۔
مولانا چنیوٹی نے اپنے مشن کی خاطر متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور طویل عرصہ جیلوں میں گزارا۔ اس دوران انہیں خطرناک مجرم قرار دے کر پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور قید تنہائی کی سزا دی گئی جو انہوں نے بڑے صبر وحوصلہ کے ساتھ برداشت کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاؤں میں بیڑیوں کے ساتھ قید تنہائی کا یہ طویل عرصہ انہوں نے قرآن کریم کی رفاقت میں گزارا اور اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام کی تلاوت کر کے خود کو مصروف ومطمئن رکھا۔
وہ جہد مسلسل اور پیہم مصروفیت کے باوجود ذکر وفکر میں مشغول رہتے۔ وہ ایک شب زندہ دار بزرگ تھے۔ حج بیت اللہ کا ذوق تو گویا ان کی گھٹی میں تھا۔ حج بیت اللہ کے موقع پر حرمین شریفین کی حاضری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ غالباً انہوں نے تین درجن کے لگ بھگ حج اور عمرے کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مجھے بھی ان کے ساتھ حج وعمرہ کے متعدد اسفار میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے حج کے مسائل اور مدینہ منورہ کے آثار کا ان سے بڑا حافظ اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔ مدینہ منورہ کا وہ سفر میرے لیے ہمیشہ یادگار رہے گا جس میں انہوں نے مجھے پورے اطمینان کے ساتھ مدینہ منورہ کے مختلف مقامات دکھائے اور مسجد نبویؐ کی تعمیر کے مختلف مراحل اور ان کی تفصیلات سے واقف کرایا۔ انہیں مسجد نبویؐ کی تفصیلات وجزئیات اور مدینہ منورہ کے دیگر آثار اس طرح یاد تھے جیسے پختہ کار حافظ قرآن کو قران کریم یاد ہوتا ہے، بلکہ اس سفر میں ایک اور خوشگوار تجربہ بھی ہوا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری اور مواجہہ شریف میں صلوٰۃ وسلام پیش کرتے وقت ہر خوش عقیدہ مسلمان کی طرح میری بھی شدید خواہش تھی کہ روضۂ اطہر کی متبرک جالیوں کے قریب ہونے اور ان کے اندر جھانکنے کی سعادت حاصل ہو، مگر وہاں متعین پولیس کا عملہ کسی کو ایک حد سے آگے جانےکا موقع نہیں دیتا، اس لیے ہر حاضری پر یہ تمنا دل ہی میں رہ جاتی۔
ایک دن مولانا چنیوٹی کے ساتھ مواجہہ شریف میں ہدیہ صلوٰۃ وسلام پیش کر رہا تھا کہ ڈیوٹی پر متعین سعودی شرطی نے مولانا چنیوٹی کو دیکھا اور انہیں پہچان کر آگے بڑھا۔ اس نے مولانا چنیوٹی اور مجھ سے مصافحہ کیا اور منہ دوسری طرف کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ ہم اگر جالیوں کے قریب ہو کر اندر جھانکنا چاہیں تو جھانک سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں جالیوں کے قریب ہوئے اور اندر جھانکنے کا شرف حاصل کر لیا۔ نیم اندھیرے میں اندر کا منظر زیادہ واضح نظر نہیں آ رہا تھا، مگر مولانا چنیوٹی نے مجھے اشاروں کے ساتھ روضۂ اطہر کے اندر کا منظر سمجھایا۔ اس طرح مولانا چنیوٹی کی برکت سے مجھے یہ شرف اور برکت حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔
دینی تحریکات میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ تحریک ختم نبوت ہو یا شریعت بل کا معرکہ، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کی جدوجہد ہو یا صحابہ کرامؓ کے ناموس وحرمت کی حفاظت کا مسئلہ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشارت پر عملداری کا معاملہ ہو یا اسلام کے عائلی احکام وقوانین کو تحریف سے بچانے کی بات، وہ دین کے ہر تقاضے پر لبیک کہتے اور پورے جوش وخروش کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹ جاتے۔ ان کی وفات نے ہمیں ایک باغیرت دینی رہنما اور متحرک قائد سے محروم کر دیا ہے اور یہ خلا ایسا ہے جس کے پر ہونے کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور پس ماندگان کو صبر وحوصلہ کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مجھے یہ شر ف حاصل ہے کہ مولانا چنیوٹی ہر اہم معاملہ میں مجھ سے مشورہ ضروری سمجھتے تھے اور میرے مشوروں پر عمل بھی کرتے تھے۔ جماعتی معاملات میں ان سے جو میں عرض کر دیتا تھا وہ آنکھیں بند کر کے مان جاتے تھے حتیٰ کہ یہ بات بہت سے دوستوں کے لیے تعجب کا باعث ہوگی کہ جس زمانہ میں میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور مولانا چنیوٹی پنجاب اسمبلی کے رکن تھے، ایک موقع پر مولانا چنیوٹی کو پنجاب کابینہ میں شرکت کی پیشکش ہوئی۔ مولانا مرحوم کی اپنی رائے یہ تھی کہ انہیں صوبائی وزارت قبول کر لینی چاہیے کیونکہ وہ اس طرح اپنے مشن کے لیے زیادہ مؤثر طور پر کام کر سکیں گے اور تحریک ختم نبوت کے بہت سے رکے ہوئے کاموں کو آگے بڑھا سکیں گے۔ مگر اس دوران جب وہ مشورہ کے لیے گوجرانوالہ آئے تو ہم نے مخالفت کر دی۔ رات کو میرے کمرہ میں علامہ محمد احمد لدھیانوی صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب کے ہمراہ مولانا چنیوٹی سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ہم تینوں نے ان سے گزارش کی کہ وزارت سے ان کے شخصی قد کاٹھ میں اضافہ نہیں ہوگا اور وقتی اور عارضی مفاد کے باوجود ان کی مؤثر شخصیت کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے ہماری اس بات کو مان لیا اور صبح لاہور جاتے ہی وزارت قبول کرنے سے معذرت کر دی۔ایک موقع پر انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی شرط کے ساتھ متعدد علاقائی اور مشنری مسائل کے حل کی پیش کش ہوئی مگر متعدد دوست جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا، اس میں رکاوٹ بن گئے اور انہوں نے ہماری بات کو قبول کر لیا۔
ہم نے پاکستان شریعت کونسل تشکیل دی تو انہوں نے اس سے اختلاف کیا، ان کا خیال تھا کہ ہم جو کام بھی کریں، جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ کے نام سے کریں۔ میرے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ میں جمعیۃ کے موجودہ دھڑوں میں ایک اور کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ ہی انتخابی سیاست کے بجائے صرف نظریاتی اور فکری بنیاد پر کچھ نہ کچھ کام جاری رکھنے کے حق میں تھا۔ ہماری یہ بحث کم وبیش ایک سال تک چلتی رہی، بالآخر انہوں نے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آتی لیکن تم جو کرو گے اس کا ساتھ دوں گا۔ چنانچہ وہ ہمارے ساتھ پاکستان شریعت کونسل میں شریک ہوئے، اس کے اجلاسوں میں شمولیت کرتے رہے اور وفات کے وقت وہ پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے امیر تھے۔
ابھی دو ماہ قبل ہم نے صوبائی شوریٰ کا گوجرانوالہ میں مولانا محمد نواز بلوچ کے پاس اجلاس کیا تو علالت کے باوجود مولانا چنیوٹی تشریف لائے اور اجلاس کی صدارت کی۔ وہ اپنے مشن کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرنے والے اور اپنے دوستوں پر اعتماد کرنے والے بزرگ تھے۔ ان کی یہ باتیں خدا جانے کب تک یاد آتی رہیں گی اور دل پر چرکے لگاتی رہیں گی۔
۱۹۸۴ء میں صدر جنرل محمد ضیاءالحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی اصطلاحات کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قادیانیوں کو روک دیا اور ان کے لیے اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر واصطلاحات کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دے دیا تو قادیانیوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز لندن کو بنا لیا اور وہاں ”اسلام آباد“ کے نام سے نیا مرکز بنا کر اپنی سرگرمیوں کو اسلام کے نام پر ہی جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔اس سے پہلے قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ربوہ (چناب نگر) میں ہوتا تھا اور اس کے مقابلے میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں ہوا کرتی تھی جس سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام خطاب کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ءمیں قادیانیوں نے سالانہ جلسہ لندن میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو بعض علماء کرام کو خیال ہوا کہ اس موقع پر مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس بھی لندن میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور حضرت مولانا محمد ضیاءالقاسمی نے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے ایک فورم قائم کر کے لندن میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تیاریاں شروع کر دیں۔
میں ایک دن اپنے ایک کام کے لیے لاہور شیرانوالہ گیٹ گیا تو وہاں یہ حضرات اس سلسلے میں صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مولانا محمد ضیاءالقاسمیؒ نے کہا کہ اچھا ہوا تم بھی آ گئے ہو۔ ہم یہ مشورہ کر رہے ہیں اور چونکہ تم لکھنے پڑھنے کا کام اچھی طرح کر لیتے ہو اور وہاں تمہاری ضرورت بھی پڑے گی اس لیے تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ اس زمانے میں برطانیہ کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی صرف پاکستانی پاسپورٹ سفر کے لیے کافی ہوتا تھا اور لندن ایئر پورٹ پر مختصر انٹرویو کے بعد ویزا لگ جایا کرتا تھا۔ یہ حضرات جس تاریخ کو کانفرنس منعقد کرنے کا مشورہ کر رہے تھے اس کے دو تین ہفتے بعد حج کا موقع آ رہا تھا، اس لیے میں نے کہا کہ اگر واپسی پر حج کی سہولت مل جائے تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پروگرام بھی یہی ہے اس لیے تم تیاری کرو۔ چنانچہ ہم نے پروگرام بنا لیا اور لندن کے لیے پہلا سفر میں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حضرت مولانا محمد ضیاءالقاسمی کی رفاقت میں ترکش ایئر لائنز سے کیا۔ راستے میں ہم ایک روز استنبول ٹھہرے اور لندن پہنچ کر ہم نے ختم نبوت کانفرنس کے لیے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ جمعیۃ علماء برطانیہ نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا اور انٹر نیشنل ختم نبوت مشن کے زیر اہتمام لندن کے ویمبلے کانفرنس سنٹر میں اگست ۱۹۸۵ءکے دوران عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ بعد میں یہ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن، مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان میں ضم ہو گیا اور دونوں کے اشتراک سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی، مگر معاملات زیادہ دیر تک اکٹھے نہ چل سکے تو انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے حضرات نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے الگ ہو کر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی جو اب تک مسلسل کام کر رہی ہے۔