حضرت مولانا عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ کا شمار پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا میں علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ وفروغ کا ذریعہ بنیں۔ تعلیمی اور تہذیبی حوالے سے مولانا عبد الحقؒ کی دینی، علمی، تدریسی اور فکری خدمات جنوبی ایشیا اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں دینی جدوجہد کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جہاد افغانستان کو دیکھا جائے تو اس کی پشت پر مولانا عبد الحقؒ کی شخصیت پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جو بظاہر ایک منحنی سا وجود رکھتے تھے، لیکن علم و فضل اور عزم و ہمت کے اس کوہِ گراں کے ساتھ کمیونزم کے فلسفہ و نظام نے سر پٹخ پٹخ کر اپنا حلیہ بگاڑ لیا اور آج کا مؤرخ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ جہاد افغانستان کی علمی، فکری اور دینی اساس مولانا عبد الحقؒ کی شخصیت اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا تعلیمی ادارہ دارالعلوم حقانیہ ہے جس کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔
جہاد افغانستان کی علمی و فکری آبیاری میں ہمارے بہت سے بزرگوں کا حصہ ہے، مگر میں تاریخ کے ایک طالب علم اور اس جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر تین شخصیات کو ان سب کا سرخیل سمجھتا ہوں۔ ان میں سے سب سے پہلا نام حضرت مولانا عبد الحقؒ کا ہے اور ان کے بعد جہاد افغانستان کے علمی و فکری سرپرستوں میں میرے خیال میں حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا نام آتا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان کے علماء و طلبہ کو جہاد افغانستان کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا اور افغان مجاہدین کی سیاسی و اخلاقی پشت پناہی کی بلکہ جہاد افغانستان کے خلاف مختلف اطراف سے اٹھائے جانے والے شکوک و اعتراضات کا جواب دیا اور جہاد افغانستان کی ہر لحاظ سے پشتیبانی کی۔
حضرت مولانا عبد الحقؒ کی خدمات کو میں ایک اور حوالہ سے بھی تاریخ کا اہم حصہ شمار کرتا ہوں، اور وہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کی دستوری جدوجہد کا باب ہے۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلیوں میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جس شخصیت نے دستور سازی میں سب سے زیادہ سنجیدہ کردار ادا کیا ہے اور دستور سازی کے تمام مراحل میں پوری توجہ اور تیاری کے ساتھ محنت کی ہے، وہ حضرت مولانا عبد الحقؒ ہیں۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی تیاری کے مرحلہ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ قائد حزبِ اختلاف تھے اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا صدر الشہیدؒ، مولانا نعمت اللہؒ، مولانا عبد الحکیمؒ، مولانا شاہ احمدؒ نورانی، مولانا محمد ذاکرؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور بہت سے دیگر بزرگوں نے اس دستور کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنانے کے لیے محنت کی۔ مگر دستور ساز اسمبلی کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے اور دستور سازی کے مختلف مراحل پر نظر ڈالی جائے تو حضرت مولانا عبد الحقؒ کے جداگانہ اور امتیازی کردار کا تذکرہ بہرحال ضروری ہو جاتا ہے۔