حسب سابق اس سال بھی رمضان المبارک کا پہلا جمعہ دارالہدٰی، سپرنگ فیلڈ، ورجینیا میں پڑھایا اور دو تین روز تک تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کریم کے خلاصہ کے طور پر کچھ معروضات پیش کیں۔ اس کے علاوہ بالٹی مور، نیوجرسی، برونکس اور لانگ آئی لینڈ کی متعدد مساجد میں قرآن کریم کے حوالہ سے گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے جس کے اعجاز کے بیسیوں پہلو مفسرین کرام نے بیان فرمائے ہیں اور ان میں دو تین ایسے ہیں جن کا ہم آج کے دور میں بھی کھلے بندوں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مثلاً یہی کہ قرآن کریم کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور اس کے حفظ و تدریس کے مدارس و مکاتب ہم مسلمانوں کی تمام تر زبوں حالی کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں قائم ہو رہے ہیں اور حفاظ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز اٹلانٹا میں ایک بچے سے میں نے مختلف مقامات سے قرآن کریم کی تلاوت سنی جس نے چھ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ مکمل کیا اور پھر دو سال میں تجوید کا کورس مکمل کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ جس کتاب کو امریکہ میں بھی چھ سال کا حافظ میسر ہے اس کے اعجاز کے لیے کسی اور دلیل کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
قرآن کریم کے اعجاز کا ایک اور پہلو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عرصہ سے امریکہ اور یورپ کے ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا ہے جن میں اکثر حضرات کا کہنا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تاثیر آج بھی پوری طرح قائم ہے اور جو شخص بھی اسے راہنمائی کی نیت سے پڑھے قرآن کریم اس کی راہنمائی کرتا ہے۔ اس ضمن میں ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں عام طور پر قرآن کریم تین چار مقاصد کے لیے پڑھا جاتا ہے:
- ایک یہ کہ اس کے پڑھنے سے اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ہر حرف پر کم از کم دس نیکیاں ملتی ہیں۔
- دوسرا مقصد اس سے برکت و رحمت کا حصول ہوتا ہے اور یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ جہاں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔
- تیسرے نمبر پر ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں اس خیال سے کہ اس سے شفا حاصل ہوگی اور یقیناً قرآن کریم پڑھنے سے روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی بیماریوں سے شفایابی ہوتی ہے۔
- جبکہ چوتھے نمبر پر ہم قرآن کریم کی تلاوت اس لیے کرتے ہیں کہ ایصال ثواب کر کے ہم اپنے کسی فوت ہونے والے دوست یا بزرگ کی بخشش اور مغفرت کا سامان کرتے ہیں اور تلاوت قرآن کریم سے یہ فائدہ بھی ضرور ملتا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر قرآن کریم ان چار میں سے کسی مقصد کے لیے پڑھا جاتا ہے اور ان میں سے کسی فائدے سے انکار نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا اپنا مقصد کیا ہے اور اس کا ایجنڈا کیا ہے؟ کوئی بھی کتاب ہم دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ یہ کس موضوع کی کتاب ہے اور کس فن اور علم سے اس کا تعلق ہے۔ قرآن کریم کے بارے میں بھی ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ یہ کس فن کی اور کس موضوع کی کتاب ہے تاکہ اس کو سامنے رکھ کر ہم اس کی تلاوت کریں۔
قرآن کریم نے اپنے موضوع اور ایجنڈے کا تعارف صرف ایک لفظ میں کر دیا ہے اور بالکل آغاز میں بتا دیا ہے کہ یہ ’’ہدیً للمتقین‘‘ ہے یعنی نسل انسانی کے لیے ہدایت اور راہنمائی کی کتاب ہے۔ یہ ’’ہدیً للناس‘‘ بھی ہے اور ’’ھدیً للمتقین‘‘ بھی ہے۔ اپنے خطاب کے حوالہ سے ہدیً للناس ہے اور عملی فائدہ اور استفادہ کے حوالہ سے ہدیً للمتقین ہے۔ لیکن اس کا اصل موضوع ’’ہدیٰ‘‘ ہی ہے کہ یہ ہدایت اور راہنمائی کی کتاب ہے اور ہر انسان کی زندگی کے لیے گائیڈ بک ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت اور سماع میں مذکورہ بالا چار فوائد کے ساتھ راہنمائی اور گائیڈنس کو بھی ہمیں اپنے مقاصد میں شامل کرنا چاہیے کہ قرآن کریم کا اصل مقصد یہی ہے۔ اور ہم یہ بات قرآن کریم کے کھلے اعجاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دور میں اگر کسی غیر مسلم نے قرآن کریم کو راہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھا ہے تو قرآن کریم نے اس کی راہنمائی کی ہے۔ کم از کم گزشتہ دو عشروں سے میں خود اس بات کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ مغرب کے پڑھے لکھے لوگوں میں سے جس نے بھی اسلام قبول کیا ہے اس نے کہا ہے کہ میں قرآن کریم کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہوں۔ دور حاضر کے چند نامور نومسلموں مثلاً یوسف اسلام، ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن، مورس عبد اللہ، یحییٰ برٹ اور حمزہ یوسف سے خود میری ملاقاتیں ہوئی ہیں ان حضرات کا کہنا ہے کہ انہیں قرآن کریم کی تعلیمات نے متاثر کیا ہے اور قرآن کریم ہی ان کے قبول اسلام کا ذریعہ بنا ہے۔
اس لیے میرے خیال میں آج کے دور میں ہم مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم اس سے دوسرے فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے راہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں اس سے راہنمائی حاصل کریں۔
یکم ستمبر کو میری پاکستان واپسی کے لیے روانگی تھی، اس سے قبل ایک روز نیوجرسی میں اور دو روز نیویارک میں رہنے کا موقع ملا۔ نیوجرسی میں بھارت کے ایک فاضل اور نوجوان عالم دین مولانا یاسر ندیم سے ملاقات ہوئی جو دارالعلوم دیوبند کے ایک نامور استاذ مولانا ندیم الواجدی کے فرزند ہیں اور باخبر اہل دانش میں سے ہیں۔ گلوبلائزیشن اور میڈیا کے اثرات پر ان کی ایک کتاب خاصی معروف ہوئی ہے جو میری نظر سے بھی گزر چکی ہے۔ آج کل وہ ایک تعلیمی پروگرام کے لیے تعارفی مہم چلا رہے ہیں جو انٹرنیٹ پر درس نظامی کے باقاعدہ کورس کے حوالہ سے ہے۔ یہ کورس پانچ سال کا ہے اور انگلش زبان میں ہے جس کا اہتمام یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے ممالک کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ کورس آن لائن تدریس کے ذریعے ہوگا اور تینوں براعظموں کے اوقات کو سامنے رکھ کر ان کے لیے الگ الگ کلاسوں کا نظام بنایا گیا ہے۔درس نظامی کے پانچ سالہ باقاعدہ کورس کے علاوہ عربی زبان اور ترجمہ قرآن کریم کے کورسز بھی ترتیب دیے گئے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کے ساتھ اس کا باقاعدہ الحاق بتایا گیا ہے۔ یہ کورسز ’’دارالعلوم آن لائن‘‘ کے عنوان سے ہیں جن کی ویب سائیٹ کا ایڈریس یہ ہے darululum.org اسے وزٹ کر کے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ میری ایک عرصہ سے خواہش تھی کہ انٹرنیٹ پر اس قسم کا کوئی آن لائن پروگرام جاری ہو اور کسی ذمہ دار تعلیمی ادارے کی طرف سے ہو تاکہ وہ حضرات جو کسی مدرسہ میں باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس سے استفادہ کر سکیں۔
امریکہ میں قیام کے آخری روز نیویارک میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہ العالی سے ملاقات ہوگئی جو میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ حضرت مفتی صاحب مدظلہ سے اس سے قبل لندن میں بھی ملاقات ہو چکی ہے جب انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے آفس میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام منعقد ہونے والی ایک فکری نشست خطاب فرمایا تھا لیکن اسے کم و بیش دو عشرے گزر چکے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ نیویارک تشریف لائے ہوئے ہیں اور شریعہ بورڈ کے مولانا مفتی روح الامین اور مولانا مفتی نعمان وزیر کے ہاں مقیم ہیں۔ میں اپنے پرانے دوست مولانا عبد الرزاق عزیز کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ گفتگو زیادہ تر حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے حوالہ سے رہی کہ ان دونوں بزرگوں کی وفات کے بعد ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ حضرت مفتی صاحب نے دونوں بزرگوں کی علمی و دینی خدمات کو سراہا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اس طرح امریکہ میں تقریباً ۴۵ دن گزارنے کے بعد یکم ستمبر کو نیویارک سے روانہ ہو کر تین ستمبر کو گوجرانوالہ واپس پہنچ گیا ہوں۔
ہم نے حضرت والد محترم کی حیات و خدمات کے حوالہ سے ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت کا ’’امام اہل سنت نمبر‘‘ کے عنوان سے اعلان کر رکھا تھا جس کی تیاری اور طباعت میں بوجوہ تاخیر ہوتی رہی اور مجھے اس سلسلہ میں پریشانی تھی کہ بیرون ملک بھی بہت سے احباب اس کے انتظار میں ہیں اور بار بار پوچھ رہے ہیں۔ واپس پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کم و بیش ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتل یہ نمبر مکمل ہو کر پریس جا چکا ہے اور امید ہے کہ رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ مکمل ہونے سے پہلے مارکیٹ میں آجائے گا، ان شاءا للہ تعالیٰ۔ اس خصوصی نمبر کے حصول اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لیے حافظ محمد طاہر سے فون نمبر ۰۳۳۴۴۴۵۸۲۵۶ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔