یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء

۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے زیر اہتمام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا جس میں جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے عمرہ اور بحرین کے حالیہ سفر کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور وہاں کے دوستوں کے جذبات سے ہمیں آگاہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

غزہ اور فلسطین کے حالیہ معرکہ کے بارے میں ایک بار پھر یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں تین فریق آمنے سامنے ہیں جن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار گرم ہے:

  • اسرائیل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے لیے سرگرم عمل ہے،
  • ایران دولتِ فاطمیہ کی بحالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے،
  • جبکہ عرب ممالک کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اپنی حکومتیں، ریاستیں اور بادشاہتیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،
  • اور ایک ممکنہ فریق ترکیہ ہے جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے اور اس کے لیے مناسب مواقع کی تلاش میں ہے۔

باقی پورا عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

اس معرکہ میں بیت المقدس کی حرمت، فلسطین کی آزادی، اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی حمیت اور جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں اپنی حکومتوں کی طرف سے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں رائے عامہ کی بیداری، پبلک اجتماعات کا اہتمام، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ کے محاذ پر بھی مختلف حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر انہیں منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔

جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدر کے غزوہ کا آغاز قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم قافلہ کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کی طرف سے یہ یکطرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے مطابق انہیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انہوں نے راستہ میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدہ کی رو سے مدینہ منورہ والے انہیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھہ اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انہوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآن کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ’’ولا ینالون من عدو نیلاً‌‘‘ فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً‌ اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقہ سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter