امریکہ کے دینی مراکز

   
۲۹ جولائی ۲۰۱۱ء

میں سات جولائی کو نیویارک پہنچا تھا، دو دن دارالعلوم نیویارک میں قیام رہا، نماز جمعہ کی امامت کی اور ہفتے کے روز گیارہ حفاظ کے آخری سبق کی تقریب میں شرکت کے بعد اتوار کو ورجینیا پہنچ گیا۔ مولانا عبد الحمید اصغر نے دارالہدٰی سے الگ ہونے کے بعد مدینۃ العلم کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی ہے جہاں بچیوں اور بچوں کو حفظ قرآن کریم اور درس نظامی کے ساتھ اسکول کی تعلیم دی جاتی ہے اور طلبہ و طالبات کا رجحان بحمد اللہ تعالیٰ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وہاں دو روز مغرب کے بعد بیان ہوا اور ۱۳ جولائی کو بالٹی مور پہنچ گیا۔

مولانا مفتی محمد حامد کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ ایک مصلی قائم کر کے برسہا برس سے دینی و تعلیمی کاموں میں مصروف ہیں۔ یہ مصلیٰ جو پہلے ایک مکان کے تہہ خانے میں تھا اب ایک وسیع عمارت کرایہ پر لے کر کھلے ہال میں منتقل کر دیا گیا ہے جسے ’’مسجد فاطمہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وہاں مغرب کے بعد بیان ہوا اور جمعۃ المبارک کے اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ اس کے علاوہ شہر کی بڑی جامع مسجد ’’الرحمہ‘‘ میں احباب کے ایک اجتماع سے مغرب کے بعد گفتگو کا موقع ملا۔

ہفتے کے روز دارالعلوم نیویارک کی سالانہ تقریب تھی جو لانگ آئی لینڈ کی مسجد حمزہ میں منعقد ہوئی۔ مختلف شہروں سے طلبہ و طالبات کے والدین اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بچوں نے مختلف موضوعات پر اردو، انگریزی، عربی اور ہسپانوی زبانوں میں تقریریں کیں، حمد و نعت پر مشتمل نظمیں ان زبانوں میں پڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کی۔ کم و بیش تین گھنٹوں پر مشتمل بچوں کا یہ پروگرام بہت خوب تھا، بچوں نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے بڑوں کے سامنے بہترین کارکردگی پیش کی۔ حتیٰ کہ ایک بچے نے جب جمعۃ المبارک کا خطبہ پڑھا تو یوں محسوس ہوا کہ ہم کسی باقاعدہ خطیب سے جمعۃ المبارک کا خطبہ سن رہے ہیں، اس کا انداز، حرکات و سکنات، درمیان میں مسنون طریقہ سے بیٹھنا اور لہجہ بالکل خطیبوں والا تھا۔ میں نے مغربی ممالک میں بہت سے خطیبوں کو کتاب ہاتھ میں لے کر خطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس بچے نے پورے اعتماد کے ساتھ خطیبانہ لہجے میں دونوں خطبے زبانی پڑھے تو بہت خوشی ہوئی۔

میں نے اپنے بیان میں اس پر دل لگی کے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اس تقریب کی برکت سے ہفتے کے روز ہمیں جمعۃ المبارک کا خطبہ سننے کو مل گیا ہے اور اس کے ساتھ ایک واقعاتی لطیفہ بھی سنایا کہ اب سے ربع صدی قبل ۱۹۸۷ء میں جب میں پہلی بار امریکہ آیا تو ریاست جارجیا کے ایک شہر میں گکھڑ کے ایک دوست کے ہاں چند روز قیام ہوا۔ ان کی بچی نے، جو اب خود بھی ماشاء اللہ بچوں والی ہے، ایک دن مجھ سے کہا کہ انکل آپ سنڈے تک ہمارے ساتھ رہیں ہم سنڈے کو جمعہ پڑھتے ہیں آپ بھی ہمارے ساتھ جمعہ پڑھیں۔ میں نے حیرت سے اس کے باپ کی طرف دیکھا تو وہ ہنس پڑا کہ اتوار کو چھٹی کے روز ہم یہاں کے چند مسلم گھرانوں کے افراد ایک کمیونٹی سنٹر میں جمع ہوتے ہیں، اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور ظہر کی نماز باجماعت پڑھتے ہیں اس کو یہ جمعہ سمجھتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ایک وقت تھا جب یہاں مسلم گھرانوں کے بچے سنڈے کو جمعہ سمجھا کرتے تھے لیکن اب بچے تلاوت کرتے ہیں، نظمیں پڑھتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور خطبے سناتے ہیں۔ یہ پیش رفت بہت مبارک ہے اور امریکہ میں یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کی آبادی اور گھرانوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ مسلم خاندانوں میں دینی تعلیم کا رجحان اور مساجد میں نمازوں کے لیے حاضری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

نیویارک سے ہفتہ کے روز مجھے ہیوسٹن جانا تھا، علی الصباح نماز فجر پڑھتے ہی روانگی ہوئی، مولانا حافظ اعجاز احمد اور قاری محمد یوسف عثمانی نے ایئرپورٹ پر رخصت کیا۔ درمیان میں ایک اسٹاپ کے ساتھ چار گھنٹے کا ہوائی سفر تھا۔ ہیوسٹن میں چشتیاں کے مولانا حافظ محمد اقبال کے مدرسہ اسلامیہ میں قیام رہا اور فیصل آباد کے قاری احمد صدیق صاحب میرے میزبان تھے۔ حسن اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ مصر کے معروف قاری ڈاکٹر احمد نعینع بھی ان دنوں امریکہ کے دورے پر تھے اور قاری احمد صدیق ان کے ہمراہ تھے۔ ہفتہ کے روز ڈیٹرائٹ میں ان کی محفل قراءت تھی اور اتوار کو انہیں شارلٹ کے راستے ہیوسٹن جانا تھا، میرا درمیان کا اسٹاپ بھی شارلٹ تھا۔ وہاں سے اگلی پرواز ان کی بھی وہی تھی جو میری تھی۔ شارلٹ کے ایئرپورٹ پر اچانک ایک دوسرے کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اور اگلا سفر ہم نے اکٹھے کیا۔

ہیوسٹن پہنچ کر قاری احمد نعینع کو ہوٹل پہنچا کر ہم سیدھے ریڈیو کے ایک پروگرام میں پہنچے جو ہر اتوار کو مدرسہ اسلامیہ کے تحت ہیوسٹن کے مسلمانوں کے لیے ہوتا ہے اور جامعہ بنوریہ کراچی کا تعاون بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ لاہور کے مولانا قاری امتیاز الرحمان تھانوی جو ایک عرصہ تک ایچی سن کالج کے پروفیسر رہے ہیں اور اب مدرسہ اسلامیہ ہیوسٹن میں استاذ ہیں، ایئرپورٹ پر انہوں نے ہمارا استقبال کیا اور ریڈیو پروگرام میں ہمارے شریک کار رہے۔ مولانا حافظ محمد اقبال، مولانا امتیاز الرحمان تھانوی، جناب عاطف فتح اور راقم الحروف نے اس پروگرام میں مختلف عنوانات پر گفتگو کی اور سامعین کے سوالات کے جوابات دیے۔

پچھلے پہر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر صاحب کے ہاں کھانے کی دعوت تھی، ڈاکٹر احمد نعینع مہمان خصوصی تھے۔ کھانے سے فراغت کے بعد گھر والوں کی فرمائش پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں قرآن کریم کی تلاوت کی۔ میرے لیے ان کی تلاوت سننے کا پہلا موقع تھا اور وہ بھی ایک نجی محفل میں، بہت لطف آیا اور یہ مختصر سی محفل یادگار بن گئی۔ مغرب کے بعد ایک مسجد میں محفل قراءت تھی لیکن میں دن بھر کی تھکاوٹ کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو سکا البتہ اگلے روز ان کی قاہرہ واپسی سے پہلے کھانے کی دعوت قاری صدیق صاحب کے ہاں تھی، وہاں قاری احمد نعینع صاحب کے ساتھ الوداعی ملاقات ہوئی۔ اس رات مغرب کے بعد مدرسہ اسلامیہ میں مغرب کے بعد تفصیلی بیان ہوا اور عشاء کے بعد ’’لائٹ آف اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک اور ریڈیو پروگرام میں شرکت ہوئی جو استقبال رمضان کے حوالے سے تھا۔ مولانا قاری امتیاز الرحمان تھانوی اور راقم الحروف نے اس میں فضائل قرآن کریم اور رمضان المبارک کی اہمیت اور برکات کے موضوع پر گفتگو کی۔

اس سے اگلے روز مولانا حافظ محمد اقبال اور مولانا قاری امتیاز الرحمان تھانوی کے ہمراہ ڈیلاس جانا ہوا اور ہم نے ایک رات علامہ اختر کاشمیری کے ہاں گزاری جو کسی زمانے میں ہفت روزہ خدام الدین اور ہفت روزہ چٹان کے مدیر رہے ہیں اور ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ میرے ہم عمر ہی ہوں گے مگر بڑھاپا انہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا، گفتگو کا انداز اور لہجے کی کاٹ ابھی تک قائم رکھی ہوئی ہے، پرانی یادیں تازہ کر کے رات دیر تک ہم خوش ہوتے رہے۔

ہیوسٹن میں چار پانچ دن گزار کر جمعرات کو اٹلانٹا جانا تھا جو کراچی سے لاہور کا سفر سمجھ لیجیے۔ مولانا قاری امتیاز الرحمان تھانوی اور قاری احمد صدیق نے بائی روڈ جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ ظہر کے بعد ہیوسٹن سے روانہ ہو کر ہم رات ایک بجے کے لگ بھگ برمنگھم الاباما پہنچے جہاں میرے گکھڑ کے ایک دوست افتخار رانا رہتے ہیں۔ رات ان کے ہاں قیام کیا اور صبح ان کے ہمراہ جمعہ تک اسلامک کمیونٹی سنٹر اٹلانٹا پہنچ گئے۔ فیصل آباد کے دوست قاری خالد رشید صاحب اس سنٹر کے امام و خطیب ہیں۔ عرب، پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کا مخلوط ماحول ہے اور بہت بارونق مرکز ہے۔ میں کم و بیش ربع صدی سے مغربی ممالک میں گھوم پھر رہا ہوں مگر اتوار کے روز فجر کی نماز میں نمازیوں کا ہجوم اس پورے عرصہ کے دوران میں نے پہلی بار اس سنٹر میں دیکھا ہے۔ ورنہ مغربی ممالک کی بہت سی مساجد میں اتوار کے روز فجر کی نماز میں اکا دکا نمازی ہی ملتے ہیں۔ جبکہ اسلامک سنٹر اٹلانٹا میں اتوار کے روز فجر کی نماز کے بعد راقم الحروف اور مولانا امتیاز الرحمان تھانوی کے تفصیلی بیانات ہوئے، نمازیوں کی بڑی تعداد جم کر بیٹھی رہی اور بعد میں سب نے اکٹھے ناشتہ کیا۔ تھانوی صاحب کے بیانات عام طور پر انگلش زبان میں ہوتے رہے جبکہ میری گفتگو اردو میں ہوتی اور جہاں ضرورت محسوس ہوتی تھانوی صاحب انگلش ترجمہ کی بھی زحمت فرماتے۔

اٹلانٹا میں ’’جارجیا اسلامک انسٹیٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ اور دینی مرکز جو بنوں کے مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الغفار کی نگرانی میں کام کر رہا ہے، کئی ایکڑوں پر محیط بہت سی خوبصورت اور وسیع بلڈنگوں میں دعوت و تعلیم کا وسیع سلسلہ جاری ہے۔ ان سے ملاقات کے لیے حاضری میرے پروگرام کا حصہ تھی مگر یہاں بھی یہ حسن اتفاق ہوا کہ اسی روز ان کے ہاں استقبال رمضان کا جلسہ تھا جس میں ہمارے پرانے دوست مولانا قاضی فضل الہ صاحب (سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان) تشریف لا رہے تھے۔ حافظ عبد الغفار کسی زمانے میں جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم راہنماؤں میں رہے ہیں اور میں ان کے اس مرکز میں دو سال قبل اہلیہ سمیت چند دن گزار چکا ہوں۔ حافظ صاحب ہماری اچانک حاضری پر بہت خوش ہوئے اور مجھے جلسہ کی صدارت کا اعزاز بخشا۔ قاضی فضل اللہ صاحب کے ساتھ کم و بیش بیس برس کے بعد ملاقات ہوئی اور کسی پبلک جلسہ میں ان کی تقریر پہلی بار سنی۔ خالص پشتون لہجے میں ترنم کے ساتھ انگریزی میں تقریر، اسی انداز میں قرآن کریم کی تلاوت اور موقع محل کے مطابق اشعار کے جوڑ نے بہت مزہ دیا۔ قاضی صاحب موصوف کئی برسوں سے کیلیفورنیا میں مقیم ہیں اور دعوت و تعلیم کے میدان میں مسلسل خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

۲۴ جولائی کو اٹلانٹا سے ڈیٹرائٹ حاضری ہوئی اور دو روز مولانا قاری محمد الیاس صاحب آف فیصل آباد کے گھر میں قیام رہا۔ ان کی مسجد بلال میں مختصر بیانات ہوئے جبکہ دونوں روز انہوں نے علاقہ کی دو بڑی مساجد میں مغرب کے بعد بیانات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ بہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان دنوں یہاں عام طور پر رؤیت ہلال کا مسئلہ زیر بحث رہتا ہے اور دینی حلقے تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک حلقہ فلکیات کے حساب سے پہلے ہی یکم رمضان اور عیدین کے ایام کا فیصلہ کر کے اعلان کر دیتا ہے، دوسرا حلقہ مقامی طور پر رؤیت ہلال کو ضروری سمجھتا ہے، اور تیسرا طبقہ سعودی عرب کے اعلان پر رمضان المبارک اور عیدین کا اہتمام کرتا ہے۔ اس سے امریکہ کے مسلمانوں میں خاصا خلفشار ہے اور بسا اوقات ایک ہی گھر کے افراد مختلف دنوں میں عید کرتے ہیں اور روزوں کا حساب رکھتے ہیں۔ مجھ سے اکثر جگہ اس کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا کہ میری طالب علمانہ رائے میں رؤیت ہلال تو بہرحال ضروری ہے البتہ اس کی دو صورتوں میں سے مقامی طور پر رؤیت ہلال کے اہتمام کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ ہاں اگر امت کو خلفشار سے بچانے اور وحدت کا ماحول قائم کرنے کے لیے سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے ملک کی رؤیت ثابتہ کو بنیاد بنا لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔

مسجد بلال کی انتظامیہ نے ڈیٹرائٹ کے علاقہ کنٹن میں ایک بڑا چرچ خرید لیا ہے جو قاری شاہد صاحب نے مجھے وہاں لے جا کر دکھایا، چھ ایکڑ زمین کے ساتھ ۲۰۰۲ء میں تعمیر کیا گیا ہے، یہ تازہ چرچ اب ایک خوبصورت مسجد کی صورت میں دورِ نو کا آغاز کر رہا ہے جو بلاشبہ مسلمانوں کے دینی ذوق اور اسلام کی صداقت و اعجاز کی ایک واضح علامت ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter