کراچی میں تین روزہ حاضری اور مختلف اداروں کے پروگراموں میں شرکت کا کچھ تذکرہ باقی ہے۔ میں جس روز کراچی پہنچا تو معلوم ہوا کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم بھی تشریف لائے ہوئے ہیں اور دفتر ختم نبوت میں قیام پذیر ہیں۔ حضرت مدظلہ سے پرانی نیاز مندی ہے اور وہ بھی ہمیشہ سے مشفق ہیں۔ آپ ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر رہے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ کی حیثیت سے تحریک ختم نبوت کی قیادت حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ العزیز کے بعد سے ان کے سپرد ہے، وہ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سربراہ بھی ہیں۔ مجھے ان کے ایک کارکن اور ٹیم کے رکن کے طور پر سالہا سال تک ان دونوں محازوں پر کام کرنے موقع ملا ہے او ربے شمار مجالس ومحافل میں ان کے ساتھ شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ وہ ملک کے ان چند بزرگوں میں سے ہے جن کے وجود سے دل کو سہارا ملتا ہے کہ اسلاف کی کچھ نشانیاں ابھی باقی ہیں، جن کی برکات ہمیں میسر ہیں اور جن سے راہنمائی حاصل کر کے اعتماد رہتا ہے کہ ہم صحیح سمت چل رہے ہیں۔ مگر میری بدقسمتی کہ جب دفتر ختم نبوت حاضری کے لیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مولانا خواجہ خان محمد صاحب واپس تشریف جا چکے ہیں، البتہ برادرم مولانا سعید احمد جلال پوری اور ان کے رفقاء سے ملاقات ہوئی اور تحریک ختم نبوت کی تازہ صورت حال پر ان سے تبادلۂ خیالات ہوا ۔ مولانا سعید احمد جلال پوری مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کے تربیت یافتہ ہیں اور انہی کی مسند پر دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، حضرت والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب کے ساتھ بھی خادمانہ تعلق رکھتے ہیں اور انہیں سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت والد صاحب مدظلہ سے خلافت و اجازت ہے، ان کے پاس بیٹھ کر مفتی جمیل خان شہید بھی بہت یاد آئے کہ وہ اور ہم ایک ہی ٹیم کے افراد تھے اور ساری ’’وارداتیں‘‘ اکٹھے کرتے تھے۔
روزنامہ اسلام کے دفتر پر میں نے اچانک چھاپہ مارا یعنی اطلاع دیے بغیر وہاں پہنچ گیا، یہاں ادارتی شعبہ کے نگران قاری ضیاء الرحمان اور دیگر صحافی ساتھیوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ ’’اسلام‘‘ جس طرح صحافتی محاذ پر دین اور ملت اسلامیہ کی خدمت کر رہا ہے، جس کامیابی کے ساتھ دینی حلقوں کی نمائندگی میں مصروف ہے اور اس نے ملک بھر میں جو اپنا وسیع حلقہ بنایا ہے اسے حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز کی کرامت سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ مختلف مسائل پر جو کچھ ذہن میں آتا ہے اسے ملک بھر کے احباب تک پہنچانے کے لیے’’ اسلام‘‘ کے سوا کوئی اور مؤثر ذریعہ جو ہمارے جیسے فقیروں کی دسترس میں بھی ہو، میسر آسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب نفی میں ملا اور ہر بار دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ’’اسلام‘‘ کی ٹیم کو سعادت دارین سے نوازیں اور اپنے اس مشن میں ترقی وسائل، توفیق اور ثمرات سے مالا مال فرماتے رہیں۔
گرو مندر چوک کی مسجد سبیل میں برادرم مولانا محمد طیب کشمیری کے ہاں حاضری ہوئی، وہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فضلاء میں سے ہیں اور میرے دورِ طالب علمی کے ساتھی ہیں، ہم نے تین چار سال اکٹھے گزارے، بعض اسباق میں بھی میرے شریک رہے اور طالب علمانہ شرارتوں میں اکثر حصہ دار رہے۔ ان کے چچا مولانا امیر الزمان خانؒ آزاد کشمیر کے مجاہد علماء میں سے تھے، جمعیۃ علماء جموں وکشمیر کے سیکر ٹری جنرل رہے، دارلعلوم دیوبند کے فاضل تھے، شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتھم کے دست راست تھے اور آزاد کشمیر میں شرعی قوانین کے نفاذ اور اسلامی اقدار کے تحفظ و فروغ میں زند گی بھر سر گرم عمل رہے۔ آزاد کشمیر کے شہر باغ سے چند میل پہلے نعمان پورہ میں ان کا مدرسہ قاسم العلوم کے نام سے ایک دینی درسگاہ ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ مولانا محمد طیب کشمیری ان کے بھتیجے ہیں اور ایک عرصے سے مسجد سبیل کے خطیب ہیں، صاحب مطالعہ اور باصلاحیت عالم دین ہیں، لکھنا چاہیں تو اچھا لکھ سکتے ہیں لیکن اپنی افتاد طبع کے باعث محدود سرگرمیوں پر قناعت کیے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ رمضان المبارک کے دوران آنے والے خوفناک زلزلہ میں ان کا شادی شدہ جواں سال فرزند شہید ہو گیا اور بیٹی شدید زخمی ہوئی جس کا وہ کراچی میں علاج کرا رہے ہیں، ان سے تعزیت کے لیے حاضری دی اور بہت سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔
بریگیڈیئر (ر) قاری فیوض الرحمان سے ملاقات اور مختلف امور پر مشاورت کراچی کے اس سفر کی اہم مصروفیات میں سے تھی۔ قاری صاحب کا تعلق ایبٹ آباد کے علاقے سے ہے، جامعہ اشرفیہ لاہور کے فضلاء میں سے ہیں، مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے خاص تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے خوشہ چینی کا شرف بھی حاصل کیا اور حضرت لاہوریؒ کے خلیفہ مجاز مولانا بشیر احمد سہروردیؒ سے غالباً خلافت و اجازت بھی رکھتے ہیں، دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے بہرہ ور ہیں، اچھی خاصی ڈگریوں کے حامل ہیں، علماء ہزارہ اور علماء سرحد کے سوانح و تراجم پر ان کا اچھا خاصا کام ہے اور بہت سی تصنیفات کے مصنف ہیں۔ وہ آرمی سے بریگیڈیئر کے منصب سے ریٹائر ہوئے، جی ایچ کیو میں شعبہ دینی تعلیمات کے سربراہ رہے، فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد کراچی میں ڈیفنس ہاؤسنگ ا تھارٹی کے دینی علوم کے شعبہ سے منسلک ہیں اور جامعہ انوار القرآن (آدم ٹاؤن، نارتھ کراچی) میں ڈائریکٹر تعلیمات کے منصب پر کام کر رہے ہیں۔ میں حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کو اس حسین انتخاب کی داد دیتا ہوں، صرف اس درخواست کے ساتھ کہ قاری صاحب موصوف کے تجربات اور علمی مہارت سے استفادہ کا دائرہ جامعہ انوار القرآن تک محدود نہ رہے بلکہ کراچی کے دیگر دینی اداروں کو بھی ان سے فائدہ اٹھا نے کا موقع ملتا رہے۔ اگر مولانا فداء الرحمان درخواستی ایک قدم اور آگے بڑھا کر اس رخ پر کام کرنے والے تعلیمی اداروں کا ایک مشاورتی اجلاس کسی مناسب جگہ میں طلب کر سکیں تو قاری فیوض الرحمان کے تجربات اور اثر و رسوخ سے بہتر طور پر استفادہ کرنے کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
کراچی حاضری کے چند مراحل کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ایک ذاتی نوعیت کے مسئلہ کی طرف احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ دینی اجتماعات اور پروگراموں میں حاضری طالب علمی کے دور سے میرا معمول رہی ہے اور ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں میں نے اس سلسلہ میں حاضری نہ دی ہو۔ یہ سلسلہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے لیکن اب یہ معاملہ میری دسترس سے بتدریج نکلتا جا رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تدریسی مصروفیات ہیں کہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے اسباق اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فضلاء درس نظامی کی خصوصی کلاس کے اسباق کی وجہ سے کوئی ایسا سفر میرے بس میں نہیں جس سے اسباق متاثر ہوتے ہوں۔ میرا صبح کا وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں اور پچھلا پہر الشریعہ اکادمی میں مصروفیت کا ہوتا ہے۔ ترجمہ قرآن کریم، بخاری شریف، مسلم شریف، طحاوی شریف اور حجۃاللہ البالغہ جیسے اسباق مطالعہ کے لیے بھی وقت مانگتے ہیں جس کی وجہ سے سفر میرے لیے انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمر کے حوالے سے بھی اب سٹھیانے کے مرحلے میں ہوں کہ ہجری اعتبار سے میرا سن ولادت ۱۳۶۷ھ ہے، ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی ہو گیا ہوں، اس لیے پہلے کی طرح اب طویل سفر اور کام دونوں ساتھ ساتھ نہیں چلا سکتا۔ مگر ملک کے مختلف حصوں سے دینی مدارس، جماعتی حلقوں، علمی مراکز اور احباب کا مسلسل تقاضا رہتا ہے کہ ان کے ہاں ضرور حاضری دوں، مجھے اس حاضری کی افادیت سے انکار نہیں بلکہ دوستوں سے ملاقات کرکے خوشی ہوتی ہے لیکن اب یہ سب کچھ میرے بس میں نہیں رہا۔ اس لیے ملک بھر کے احباب سے معذرت کے ساتھ یہ گزارش کر رہا ہو ں کہ کسی بھی اجتماع کے لیے آئندہ کوئی بھی ایسا سفر نہیں کر سکوں گا جس سے مدرسہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی کے اسباق متاثر ہوتے ہوں۔ صرف جمعرات کے دن اس حد تک گنجائش میں نے رکھی ہے کہ صبح مدرسہ کے اسباق سے فارغ ہو کر سفر کے لیے روانہ ہو جاؤں اور رات کسی وقت گھر واپس پہنچ جاؤں تاکہ صبح تھوڑا سا آرام کر کے جمعہ پڑھا سکوں، اس کے سوا احباب کسی سفر کے لیے اصرار نہ فرمائیں ورنہ میری بار بار کی معذرت ان کے ساتھ ساتھ میرے لیے بھی تکلیف کا باعث ہو گی۔